ترکی اور اس کی فوج، ایردوان اور ان کے جرنیل

ایک زمانہ تھا، جب ترکی میں فوج ہی سب کچھ تھی اور سب کچھ اسی کے ہاتھ میں تھا۔ وہی حکومتیں بناتی اور گراتی تھی مگر پھر سب کچھ بدل گیا۔ یہ تبدیلی راتوں رات رونما نہیں ہوئی۔ سویلین حکومتوں نے اپنے آپ کو عمدگی سے منوایا ہے۔ کرپشن کی سطح نیچے آئی ہے اور قومی وسائل کو قومی تعمیر پر صرف کرنے کا مزاج پنپ گیا ہے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ فوج نے اب دفاعی پوزیشن اختیار کرلی ہے اور کسی بھی معاملے میں غیر ضروری مہم جوئی سے یکسر گریز کیا جاتا ہے۔

ذرا ایک ایسے ملک کا تصور کیجیے جس کے پڑوسیوں میں شام، عراق اور ایران شامل ہیں اور جو بحیرۂ ایجین، بحیرۂ روم اور بحیرۂ اسود سے گھرا ہوا ہے مگر اس کے باوجود ان کی بحریہ کا کوئی کمانڈر نہیں۔ ترک بحریہ کے سربراہ اگست میں سبکدوش ہوں گے۔ ان کے نائب اور بحریہ میں نمبر ٹو ایڈمرل نصرت گونر نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ فی الحال ترک بحریہ میں کوئی بھی ایسا افسر دکھائی نہیں دیتا جو کمان سنبھال سکے کیونکہ بغاوت کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالے جانے والے سیکڑوں فوجی افسران میں بحریہ کے نصف ایڈمرلز بھی شامل ہیں۔ جیل میں ڈالے جانے والوں میں ریٹائرڈ افسران بھی ہیں۔ ان سب پر کسی حد تک اسلام ازم پر یقین رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت کے خلاف سازش کا الزام ہے۔

ایڈمرل نصرت گونر نے استعفیٰ پبلک پراسیکیوٹرز کے اس دعوے کے بعد دیا کہ بحریہ کے ۷۵؍ افسران پر راز حاصل کرنے کے لیے فاحشہ عورتوں کا سہارا لینے کے حوالے سے مقدمہ چلایا گیا تھا اور یہ کہ ایڈمرل نصرت گونر کی جواں سال بیٹی کے بیڈ روم میں بھی جاسوس کیمرہ لگایا گیا تھا۔ ایڈمرل گونر نے مستعفی ہوتے ہوئے جذباتی تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھی بے قصور ہیں۔

ارجینیکون کے نام سے معروف مقدمات نے کسی دور کی انتہائی مستحکم ترک فوج کو کمزور اور منقسم کردیا ہے۔ آخری گنتی کے مطابق سابق چیف آف جنرل اسٹاف سمیت ترکی کے بیس فیصد جرنیل اب جیل میں ہیں۔ مختلف الزامات کے تحت فوج کے اعلیٰ افسران کا جیل میں ڈال دیا جانا، جمہوریت کی فتح قرار دیے جانے کے قابل ہے مگر اسے کیا کہیے کہ مقدمات مشکوک انداز سے چلائے جارہے ہیں اور شواہد کو نمک مرچ لگاکر پیش کیا جارہا ہے۔ دوسری بہت سی بے قاعدگیوں کا بھی الزام عائد کیا جارہا ہے۔

ستمبر ۲۰۱۲ء میں بغاوت کے ایک اور مقدمے، سلیجہیمر (Sledgehammer) میں جن ۲۵۰؍ افسران اور اہلکاروں کو قید کی سزا سنائی گئی ہے، ان کے اہل خانہ کیس کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں لے جارہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران فرضی اور تیار کیے ہوئے شواہد پیش کیے گئے۔ غیر جانبدار فارنسک ماہرین ان کے دعوے کو درست قرار دیتے ہیں۔ واکلیو ہاول اور ڈیسمنڈ ٹوٹو جیسی شخصیات کے لیے وکیل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے واشنگٹن ڈی سی کے قانون دان جیریڈ گینزر نے سلیجہیمر کیس کے مدعا علیہان کی معاونت کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کے حوالے سے الزامات بے بنیاد اور شواہد من گھڑت اور کمزور ہیں۔

کچھ لوگ فتح اللہ غلین کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جو امریکی ریاست پنسلوانیا میں خود ساختہ جلا وطنی گزار رہے ہیں۔ چند جرنیلوں نے سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان کو ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس کامیابی کے بعد فتح اللہ غلین کے ارادت مندوں کو خاصا پریشان کیا تھا۔ فتح اللہ غلین اور ان کے گروپ کے کارکنوں نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی سے مل کر ترک سیاست میں دوبارہ اہم کردار ادا کرنے کی ٹھانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پولیس اور عدلیہ میں بھی سرایت کرگئے ہیں۔

ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان چند ایک شکوک کو تو درست قرار دیتے ہیں۔ ان کے دور میں جرنیلوں کی طاقت خاصی گھٹ کر رہ گئی ہے، مگر پھر بھی وہ فتح اللہ غلین کے حلقے کے ارادت مندوں کے اثرات کا اعتراف کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ ملک کے ۴۰۰ سے زائد اعلیٰ فوجی افسران مختلف مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے جیل میں ہیں۔ یہ صورتِ حال فوج کا مورال ڈاؤن کر رہی ہے، اور یہ کہ اگر یہی حال رہا تو اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لیے موزوں افسران نہیں ملیں گے۔ کردستان ورکرز پارٹی سے مذاکرات کے باوجود فوج پر کرد باغیوں کے حملے جاری ہیں۔ شام کی صورت حال ترک سرحدوں پر دباؤ میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ ایسے میں اردوان (Erdogan) کا فوج کی کارکردگی کے حوالے سے متفکر ہونا فطری امر ہے۔

اردوان نے ارجینیکون مقدمات سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی ہے، مگر کچھ لوگ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے بعض معاملات میں عسکری قیادت سے معاملات طے کرلیے ہیں۔ چیف آف جنرل اسٹاف نزدت اوزال کا اس منصب تک آنا پیش رَو کے استعفے پر منحصر تھا۔ جنرل نزدت اوزال غیر معمولی حد تک اردوان سے وفادار ہیں۔ دسمبر ۲۰۱۱ء میں عراق سے ترکی میں داخل ہونے والے کرد باشندوں کو باغی سمجھ کر ان پر بمباری کے معاملے میں اردوان نے فوج کا کھل کر ساتھ دیا۔ اس واقعے میں ۳۴ شہری مارے گئے تھے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ اس سانحے کی تحقیقات کرنے والے پارلیمانی کمیشن کے بارے میں بھی اب یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ معاملات کو دبانے اور چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب تک کسی کو سزا نہیں سنائی گئی۔

ہوسکتا ہے کہ اردوان کے ذہن میں یہ بات ہو کہ فوج اب تک ان کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ ان کی یہ سوچ اِس حقیقت کے تناظر میں حیرت انگیز نہیں کہ وہ اب تک مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جرنیل قومی سلامتی کونسل کے ذریعے سویلین حکومتوں کو کنٹرول کیا کرتے تھے۔ اردوان نے وسیع اختیارات یکسر ختم کرکے اس ادارے کو علامتی حیثیت دے دی ہے۔ ۲۰۱۰ء کے ریفرنڈم میں آئینی اصلاحات کی منظوری کے بعد فوجیوں پر سویلین عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے لگے۔ امریکی ریاست پنسلوانیا کی لیہائے یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہنری بارکے کا کہنا ہے کہ اردوان فوج کو اپنا بغل بچہ سمجھتے ہیں۔

چند ایک خرابیوں اور ناکامیوں کے باوجود جرنیل اب تک مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ دفاعی بجٹ اب تک سویلین سیٹ اپ کی دست بُرد سے بہت حد تک محفوظ ہے۔ چیف آف جنرل اسٹاف اب بھی وزیر دفاع کے ماتحت نہیں۔ فوج کو سیاست میں مداخلت کی اجازت دینے والا قانون برقرار ہے۔

یہ خیال مکمل طور پر بے بنیاد نہیں کہ فوج نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت کے خلاف جانے کی کوشش کی۔ ۲۰۰۷ء میں فوج نے سابق وزیر خارجہ عبداللہ گل کو صدر بننے سے روکنے کی کوشش محض اس بنیاد پر کی کہ ان کی اہلیہ اسکارف پہنتی ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں جرنیلوں نے ایک بار پھر ہمت دکھائی اور یہ کہتے ہوئے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو غیر قانونی قرار دلانے کی کوشش کی کہ یہ شرعی قوانین نافذ کرنے کے درپے ہے۔ آئینی عدالت میں یہ کیس صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے مسترد ہو پایا۔ انسانی حقوق کے ایک وکیل اورہان کمال چنگیز کا کہنا ہے کہ ارجینیکون کیس میں جرنیلوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔

۱۹۶۰ء سے اب تک ترک فوج نے چار منتخب جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا ہے۔ سب سے خوں ریز فوجی بغاوت ۱۹۸۰ء میں ہوئی جب ۵۰؍ افراد کو پھانسی دی گئی، ۵؍لاکھ سے زائد گرفتار ہوئے اور سیکڑوں افراد جیل میں مر کھپ گئے۔ ان سب باتوں کے باوجود لاکھوں ترکوں نے بغاوت کا خیر مقدم کیا کیونکہ وہ فوج کو کمال اتا ترک کے متعارف کرائے ہوئے سیکولرازم کی محافظ گردانتے ہیں۔ اس بغاوت کے مرکزی کرداروں کو اب مقدمات کا سامنا ہے۔ فوج کے غلط اقدامات سے متعلق حقائق سامنے آنے پر اب رائے عامہ تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایوان صدر نے مقبولیت کے معاملے میں فوج کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جبری بھرتی کی زَد میں آنے والے رنگروٹوں کے حقوق کے لیے سرگرم گروپ ’’سولجرز رائٹس‘‘ نے بتایا ہے کہ ایک عشرے کے دوران فوج میں جبری بھرتی کیے جانے والے ۹۳۴ نوجوانوں نے خودکشی کی ہے۔ ایک عشرے کے دوران اتنے فوجی تو کرد باغیوں سے جھڑپوں میں بھی نہیں مارے گئے۔ خودکشی کرنے والے نوجوان فوجیوں کے والدین جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کہیں اعلیٰ افسران نے تو موت کے گھاٹ نہیں اتارا تھا۔

(“Turkey and its Army, Erdogan and His Generals”… “The Economist”. Feb. 2nd, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*