اپنی فوج پر عائد پابندیوں کو نرم کرنے کے جاپانی اقدام نے اس کے پڑوسیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے حالانکہ انہیں تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
جب ۲۰۰۴ء میں جاپان کی دفاعی فوج (Self-defence forces-SDF) عراق روانہ ہوئی تو وہ ایک منقسم قوم کا خوف، زمانہ جنگ کی جاپان کی کارروائیوں کا تاریخی بوجھ اور Prince Pickles اپنے ساتھ رکھتی تھی۔ پرنس SDF کے فعالِ نیک کارٹونوں میں سے ایک ہے اور ایک ایسا کردار ہے جو اپنی طشت نما آنکھ اور سر کے ناپ سے بڑے ہلمٹ کے ساتھ جاپانی فوج کے ہلکے پن کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ اگرچہ پرنس وار زون میں ڈیوٹی انجام دینے کے لائق تصور نہیں کیا جاتا ہے تاہم وہ شاید SDF کے لیے ایک علامتِ کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے یعنی وہ SDF جو قانوناً انتہائی شاذ و نادر حالات میں قوت استعمال کر سکتی ہے اور وہ محض اس صورت میں کہ اسے اپنا دفاع یا ملک کا دفاع درپیش ہو۔ اس سے ماورا صورتِ حال میں اس کو قوت کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے جاپانی فوجی اپنے آپ کو ایک مشکل صورتِ حال میں پاسکتے ہیں۔ جب وہ عراق میں اتحادی افواج کے ایک جُز کے طور پر پولیس کی ڈیوٹی انجام دے رہے ہوتے ہیں، SDF کو آسٹریلیائی فوج کی زیرِ نگرانی رہنا پڑتا ہے کہ مبادا جاپان کا کوئی فوجی غصہ میں فائر نہ کھول دے۔ یہ ایک ایسی قوت ہے جو خودکش (Kamikaze) کے بجائے دیگر کش (Kawaii) ہے۔ میں چاہوں گا کہ Prince Pickles کو اپنے ذہن میں رکھوں جبکہ جاپان اپنے صلح دوست آئین پر نظرثانی کی سمت آہستگی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جس کو اس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکی قبضے کے دوران اختیار کیا تھا۔
۱۳ اپریل کو جاپان کی مخلوط حکومت نے جس کی قیادت لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی (LDP) کر رہی ہے، پارلیمنٹ (Diet) کے ایوانِ زیریں میں ایک ایسا قانون پاس کرا لیا جس سے ایک ایسے قانونِ اساسی کی تشکیل ہو گئی ہے جس کی بنا پر جاپان کے بنیادی قوانین کی تجدیدِ نو کی جا سکے گی تاکہ یہ ۲۱ویں صدی کے حقائق کی عکاس ہو سکیں۔ اس وقت یہ بل ایوانِ بالا میں ہے جہاں سے پاس ہو جانے کے بعد بالآخر یہ آئین کی شق نمبر۹ کے مستقبل پر ایک قومی ریفرنڈم کو لازم کر دے گا جس شق میں جاپان کو جنگ کرنے سے روکا گیا ہے۔ آئینی ترمیم سے جاپانی فوج کے لیے معمول کے مطابق اپنی فوجی سرگرمیاں جاری رکھنے کا دروازہ کھل جائے گا اور اس طرح اسے عالمی امن افواج میں قدرے وسیع تر شمولیت کی اجازت مل جائے گی، امریکا کے قریبی تعاون سے اور شاید اقدامی اسلحوں مثلاً میزائلوں کے حصول کی مدد سے۔ یہ اس مقصد کو بھی پورا کرے گا جس کو LDP نے اس وقت سے اپنا رکھا ہے جب ۱۹۵۵ء میں اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ وزیراعظم Shizo Abe نے آئینی ترمیم کو اپنی جواں سال انتظامیہ کا اہم ہدف بنایا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ’’جاپان کو جنگ کے بعد کی حکومت سے نجات حاصل کرنا چاہیے‘‘۔ اس طرح کی گفتگو ان معترضین کے لیے خبردار کرنے والی گھنٹی ہے جو عسکری پابندیوں میں کسی ڈھیل کے دیے جانے کو جنگ کے زمانے کی جارحیت میں دوبارہ داخل ہونا خیال کرتے ہیں (سنگاپور کے سابق رہنما Lee Kuan Yew اس خوف و تشویش کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ عالمی امن فوج کی کارروائیوں میں جاپان کو شمولیت کی اجازت دینا، شراب سے نجات حاصل کرتے ہوئے کسی شخص کو ایسے چاکلیٹ دینے کے مترادف ہے جس میں شراب کی خوشبو رچی بسی بھی ہو)۔