ترکی میں ایک صدی سے بھی زائد مدت تک کام کرنے والا پارلیمانی نظام ۱۶؍اپریل ۲۰۱۷ء کو ختم ہوگیا۔ اس کے مقابلے میں نیا سپر ایگزیکٹیو پریزیڈنشل سسٹم لایا گیا ہے۔ یہ تاریخی فیصلہ ہے اور اس کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
جو نئی صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کا جائزہ لینے سے قبل ضروری ہے کہ ہم چند حقائق کا جائزہ لیں۔ ریفرنڈم کے لیے جو پیکیج عوام کے سامنے رکھا گیا تھا اس میں ۱۸ آرٹیکل تھے۔ اس پیکیج کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اب نظام کو بدل دیا جائے۔ اضافی نکات کے طور پر اعلیٰ عدلیہ کا بنیادی ڈھانچا اور فوجی عدالتوں کو یکسر ختم کرنے کا آرٹیکل بھی شامل کیا گیا تھا۔
تبدیلی کی حمایت کرنے والی جماعتوں میں حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) اور دی نیشنلسٹ ایکشن پارٹی (ایم ایچ پی) کے علاوہ دیگر قوم پرست اور قدامت پسند جماعتیں بھی شامل تھیں۔ دی فیسلیٹی پارٹی کے سوا تمام اسلام نواز جماعتوں نے بھی تبدیلی کی حمایت میں ووٹ دیا۔ تبدیلی کی شدید مخالفت کرنے والوں میں ری پبلکن پیپلز پارٹی، کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) اور دی فیسلیٹی پارٹی اور چند قدرے غیر اہم گروپ شامل تھے۔ یہاں حوالے کے طور پر عرض کردینا لازم ہے کہ یکم نومبر ۲۰۱۵ء کو منعقدہ عام انتخابات میں تبدیلی کے حق میں ۶۳ فیصد ووٹ آئے تھے جبکہ مخالفت کرنے والوں کو ۳۷ فیصد ووٹ ملے تھے۔ ریفرنڈم میں نیا آئینی پیکیج ۴ء۵۱ ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ مخالفت میں ۶ء۴۸ فیصد ووٹ آئے۔ اگر عام انتخابات میں اے کے پی اور ایم ایچ پی کے اجتماعی ووٹوں کی بات کریں تو ’’یس کیمپ‘‘ کے ووٹ کرد اکثریت والے مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں کے سوا تمام علاقوں میں کم ہوئے۔ ویسے ’’نو کیمپ‘‘ کے ووٹ بیشتر کرد اکثریتی علاقوں میں نمایاں رہے۔
عام انتخابات کی دوڑ پر نظر رکھتے ہوئے، اے کے پی نے پیکیج کے مندرجات پر جامع بحث کرنے پر اس بات کو ترجیح دی کہ جس شخصیت کے ملک کا پہلا ایگزیکٹیو صدر بننے کا واضح امکان ہے اس پر توجہ مرکوز کی جائے یعنی رجب طیب ایردوان پر پوری توجہ مرکوز رکھی گئی۔
اے کے پی نے یہ بہتر سمجھا کہ ایردوان کی شخصیت پر فوکس کرکے نئے آئینی پیکیج کو زیادہ سے زیادہ مقبولیت سے ہم کنار کیا جائے۔ پیکیج ابتدا ہی سے مکمل مقبول نہیں تھا۔ اِس کی مخالفت میں اٹھائی جانے والی آوازیں دن بہ دن توانا ہوتی جارہی تھیں۔ اے کے پی نے آئینی پیکیج پر ریفرنڈم کو رجب طیب ایردوان کے لیے اعتماد کے ووٹ کی حیثیت دے دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئینی پیکیج کو پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ ملے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں یس کیمپ کے مجموعی ووٹوں سے پھر بھی کم و بیش ۱۲ فیصد کم رہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹروں کی ایک معقول تعداد نے پیکیج کے مندرجات کے بارے میں غور کیا اور اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا۔ ووٹر چاہتے ہیں کہ انہیں شناخت قائم کرنے والی سیاست ملنی چاہیے۔ ان کی خواہش ہے کہ تیزی سے ختم ہوتی ہوئی شناخت کو توانا بنانے کی ضرورت ہے۔
یس کیمپ کے ووٹ گھٹنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ لوگ اب کارکردگی کی بنیاد پر جانچتے اور ووٹ دیتے ہیں۔ جمہوریت کے لیے یہی سب سے بڑی نعمت ہے کہ لوگ کارکردگی کا جائزہ لیں اور انہیں ووٹ نہ دیں جن کی کارکردگی کمزور رہی ہو یا جنہوں نے اپنے وعدے پورے نہ کیے ہوں۔
