امریکا کو افغانستان کی دلدل میں پھنسے ہوئے ۱۶؍برس بیت چکے۔ ایسے میں مزید چار ہزار فوجی بھیج کر تمام معاملات کو درست کرنے کا خواب دیکھنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سوچ رہے ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے نئی حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار ہوگی، مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ حکمت عملی بھی اُسی طور ناکامی سے دوچار ہوگی جس طور اُن کے پیشرو براک اوباما اور اُن کے پیشرو جارج واکر بش کی حکمت عملی ناکامی سے دوچار ہوئی تھی۔
امریکی مسلح افواج کے سربراہان نے صدر ٹرمپ کو یقین دلایا ہے کہ افغانستان میں محض مزید چار ہزار امریکی فوجی بھیجنے سے طالبان کو کنٹرول کرنا اور ملک کے تمام معاملات درست کرنا ممکن ہو جائے گا۔ ایسا کرنا سادگی کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے معاملات بہت الجھے ہوئے ہیں اور اتنی کم تعداد میں کمک بھیجنے سے کوئی بھی اہم تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔
یہ نکتہ کسی کے بھی ذہن میں ابھر سکتا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں ۱۶؍سال گزارنے کے بعد یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ طالبان کو (جنگ کے میدان میں) شکست نہیں دی جاسکتی۔ افغانستان میں لڑائی ختم کرنا اور حقیقی امن قائم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فریقین مذاکرات کی میز پر آئیں، اپنے اپنے مفادات کو ایک خاص حد تک ترک کردیں، کچھ قربانی دیں اور ایک دوسرے کو قبول کریں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک افغانستان میں حقیقی امن کی راہ ہموار نہیں ہوسکے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر کیسے لایا جائے اور ان سے معاملات کس طور طے کیے جائیں۔ اس حوالے سے قبائل اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ افغان معاشرہ چونکہ قبائل پر مشتمل ہے، اس لیے قبائلی عمائدین طالبان کو رام کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ قبائل کی مدد سے کی جانے والی بات چیت کے نتیجے میں امریکا اور طالبان کے درمیان دیرپا معاہدۂ امن طے پاسکتا ہے۔
طالبان اور القاعدہ کے بعد دوسرے بہت سے گروپ بھی ابھرے ہیں، جو افغانستان میں خرابیاں بڑھا رہے ہیں۔ ملک کا معاشی اور معاشرتی ڈھانچا شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں ملک کو استحکام سے ہم کنار کرنے کے حوالے سے طالبان سے بھی غیر معمولی حد تک مدد لی جاسکتی ہے۔
قومی تعمیر نو
ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے جو نئی پالیسی جاری کی ہے اس میں صرف ایک نکتہ کام کا ہے، جس سے معقولیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ امریکا کو افغانستان میں قومی تعمیر نو کے کام کی ذمہ داری نہیں اٹھانی چاہیے اور افغان عوام کو کسی بھی حال میں ڈکٹیٹ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کس طور زندگی بسر کریں اور قوم کی تعمیر نو کے حوالے سے ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہییں۔ امریکا کو قبائل کی مدد سے القاعدہ، داعش اور دیگر غیر ملکی گروپوں کی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ طالبان کو یہ واضح پیغام دیا جائے کہ اگر وہ مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار ہوں اور معاہدۂ امن کے لیے رضامندی ظاہر کریں تو انہیں بھی نئی حکمت عملی کے تحت امن قائم کرنے کے سیٹ اپ میں غیر معمولی کردار سونپا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر انہیں امریکی اور اتحادی افواج سے لڑتے ہی رہنا پڑے گا۔
اسٹریٹجک پارٹنر شپ
امریکا کو اس وقت پاکستان یا کسی بھی اور علاقائی ملک سے مخاصمت مول لینے کے بجائے اسٹریٹجک پارٹنر شپ قائم کرنے میں زیادہ دلچسپی لینی چاہیے۔ خاص طور پر پاکستان اور بھارت سے اسٹریٹجک پارٹنر شپ پروان چڑھانی ہوگی تاکہ دہشت گردی سے نمٹنے میں خاطر خواہ حد تک کامیابی ملے۔ امریکا کو یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ افغانستان کے معاملات درست کرنے کی کوشش میں پاکستان زیادہ آگے تک نہیں جاسکتا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات پاکستانی قیادت پر غیر معمولی دباؤ مرتب کر رہے ہیں۔ پاکستان کے مخصوص حالات اُسے باہر دیکھنے کی زیادہ اجازت نہیں دیتے۔ اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پاکستانی قیادت طالبان کے خلاف زیادہ نہیں جاسکتی کیونکہ جلد یا بدیر طالبان افغان حکومتی سیٹ اپ کا حصہ ہوں گے۔ اگر وہ افغانستان میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوئے تب بھی حکومتی سیٹ اپ میں اہم حصہ بن کر بہت سے معاملات میں غیر معمولی حد تک اپنی بات منوائیں گے۔
تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا
امریکی قیادت اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ جب افغان سرزمین پر ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی تعینات تھے، تب بھی وہ صورتحال کو بہتر انداز سے تبدیل اور کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ ایسے میں یہ بات کس طور سوچی جاسکتی ہے کہ محض چار پانچ ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے افغانستان میں طاقت کا توازن امریکا کے حق میں ہوجائے گا؟
امریکی ایوان صدر، محکمہ خارجہ اور پینٹاگون میں کوئی نہیں جو اضافی فوجی تعینات کرنے کی صورت میں حیرت انگیز نتائج کے حصول کی یقین دہانی کرانے کو تیار ہو۔ اس وقت طالبان ملک کے تقریباً نصف رقبے پر متصرف ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ نئی حکمت کو بروئے کار لاتے ہوئے طالبان کو مزید پیش قدمی سے روکا جائے اور وہ جہاں ہیں وہیں تک محدود رکھتے ہوئے اُن سے لڑا جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹائم فریم کو نظر انداز کرکے اب حالات کے مطابق افغانستان سے نکلنے کی حکمت عملی اپنائی ہے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک طرف تو طالبان سے بات چیت کرنا ہوگی اور دوسری طرف افغان سرزمین پر قدم جمانے میں کامیاب ہونے والے بیرونی شدت پسند گروپوں کے خلاف لڑنا ہوگا۔
فوجی حل ممکن نہیں!
