آسٹریلوی حکومت نے کورونا وائرس کے حوالے سے غیر جانبدار اور خود مختار نوعیت کی بین الاقوامی تحقیقات کی تجویز پیش کی ہے۔ صورتِ حال کی مناسبت سے یہ ایک عمدہ اور بروقت تجویز ہے۔
کورونا وائرس دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی تباہی ہے، جس کا دنیا کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں چین اور عالمی ادارۂ صحت دونوں کی ذمہ داری ہے کہ معاملات کو درست اور شفاف بنائیں تاکہ دنیا کو دوبارہ ایسی کسی بھی صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والے بحران نے چینی قیادت کی خامیوں اور مطلق العنانیت پر مبنی طرزِ حکمرانی کے دیوالیہ پن کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ چینی طرزِ حکمرانی کے تحت حقیقت سے دور بیانیے جاری کیے جاتے ہیں اور ہر ایسے ویسے معاملے کو پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ عمل عالمی آبادی کو صحت کے شدید خطرات سے دوچار کرتا ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے چین کی طرف سے معاملات درست کرنے سے متعلق کوششیں حقائق کو چھپانے اور عالمی ادارۂ صحت پر اثر انداز ہونے سے شروع ہوئیں۔ چینی قیادت نے عالمی ادارۂ صحت کے ماہرین کو چین کے دورے کی اجازت دینے سے انکار کیا اور جنوری کے آخر میں چینی صدر شی جن پنگ سے عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈ روز ایڈہانوم گیبریسیس کی ملاقات کے بعد معاملات کو درست کرنے کی راہ کچھ ہموار ہوئی۔ تب تک کورونا وائرس کا معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اس کے بعد چین نے مطلق العنانیت پر مبنی اپنی طرزِ حکمرانی کو درست اور اعلیٰ معیار کا ثابت کرنے کے حوالے سے غیر معمولی کوششوں کا آغاز کیا۔ سوفٹ پاور سے متعلق چین کی کوششیں مجموعی طور پر اب تک ناکام رہی ہیں کیونکہ اس نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جو ماسک اور کٹس فروخت کیں وہ کمتر معیار کی تھیں۔ چین کے بارے میں یہ تصور پوری دنیا میں عام ہے کہ اس کا مال پست معیار کا ہوتا ہے، جس پر پورا بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ چین نے اس تاثر کو ختم کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ ایک بار پھر ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
چین کی سوفٹ پاور ڈپلومیسی
چند ایک ترقی یافتہ ممالک ہی چین کی سوفٹ پاور ڈپلومیسی کے آگے جھکنے پر مجبور ہوئے ہیں یا اُسے تسلیم کرلیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر کورونا وائرس واقعی چین کا پھیلایا ہوا ہے تو پھر اُسے اِس کی سزا بھی دی جانی چاہیے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب نے (جو بورس جانسن کی جگہ وزیر اعظم کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں) کہا ہے کہ چین کو چند سخت سوالوں کا سامنا ہے۔ اُسے بتانا پڑے گا کہ کورونا وائرس کیسے پھیلا اور کیا اس کا پھیلاؤ روکا جاسکتا تھا۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکراں نے ’’فائنانشل ٹائمز‘‘ سے انٹرویو میں کہا کہ یہ تسلیم کرنا سادہ لوحی پر مبنی ہوگا کہ چین نے کورونا کی وبا پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی کیونکہ بہت سے ایسے معاملات بھی ہیں جو ہوئے مگر ہمارے علم میں نہیں۔
چند ایک پسماندہ ممالک کے لیے چین بہت کچھ کرتا ہے۔ انہیں چین کی طرف سے کسی نہ کسی شکل میں امداد ملتی رہتی ہے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے چین نے منصوبہ بندی کی ہے اور وہ ایسے اقدامات کر رہا ہے، جن کے نتیجے میں اُسے بھی فائدہ پہنچے اور اُس سے کسی نہ کسی شکل میں امداد کی توقع رکھنے والے ممالک بھی محروم نہ رہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کی ناکامیاں
کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کی کارکردگی بھی کسی اعتبار سے قابلِ فخر نہیں رہی۔ ایبولا اور دیگر وباؤں کے حوالے سے نیز خطۂ بحر الکاہل میں اس نے جو کامیابیاں حاصل کی تھیں، وہ اس بار دکھائی نہیں دی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دیگر تمام عالمی تنظیموں کی طرح عالمی ادارۂ صحت کو بھی رکن ممالک کی طرف سے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ مگر خیر، کسی بھی عالمی ادارے کو اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے بحرانی کیفیت میں ڈٹ کر سامنے آنا چاہیے اور کسی بھی نوع کا غیر ضروری دباؤ قبول کرنے سے صاف انکار کرنا چاہیے۔ کورونا وائرس کے معاملے میں عالمی ادارۂ صحت نے چین کی مرضی کے آگے غیر ضروری طور پر اِس طور سر جھکایا ہے کہ اس معاملے کو کسی بھی طور قبول نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی ادارۂ صحت نے پورا جنوری اور فروری کا بڑا حصہ بھی ضائع کیا اور وہی باتیں کرتا رہا جو چین اُس سے کہلوانا چاہتا تھا۔ آسٹریلیا کی حکومت نے معاملات کو بھانپتے ہوئے یکم فروری کو عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات نظر انداز کرتے ہوئے چین سے آنے والوں پر پابندی عائد کردی۔ صرف دو دن بعد عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روز ایڈہانوم گیبریسیس نے چین سے متعلق سفری پابندیاں عائد کیے جانے کے حوالے سے آسٹریلیا کو ہدفِ تنقید بنایا۔ یہ اقدام عالمی صحت کے حوالے سے کسی بڑے ادارے کے مینیجر کا نہیں۔ یہ تو صاف صاف کسی ملک کا کاروباری ایجنڈا لگتا ہے۔ ہیلتھ مینیجرز کی واضح ذمہ داری ہے کہ صحتِ عامہ کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے احتیاطی تدابیر کے اصول کی بنیاد پر بروقت اور جامع اقدامات کریں۔
انسدادِ وبا اور چینی نظریات
عالمی ادارۂ صحت نے ویسے تو اور بہت سے ایسے اقدامات کیے ہیں جنہیں کسی طور قبول نہیں کیا جاسکتا، تاہم سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ چین کے کہنے پر تائیوان کو تنظیم سے نکال دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے تائیوان کا شمار کامیاب ترین ممالک میں ہوتا ہے اس لیے عالمی ادارۂ صحت سے اس کا نکالا جانا کسی بھی طور برداشت یا قبول نہیں کیا جاسکتا۔
ٹرمپ بمقابلہ عالمی ادارۂ صحت
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ حال ہی میں عالمی ادارۂ صحت کی فنڈنگ ۶۰ تا ۹۰ دن معطل کرکے اچھی خاصی تنقید کا نشانہ بنے۔ انہوں نے یہ اعلان کورونا وائرس سے متعلق انتباہ اور چین کی طرف عالمی ادارے کے جھکاؤ کی بنیاد پر کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں عالمی ادارۂ صحت سے جواب طلبی کا صدر ٹرمپ کے پاس ٹھوس جواز ہے، مگر اس کے باوجود اُن کے اس اقدام کو اپنی نا اہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش سمجھا جارہا ہے۔
اختلافی امور اپنی جگہ، سچ یہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت ایک اہم عالمی ادارہ ہے۔ اُس نے ماضی میں خاصی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اب اُس کا کردار مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر امریکا نکل جائے؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر امریکا عالمی ادارۂ صحت سے نکل جائے تو؟ اگر ایسا کچھ ہو تو بہت برا ہوگا۔ عالمی ادارۂ صحت سے امریکا کے نکل جانے سے جو خلا پیدا ہوگا اُسے پُر کرنے کا موقع چین کو ملے گا اور وہ اس صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ ایسی صورت میں عالمی ادارۂ صحت کو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرضی کے مطابق چلانے کا بھرپور موقع ملے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی ادارۂ صحت نے اپنے فکر و عمل سے امریکا سمیت بہت سے ممالک کو پریشانی سے دوچار کیا ہے مگر پھر ٹرمپ کا امریکا کو عالمی ادارۂ صحت سے نکالنے کا فیصلہ اُن کے ذاتی مفادات کے تابع سمجھا جائے گا۔
سرِ دست معاملات کو بہتر بنانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ آسٹریلیا کی جانب سے پیش کی جانے والی اس تجویز پر عمل کیا جائے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور روک تھام سے متعلق اقدامات کی تحقیقات کی جائیں یعنی معلوم کیا جائے کہ یہ وائرس کس ملک میں پیدا ہوا یا بنایا گیا، اس کا پھیلاؤ روکنے سے متعلق کیا اقدامات کیے گئے۔ اس وقت عالمی نوعیت کے معاملات کو درست کرنے کے لیے آسٹریلیا جیسی درمیانی قوتوں کے میدان میں آنے کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری طرف عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روز ایڈہانوم گیبریسیس کی طرف سے ایک اچھا اقدام یہ ہوگا کہ وہ مستعفی ہوں اور کسی موزوں شخصیت کو اس اہم ادارے کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے آگے بڑھنے کا موقع دیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Time for China and the WHO to Fess Up”. (“theglobalist.com”. April 20, 2020)
Leave a Reply