اوپیک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں!
Posted on July 1, 2018 by Jason Bordoff in شمارہ یکم جولائی 2018 // 0 Comments

حال ہی میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والی متعدد میٹنگز سے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ’’اوپیک‘‘ نے یہ بات تو ثابت کردی ہے کہ اس کی موت سے متعلق کی جانے والی قیاس آرائیاں انتہائی مبالغہ آمیز ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ تنظیم ایسی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے جن کے نتیجے میں تیل سے تعلق رکھنے والی سیاست و معیشت غیر معمولی حد تک متاثر ہوگی۔
مبصرین ایک زمانے سے اوپیک کا ماتم کر رہے ہیں۔ نومبر ۲۰۱۴ء میں ایک بڑا بحران اس وقت پیدا ہوا جب سعودی عرب نے پیداوار گھٹانے کا اعلان کیا اور عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ بڑھ گئے۔ سعودی عرب کا اقدام امریکا میں شیل آئل کی پیداوار میں اضافے کے تناظر میں تھا۔ امریکا میں شیل آئل کی پیداوار بڑھنے سے عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ بڑھتے ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں اس وقت کے امریکی وزیر خزانہ ایلن گرینسپین نے یہ کہہ کر معاملات کو مزید خرابی کی طرف دھکیلا کہ اوپیک اب اپنی طاقت سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ شیل آئل کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا وہ درست ثابت نہ ہوئے اور خام تیل کی بڑھتی ہوئی پیداوار نے ۲۰۱۶ء میں تیل کے نرخ ۲۷ ڈالر فی بیرل کی سطح تک گرادیے۔ اوپیک کے ارکان اور تیل پیدا و برآمد کرنے والے دیگر ممالک نے مل کر طے کیا کہ تیل کی پیداوار گھٹائی جائے گی تاکہ نرخ کسی حد تک مستحکم کیے جاسکیں۔
ڈھائی برس کے بعد اوپیک کی پیداوار میں کمی لائے جانے کے نتیجے میں تیل کے نرخ بلند ہوئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران پر نئی پابندیاں عائد کیے جانے کے اعلان کے بعد تیل کے نرخ ۸۰ ڈالر فی بیرل تک جاپہنچے ہیں۔ یہ صورتحال امریکا اور یورپ کے لیے خطرناک ہو یا نہ ہو، چین اور بھارت جیسے تیل کے بڑے صارفین کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ دونوں ممالک نے اوپیک پر زور دیا ہے کہ وہ تیل کی پیداوار بڑھائیں تاکہ نرخ نیچے لائے جاسکیں۔ نرخوں میں اضافے سے چین اور بھارت دونوں ہی کی معیشت شدید متاثر ہوئی ہے۔ چین، برازیل، اردن اور کئی دوسرے ممالک میں پٹرولیم مصنوعات کے بڑھتے ہوئے نرخ عوام کو احتجاج پر مجبور کر رہے ہیں۔ کئی ممالک کی معیشت شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ امریکا اور یورپ متبادل ذرائع کی طرف لپک رہے ہیں۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو مقبولیت سے ہم کنار کرنے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اوپیک کے ارکان جس بحران سے دوچار ہیں وہ خود انہی کا پیدا کردہ ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کے نرخ غیر معمولی حد تک انہوں نے خود بلند کیے تھے اور یہ مدت جب طول پکڑ گئی تو امریکا میں شیل آئل کی مقبولیت کا آغاز ہوا۔ اس کے نتیجے میں عمومی خام تیل کے نرخ گِرے۔ اگر عالمی منڈی میں عمومی خام تیل انتہائی مہنگا نہ ہوا ہوتا تو تیل کے حصول کے دیگر ذرائع کی تلاش میں لوگ نہ نکلے ہوتے۔
اس وقت عالمی منڈی میں تیل کے بلند ہوتے ہوئے نرخ بھی دراصل اوپیک کی غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ چند ارکان نے پیداوار میں غیر معمولی کمی کی اور وینزویلا نے پیداوار میں اچھی خاصی کٹوتی کردی۔ خام تیل کے نرخ ایک بار پھر بلند ہوتے جارہے ہیں اور اس کے نتیجے میں محض خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ اوپیک کے ارکان جو کچھ چاہتے ہیں اس سے زیادہ کر گزرتے ہیں جو تیل کے نرخوں کو فوری طور پر تو بلندی عطا کرتا ہے مگر آگے چل کر اس کے شدید منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
عالمی منڈی میں تیل کا بحران ختم کرنے کے لیے لازم ہے کہ اوپیک کے ارکان ۲۰۱۶ء کے عہد کے مطابق پیداوار میں اضافہ کریں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پیداوار گھٹانا تو کوئی بات ہی نہیں، ہاں بڑھانا بہت بڑا دردِ سر ہے۔ اس وقت صرف سعودی عرب، روس، کویت اور متحدہ عرب امارات میں پیداوار فوری طور پر بڑھانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ان چاروں ممالک کے سوا اوپیک میں یا اس سے باہر کوئی بھی ملک پیداوار کو فوری طور پر بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ پیداوار کو جس حد تک گھٹانا تھا اسے اگر اوپیک کے ارکان نے آپس میں بانٹ لیا ہوتا تو آج یہ بحرانی کیفیت پیدا نہ ہوئی ہوتی۔ اس وقت پیداوار میں فوری طور پر ۶ لاکھ بیرل یومیہ اضافے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہونے سے عالمی منڈی میں تیل کے نرخ بڑھتے ہی رہیں گے اور یوں معاملات بحرانی کیفیت سے دوچار رہیں گے۔