لیکن LDP کی قانون سازی میں کامیابی کے باوجود آئینی ترمیم حقیقت سے بہت دور ہے اور اگر یہ ہو بھی جاتی ہے تب بھی جاپانی فوج کے کردار میں تبدیلی دھمکی آمیز انداز میں ناممکن معلوم ہوتی ہے۔ صلح جوئی جاپان کی جڑوں میں پیوست ہے اور یہ اس سے اتنا مانوس ہے کہ اس کو اس وقت ترک کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے جاپان کی ہمسائیگی کافی خطرناک ہو چکی ہے۔ شمالی کوریا میزائل کا تجربہ اور جوہری تجربات کر چکا ہے۔ چین کا دفاعی بجٹ۱۸ فیصد کے اضافے کے ساتھ ۴۵ بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے باوجود عوامی جذبات میں ایسی کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آتی ہے جو فوج کو پابندیوں سے آزاد کرنے کی حمایت کرتی ہو۔ گزشتہ ماہ Yomiuri Shimbun کے ذریعہ کرائے گئے ایک سروے سے یہ پتا چلا ہے کہ ۴۶ فیصد جاپانی آئینی ترمیم کی حمایت کرتے ہیں جو ۳۹% سے تھوڑا ہی زیادہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ ترمیم کے مخالف ہیں۔ لیکن یہ ۲۰۰۶ء میں ہونے والے سروے کے مقابلے میں ۹ فیصد کم ہے جس سے لگاتار تیسرے سال بھی حمایت میں کمی کا معاملہ سامنے آتا ہے۔ نہ ہی دفاعی اخراجات میں کوئی بڑا اضافہ سامنے آیا ہے۔ بہت بڑے بجٹ خسارے سے دوچار ہونے کے سبب اور عمر رسیدہ لوگوں پر مبنی معاشرہ کی لیے سہولیات میں اضافے کے مطالبے کی بنا پر ٹوکیو ایک غیررسمی قانون کے ساتھ مضبوطی سے مربوط دکھائی دیتا ہے۔ یعنی یہ کہ وہ کل قومی آمدنی کا ایک فیصد سے زیادہ دفاع پر خرچ نہ کرے جبکہ امریکا ۴ فیصد خرچ کرتا ہے۔ اس سال تو یہ تناسب ۲ء۰% کم ہو جائے گا جس کے بعد یہ رقم ۴۰ بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی جو کہ کمی کا مستقل پانچواں سال ہو گا۔ دوبارہ فوج کو مضبوط بنانے کا عمل محض بجٹ پر منحصر نہیں ہے۔ ٹوکیو کی ٹمپل یونیورسٹی کے ایک دفاعی تجزیہ نگار Robert Dujarric کا کہنا ہے کہ ’’اگر کیوبا جوہری بم کا تجربہ کرتا ہے تو آپ یقین کے ساتھ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ امریکی سیاست داں دفاعی بجٹ میں اضافے کا مطالبہ کریں گے۔ لیکن اس طرح کا کوئی دبائو یعنی دفاعی بجٹ بڑھانے کے حوالے سے جاپانی سیاست کے کسی حصے کی طرف سے نہیں ہے‘‘۔ اور ایسا اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک جاپان امریکا کی دفاعی چھتری کے زیرِ سایہ اطمینان محسوس کرتا ہے جیسا کہ یہ گزشتہ ساٹھ برس سے محسوس کرتا چلا آیا ہے۔ ملک کا دفاع SDF اس قدر نہیں کر سکتی ہے جس قدر امریکی جہاز، بحری بیڑے اور جوہری اسلحے کر سکتے ہیں۔ جاپان کچھ مالی بوجھ اٹھاتا ہے کہ واشنگٹن شور مچانا شروع کر دیتا ہے، جاپان کچھ مزید بل کی ادائیگی کرے۔ امریکی سفیر Thomas Schieffer نے گزشتہ ماہ نامہ نگاروں کے ایک گروہ کو بتایا کہ ’’ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ مزید خرچ کرنے کے لائق ہو سکیں گے‘‘۔ لیکن اس کا امکان نہیں ہے۔ حتیٰ کہ Hisahiko Okazaki جیسا شدید قدامت پرست سابق سفارت کار بھی جو کہ اس وقت Abe کے خارجہ پالیسی سے متعلق مشیر ہیں، کا بھی کہنا ہے کہ جاپان کو امریکی اتحاد کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے نہ کہ اپنی فوجی تقدیر کی تلاش میں محنت صرف کرنی چاہیے۔ آئینی ترمیم دو ممالک کے مابین عظیم تر فوجی تعاون کی اجازت دے گی جس کا نتیجہ ایک محفوظ جاپان کی صورت میں نکلے گا اور جاپان کی آواز خطے کے معاملات میں مزید مضبوط ہو جائے گی۔ لیکن یہ جاپان کی دوسری جنگِ عظیم کی استعماری نظریے کی جانب واپسی کی علامت نہیں ہو گی۔ باقی دنیا کے نزدیک شق ۹ کے بعد کا جاپان اتنا ہی خوفناک ہونا چاہیے جتنا کہ اسلحہ بدست Prince Pickles۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ: ۳۰ اپریل ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply