امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘ نے جنوری ۲۰۱۲ء میں کراچی کے بارے میں ایک ٹائٹل اسٹوری شائع کی، جس میں یہ تاثر پیش کیا گیا کہ کراچی میں صرف قتل و غارت کا بازار گرم ہے اور یہ کہ شہر کسی بھی اعتبار سے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ ایک آسٹریلوی شہری ٹونی لزارو (Tony Lazaro) نے کراچی کے دورے سے واپسی پر یہ ٹائٹل اسٹوری پڑھی تو اُن سے رہا نہ گیا اور ’’ٹائم‘‘ کے ایڈیٹر کو خط لکھ ڈالا۔ آپ بھی یہ خط پڑھیے۔
بخدمت
ایڈیٹر،ٹائم میگزین
محترم!
میں حال ہی میں پاکستان سے واپس آیا ہوں۔ میرا یہ سفر امدادی نوعیت کا تھا۔ میں نے کراچی اور اسلام آباد میں ہر عمر اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کی۔ کاروباری افراد سے بھی ملا اور مذہبی شخصیات سے بھی۔ کئی جامعات میں اہل علم سے بھی گفتگو کی۔
آسٹریلیا واپسی پر میں نے آپ کا جریدہ (۱۶؍جنوری ۲۰۱۲ء) اپنے دروازے پر پایا۔ اس میں سر ورق کا مضمون کراچی کے بارے میں تھا۔ میں چونکہ کراچی ہی سے واپس آیا تھا، اس لیے وہاں کے بارے میں زیادہ دلچسپی سے پڑھنا میرے لیے فطری امر تھا۔ مگر میں اس مضمون کو پڑھ کر حیران رہ گیا کیونکہ اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، وہ کراچی میں میرے گزارے ہوئے لمحات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تاثرات سے یکسر مختلف تھا۔ مضمون نگار (اینڈریو مارشل) نے جو کچھ لکھا وہ میرے لیے حیرت انگیز تھا۔
میں آپ کے جریدے کی ورق گردانی کرتا رہتا ہوں اور بعض مضامین غیر معمولی دلچسپی سے پڑھتا ہوں مگر مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ کراچی کے بارے میں آپ کے جریدے کا مرکزی مضمون یکسر منفی ہے اور یکطرفہ نوعیت کا ہے۔ پاکستان کو جن سیاسی اور مذہبی مسائل کا سامنا ہے، اُن پر بحث مقصود نہیں مگر آپ کے جریدے نے جس طور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی درست نہیں، وہ یکسر غلط ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں سیاسی بنیاد پر قتل و غارت ہوتا ہے، مگر دنیا میں ایک شہر ایسا دکھا دیجیے جہاں سیاسی بنیاد پر قتل و غارت نہیں اور امن کو خطرات لاحق نہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں غیر معمولی اختلافات پائے جاتے ہیں مگر مجھے دنیا میں کوئی ایک ملک ایسا دکھا دیجیے جہاں تمام سیاسی جماعتیں مکمل اتفاقِ رائے رکھتی ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں نادار افراد کی کمی نہیں اور بالعموم غریبوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے، مگر دنیا میں کوئی ایک ملک ایسا دکھا دیجیے، جہاں دولت کی غیر مساوی تقسیم نہیں اور غریبوں کو امیروں کے ہاتھوں مشکلات اور مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
پاکستان میں بدعنوانی بھی ہے مگر دنیا میں کوئی ایک بھی ملک بدعنوانی سے پاک قرار نہیں دیا جاسکتا۔
میں بہت سے دوسرے معاملات بھی گنوا سکتا ہوں۔ فہرست طول پکڑتی جائے گی۔ کہنے کی بات صرف یہ ہے کہ پاکستان کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ مگر خیر، دنیا کے ہر ملک کو کسی نہ کسی شکل میں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دیگر ممالک میں خرابیوں پر پردہ ڈال کر صرف اچھائیوںکو نمایاں کرکے بیان کیا جاتا ہے۔ امریکا میں بھی اندھا دھند فائرنگ کے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر ایسی خبروں کو گوگل، مائکرو سوفٹ اور ایپل کی کامیابی کے بیان سے دبا دیا جاتا ہے۔ معاشی بحران نے یونان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے مگر یونانی جزائر کی مارکیٹنگ اور یونان کو تعطیلات گزارنے کے لیے بہترین مقام کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوششیں معاشی بحران کو چھپالیتی ہیں۔ بھارت میں بچوں کو تقریباً غلام بناکر ان سے غیر معمولی مشقت لی جاتی ہے مگر اس کا رونا کوئی نہیں روتا اور آئی ٹی سیکٹر میں بھارت کی غیر معمولی ترقی کا راگ الاپ کر بچوں سے نا انصافی کی کوریج روک دی جاتی ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو پاکستان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔ وہاں ایسی ہزاروں، بلکہ لاکھوں باتیں ہیں جن کے بارے میں سوچا اور لکھا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کی ایک ایسی تصویر تیار ہوگی جو آپ کے جریدے کی پیش کردہ تصویر سے یکسر مختلف ہوگی۔
جب میں پاکستان میں تھا، تب میں نے برآمدی مال تیار کرنے والے ادارے الکرم ٹاولز (Alkaram Towels) کا دورہ کیا۔ اس ادارے کی سالانہ برآمدات ۲۰۱۱ء میں ۶؍ کروڑ ڈالر تک تھیں۔ اب یہ برآمدی ہدف کو ۲۰۱۲ء میں ۸؍ کروڑ ۵۰ لاکھ ڈالر تک لے جانا چاہتا ہے۔ کساد بازاری کے دور میں برآمدات بڑھانا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ کمپنی مہتاب چاؤلہ نے اپنے والد کے انتقال کے بعد صرف ۹ سال کی عمر میں شروع کی تھی۔ معمولی سطح سے شروع کیا جانے والا کاروبار آج بلند سطح پر کھڑا ہے۔ اب اس ادارے میں تین ہزار ملازمین ہیں اور کامیابی کی ایک نمایاں داستان ہے۔
میں نے این ای ڈی یونیورسٹی، ہمدرد یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا بھی دورہ کیا۔ ان جامعات کے طلبہ اس قدر باصلاحیت ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ وہ اپنے فارغ وقت میں مختلف تجربات کرتے رہتے ہیں۔ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے واقف ہیں اور دنیا کو اس بات کا علم ہی نہیں۔ وہ امریکا کے بڑے آئی ٹی اداروں کے لیے سوفٹ ویئرز اور ایپلی کیشنز تیار کرتے ہیں۔ ان تمام امور کا جائزہ لینے کے لیے کسی رپورٹر کو آپ پاکستان کیوں نہیں بھیجتے؟ پاکستانی قوم کی بری باتوں ہی کی رپورٹنگ کیوں کی جارہی ہے؟ کچھ اچھی باتیں بھی ہیں۔ ان کی بھی رپورٹنگ کی جانی چاہیے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (اسلام آباد) میں ادویہ کے شعبے میں ۳۸ ہزار ایپلی کیشنز پڑی ہیں۔ اس ادارے میں دوا سازی کے شعبے میں صرف ۸۳ نشستیں ہیں۔ آپ مسابقت کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ایسے میں سب کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے تاکہ کوئی دوسرا آگے نہ نکل جائے، مگر دنیا کو اس بات کا علم نہیں۔ یا یہ کہ معلوم ہے مگر رپورٹ کرنے کا ارادہ نہیں۔
میری کسی بھی بات کا غلط مطلب مت لیجیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں سیاست اور دہشت گردی کی رپورٹنگ سے ہٹ کر کچھ مثبت بھی کیا جائے۔ اس قوم کو ایسی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم عالمگیریت پر یقین رکھتے ہیں اور مل کر کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر پاکستان کو بھی مل کر کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ صرف منفی باتوں کی رپورٹنگ ترک کرکے مثبت پہلو بھی اجاگر کیے جانے چاہئیں۔ پاکستان کی آبادی ۱۸؍ کروڑ ہے اور ان میں ۶۵ فیصد کی عمر ۲۵ سال سے کم ہے۔ پاکستان کے نوجوان ہی اس کی اصل طاقت ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی عفریت سو رہا ہو۔ میں چاہوں گا کہ آپ ایک لمحے کو رکیں اور پاکستان کو دوسری نظر سے دیکھیں۔ اگر مغربی دنیا مدد کرنے کے لیے تیار ہو تو پاکستان بہت تیزی سے ایک بڑی معیشت میں تبدیل ہوسکتاہے۔ پاکستان کو نہ ہی امداد کی ضرورت ہے نہ پیسے کی۔ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ اسے مختلف زاویے سے دیکھا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی مدد کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں پہل کون کرے گا۔
ٹونی لزارو
مینیجنگ ڈائریکٹر
رائزنگ اسٹار مینجمنٹ گروپ
☼☼☼
Leave a Reply