اوپیک اندرونی بحران کا بھی شکار ہے۔ اس کے ارکان اب تک واضح نہیں کر پائے ہیں کہ وہ مل کر کیا کرنا چاہتے ہیں اور الگ الگ، انفرادی حیثیت میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔ میڈیا میں اوپیک کے ارکان یہ بات کھل کر بیان کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ ان میں کون کیا چاہتا ہے، ترجیحات کیا ہیں۔ پیداوار گھٹانے یا بڑھانے پر کامل اتفاق نہیں پایا جاتا۔ سارا زور یہ ثابت کرنے پر ہے کہ اوپیک اب بھی تیل کی عالمی منڈی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مبصرین اس بات کو سمجھتے ہیں کہ محض دعوے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اوپیک کو یہ بات کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا کہ وہ اب بھی مستحکم ہے اور تیل کی عالمی منڈی پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
اوپیک میں سعودی عرب کا کردار ہمیشہ کی طرح غیرمعمولی حد تک بڑا ہے۔ وہ اب بھی تمام بڑے فیصلوں پر اپنے غالب اثرات رکھتا ہے۔ سعودی عرب ہی نے حال ہی میں کیے جانے والے فیصلے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے کہ نرخ کو ایک حد سے زیادہ بلند ہونے سے روکا جائے۔ سعودی عرب پیداوار گھٹانے اور بڑھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف ایران چاہتا ہے کہ پیداوار میں اضافہ کیا جائے تاکہ تیل کی عالمی منڈی میں استحکام پیدا ہو اور امریکا ایرانی قیادت کے خلاف اقدامات سے باز رہے۔ ایران اب بھی یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ وہ تیل کی رسد میں اضافے کے حوالے سے کیا کرسکتا ہے جبکہ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ رسد میں دس لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ ممکن ہے۔ سعودی عرب کا یہ بیان تیل کے نرخ مستحکم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ سعودی عرب اور روس دونوں ہی اس بات کے حق میں ہیں کہ عالمی منڈی میں نرخ قابو میں رکھنے کے لیے پیداوار میں متعدبہ اضافہ کیا جائے۔
روس اگرچہ اوپیک کا باضابطہ رکن نہیں ہے مگر وہ تیل پیدا کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہوگیا ہے۔ سعودی عرب اور روس بہت سے معاملات میں اتفاق رائے کی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔ اوپیک کے فیصلوں میں روس کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے۔ سعودی عرب اور روس مل کر اس تنظیم کو چلا رہے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں اوپیک ممالک تیل کی عالمی پیداوار کا نصف فراہم کر رہے تھے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں معاملہ ایک تہائی رہ گیا۔ اب یہ تنظیم تیل کی عالمی پیداوار کا ۴۰ فیصد فراہم کر رہی ہے۔ تیل کی عالمی پیداوار کو معقول حد تک رکھنا انتہائی دشوار عمل ہے۔ سعودی عرب جو کچھ چاہتا ہے اس سے روس مکمل طور پر متفق نہیں ہوسکتا۔
تیل کی عالمی منڈی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے روس کے سربراہ ولادی میر پوٹن کی پوزیشن مزید بہتر ہوئی ہے اور وہ عالمی سطح پر اپنے آپ کو زیادہ منوانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں آگے چل کر ماسکو بہت سے معاملات میں واشنگٹن سے زیادہ ڈٹ کر بات کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ امریکا یہ تاثر ضرور دے رہا ہے کہ وہ توانائی کے معاملے میں دوسروں کا زیادہ محتاج نہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تیل کی عالمی منڈی متاثر ہوگی تو امریکا بھی لامحالہ متاثر ہوگا۔
امریکا کی خام تیل کی یومیہ پیداوار بیس لاکھ بیرل تک ہے مگر صرف بھی بہت زیادہ ہے۔ شیل آئل کی پیداوار میں کمی بیشی واقع ہوتی رہتی ہے۔ امریکا میں بیسیوں ادارے اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ کوئی بھی ایسا ویسا فیصلہ معاملات کو بہت بگاڑ دے گا۔ امریکی قیادت خواہ کچھ کہے، کوئی بھی دعوٰی کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عالمی سیاست تیل اور گیس کے گرد گھومتی ہے۔ امریکا بھی، سپر پاور ہونے کے باوجود، تیل کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کے اثرات سے بچ نہیں سکتا۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ اپنے دورۂ سعودی عرب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی قیادت سے استدعا کی تھی کہ تیل کی پیداوار بڑھائی جائے تاکہ ایران کی جانب سے تیل کی پیداوار گھٹانے کے اعلان سے امریکی صارفین متاثر نہ ہوں!
ویانا کے حالیہ اجلاسوں سے یہ ثابت ہوگیا کہ اوپیک ابھی مری نہیں مگر خیر، اس کے اثرات غیر معمولی بھی نہیں۔ تیل پیدا اور برآمد کرنے والے ممالک کو بہت سے معاملات میں اب بھی توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاملات کو بگڑنے سے بچایا جاسکے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“This isn’t your father’s OPEC anymore”. (“Foreign Policy”. June 26, 2018)
Leave a comment