اگر افغانستان سے باعزت اور پرسکون طور پر نکلنے کے لیے امریکا کوئی راستہ چاہتا ہے تو طالبان کو دشمن کی نظر سے نہیں بلکہ پارٹنر کی نظر سے دیکھنا پڑے گا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہر معاملے کو طاقت کے ذریعے طے یا ختم کرنے کی سوچ کو خیرباد کہتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنے کا سوچا جائے۔ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ امریکا اس حقیقت کو جس قدر جلد سمجھ لے اُسی قدر اچھا ہے۔ سیاسی اعتبار سے بہتر نتائج اور حالات اِسی صورت ابھر سکتے ہیں کہ طالبان کے اعتدال پسند عناصر سے گفت و شنید کی جائے اور معاملات کو طاقت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے طے کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اس معاملے میں قبائلی عمائدین کو پیچھے نہ رکھا جائے۔ اس عمل میں ان کی بھرپور شرکت ہی معاملات کو درست کرسکتی ہے۔
میں نے پکتیا صوبے کے قبائلی سربراہ اجمل خان زازئی سے بات چیت کی، ان کا کہنا تھا کہ امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے نظریات پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ اور دوسری طرف طاقت کے استعمال پر بھی بہت زیادہ زور دیا جاتا رہا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ امریکی فوجی کارروائیاں افغانستان میں کبھی حقیقی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوئیں۔ افغان سرزمین کے مسائل کا وہی حل قابل قبول ہوسکتا ہے جو افغان قبائلی عمائدین اور دیگر رہنما مل جل کر تیار کریں۔ اجمل خان زازئی نے اس نکتے پر زور دیا تھا کہ افغانستان قبائلی ملک ہے۔ قبائل ہی اس ملک کا ماضی، حال اور مستقبل ہیں۔ میں ذاتی حیثیت میں اجمل خان زازئی کی بات سے متفق ہوں۔ طالبان، القاعدہ اور داعش کے خلاف لڑائی میں اگر حقیقی کامیابی درکار ہے تو قبائل کو الگ تھلگ نہ رکھا جائے۔ قبائلی عمائدین کی مدد سے جنگجوؤں کو مذاکرات کی میز پر لاکر معاملات کو طاقت کے استعمال سے دور رکھا جاسکتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کے اعادے سے بچنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان میں قیام امن کے عمل میں قبائل کو ساتھ ملانا ہوگا۔ قبائل ہی کی مدد سے طالبان کو امن عمل میں شریک کرکے معاملات کو پرامن رکھنے میں غیر معمولی حد تک مدد لی جاسکتی ہے۔
قبائل کی امداد
افغانستان میں پائیدار امن یقینی بنانے کے لیے مذاکراتی عمل میں قبائل کو ساتھ ملانا لازم ہے، مگر اس کے لیے امریکا کو کچھ خرچ بھی کرنا پڑے گا۔ محتاط اندازے کے مطابق کئی سال تک سالانہ ۴۰ تا ۵۰ کروڑ ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ امریکا نے اب تک افغانستان میں جو کچھ خرچ کیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے یہ کوئی بڑی رقم نہیں۔ قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بھی دہشت گردوں سے نمٹنے کی تربیت دی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے انہیں ہتھیار بھی فراہم کرنا ہوں گے۔
ایسی کسی بھی صورت حال میں طالبان کو افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے خلاف لڑنا پڑے گا۔ طالبان اگر ایک بار حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بن جائیں تو وہ لازمی طور پر ملک کے حقیقی استحکام میں واقعی دلچسپی لینا شروع کریں گے اور تب وہ افغانستان کے امور میں پاکستان اور ایران کی کسی بھی نوع کی مداخلت روکنے پر بھی خاطر خواہ توجہ دیں گے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ طالبان افغان باشندے ہیں۔ وہ اپنی زمین سے کسی بھی طور بے دخل نہیں کیے جاسکتے۔ دوسری طرف قبائل کی مدد کرنا بھی لازم ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ معاملات کو بہتر طور پر سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ میں بھی لے سکیں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ کوئی بھی بیرونی قوت افغانستان کو فتح کرنے میں کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوئی۔ کسی بھی ملک نے کبھی افغانستان میں اتنی بھی کامیابی حاصل نہیں کی کہ طرز زندگی تبدیل کرسکے۔
جب بھی افغانستان پر کسی بیرونی قوت نے حملہ کیا ہے جلد یا بدیر اُسے بوریا بستر لپیٹ کر نکلنا ہی پڑا ہے۔ اگر امریکا چاہتا ہے کہ افغان مسئلہ بہتر انداز سے حل ہو تو اسے قبائل کو ساتھ ملاکر کام کرنا ہوگا تاکہ ملک میں استحکام ہو اور امریکی افواج کے لیے وہاں سے باعزت طریقے سے نکلنے کی راہ ہموار ہو۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Trump’s “New” strategy in Afghanistan is doomed to fail”. (“Globalist”. August 24, 2017)
Leave a Reply