بے چینی پیدا کرنے والے نئے رجحانات
فتح چاہے کم فرق کی ہے مگر فتح ہے۔ جو کچھ رونما ہوچکا ہے وہ اب تبدیل نہیں ہوگا۔ ترکی اب ایک نئے نظام کی دنیا میں داخل ہوچکی ہے۔ انتخابی نتائج اور ریفرنڈم کے نتائج میں پائے جانے والے فرق نے ایک نئے رجحان کی نشاندہی کی ہے اور یہ نیا رجحان خاصا اضطراب پیدا کرنے والا ہے۔ حکمراں جماعت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ چند ایک معاملات میں تھوڑی بہت پریشانی نمودار ہوئی ہے اور اُسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
تعلیم کے فروغ، شہروں کی آبادی کے بڑھنے اور ترقی کا دائرہ وسیع تر ہونے سے جو تصویر ابھری ہے وہ اے کے پی کے لیے کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اے کے پی کے لیے اب امکانات بڑھنے کے بجائے گھٹے ہیں۔ جہاں اُس کا ووٹ بینک مضبوط تھا وہاں اب سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ جن علاقوں میں اے کے پی کی بنیاد خاصی مستحکم تھی وہاں اب مختلف امور کے حوالے سے سوالات اٹھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اے کے پی کے لیے ایک پریشان کن امر یہ ہے کہ نوجوانوں میں اُس کی اپیل کمزور پڑتی جارہی ہے۔ یہ بات ریفرنڈم کے بعد IPSOS کے تحت کرائے جانے والے رائے عامہ کے جائزے کے ذریعے سامنے آئی ہے۔ رائے عامہ کے اس جائزے کے ۵۸ فیصد شرکا نے تبدیلی کو مسترد کردیا۔ ترک نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اب اے کے پی میں زیادہ کشش دکھائی نہیں دیتی۔ اے کے پی کی پالیسیوں کے نتیجے میں سماجی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ اب کھل کر سامنے آرہی ہیں اور اے کے پی کی قیادت اس حقیقت کو نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑھ سکتی۔
تقسیم نہیں، تعمیر!
اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ملک کے سیاسی نظام کی تبدیلی سے متعلق کرائے جانے والے ریفرنڈم نے ملک میں تقسیم کی نشاندہی کی ہے۔ یہ تقسیم ایسی نہیں کہ نظر انداز کرکے سکون کا سانس لیا جائے۔ ریفرنڈم میں یس اور نو کا فرق بہت کم ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ترک سیاست میں فالٹ لائنز ایک بار پھر معرض وجود میں آچکی ہیں۔ کوئی بھی بڑی سیاسی تبدیلی کسی بھی وقت رونما ہوسکتی ہے۔ اگر اس صورت حال کو اے کے پی نے بہتر انداز سے tackle نہ کیا تو عین ممکن ہے کہ ترک سیاست میں تقسیم مستقل نوعیت کی ہوجائے۔ ایسے میں کوئی بھی حکومت اپنی بات زیادہ عمدگی سے، طاقت کے ساتھ منوانے میں کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ اس کا اپنا وجود ہر وقت خطرے میں رہے گا۔
سرسری جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترک سیاست میں عدم توازن نمایاں ہوچلا ہے اور کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے والی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ذرا سنجیدگی اور انہماک سے جائزہ لینے پر اندازہ ہوگا کہ اس وقت ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کی بھی نشاندہی کر رہا ہے کہ ترک ووٹروں کی سوچ پختہ ہوتی جارہی ہے۔ کل تک یہ تھا کہ جس کے پیچھے چل پڑے سو چل پڑے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جنہیں انہوں نے ووٹ دیا ہے وہ کچھ کر دکھائیں، زندگی کا عمومی معیار بلند کریں۔ اگر وعدے پورے نہ کیے جائیں اور کوئی ڈھنگ سے ڈلیور نہ کر پائے تو لوگ اسے ہٹانے یا اس کے بارے میں منفی رائے دینے سے گریز نہیں کرتے۔ ترکی میں پولنگ پیٹرن ظاہر کرتا ہے کہ لوگ سیاسی شعور کے اعتبار سے بالغ ہوچکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اے کے پی نے بہت سے معاملات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد اب اے کے پی نے یورپی ممالک کی سرمایہ کاری میں اضافے کا معرکہ بھی عمدگی سے سَر کرلیا ہے مگر پھر بھی ابھی بہت کچھ کیا جانا ہے۔
ریفرنڈم کے جغرافیے اور آبادی کے تنوّع کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اب محض کسی سیاسی شناخت کے تحت ووٹ ڈالنے کو تیار نہیں۔ استنبول میں روایتی قدامت پسند علاقوں اسخدار اور ایپ نے آئینی پیکیج کے خلاف ووٹ دیا۔ اور فیتھ نے بھی برائے نام ہاں کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹر سیاسی اعتبار سے اب کس حد تک باشعور اور پختہ ہوچکے ہیں۔ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا رجحان جمہوریت کے لیے لائف لائن کے مانند ہے۔ اس رجحان کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب لوگ محض کسی شناخت کی بنیاد پر نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترک سیاست کی نوعیت بدل رہی ہے۔ لوگ اب پرانے رجحانات کے مطابق ووٹ ڈالنے کو تیار نہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ صرف انہی کو ووٹ دیا جائے جو کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کے خواہش مند ہیں۔
ریفرنڈم کے بعد کے ترکی میں گورننس
اب سوال یہ ہے کہ ریفرنڈم کے بعد کے دور میں اے کے پی کے لیے پالیسیوں کے اعتبار سے کیا گنجائش رہ گئی ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ رجب طیب ایردوان قدامت پسند اسلامی تحریک کے رہنما ہیں اور اے کے پی اس تحریک کا ایک جُز ہے۔ جب ایردوان بیک وقت اے کے پی کے چیئرمین اور وزیر اعظم تھے تب وسیع تر اسلامی تحریک اور اے کے پی کا فرق نمایاں نہ تھا۔ یہ فرق اس وقت نمایاں ہونا شروع ہوا جب ایردوان صدر کے منصب کی طرف چلے گئے اور پارٹی کے معاملات سے ان کا بظاہر کوئی تعلق نہ رہا۔ اے کے پی کے ۲ چیئرمین اور ۲ وزیراعظم ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف ایردوان ترک معاشرے کی قدامت پسند اکثریت کے لیڈر رہے ہیں۔ پارٹی کا لیڈر اور وزیر اعظم ایک ہی شخصیت کے ہونے سے چند ایک پیچیدگیاں ضرور پیدا ہوئی ہیں۔ ایک طرف تو ایردوان پارٹی لیڈر رہے یعنی حکمراں جماعت کے لوگوں کے لیڈر۔ دوسری طرف وہ وزیر اعظم بھی تھے یعنی ملک کے ہر فرد کے لیڈر۔ اس دُوئی نے تناؤ پیدا کیا۔ نئے آئینی پیکیج کے تحت صدر کو اب اختیار مل گیا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت حاصل کرے۔ ایردوان نے ۲ مئی کو اے کے پی کی بنیادی رکنیت حاصل کرلی۔
اب ایردوان اس پوزیشن میں ہیں کہ پارٹی کے اندر بھی بہت کچھ تبدیل کریں اور حکومتی سطح پر بھی نئے چہروں کو سامنے لائیں۔
محاصرے کی ذہنیت
چند برسوں کے دوران اے کے پی میں محاصرے کی ذہنیت تیزی سے پروان چڑھی ہے۔ کسی بھی معاملے میں احتجاج یا کریک ڈاؤن کے حوالے سے اے کے پی کی قیادت اب محاصرے کو پسند کرتی ہے یعنی مخالفین کو گھیر کر ایک طرف کیا جائے۔ جولائی ۲۰۱۶ء میں فتح اللہ گولن سے ذہنی ہم آہنگی رکھنے والوں کے خلاف جو کچھ کیا گیا وہ اس بات کا مظہر ہے کہ اب اے کے پی مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Turkey after the Referendum”(“gmfus.org”. May 22, 2017)
Leave a Reply