ترکی اور عرب دنیا

سعودی شہزادے عبدالعزیز بن طلال بن عبدالعزیز السعود نے سعودی عرب کے شراکت دار اور مشرق وسطیٰ کے استحکام میں اہم کردار ادا کرنے کے حوالے سے ترکی کو سراہاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کردار اگرچہ نیا ہے تاہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

شہزادہ عبدالعزیز بن طلال کہتے ہیں کہ ’’پانچ دس سال پہلے تک یہ معاملہ نہیں تھا۔ خطے کی سلامتی اور استحکام میں ترکی کا واضح کردار نہیں تھا اور ہر معاملے میں اس کی طرف دیکھنے کا رجحان بھی عام نہیں ہوا تھا‘‘۔ سعودی شہزادے نے ان خیالات کا اظہار انقرہ کے تھنک ٹینک سینٹر فار مڈل ایسٹرن اسٹریٹجک اسٹڈیز کی دعوت پر ترکی کے دورے کے دوران ٹوڈیز زمان سے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے ترکی سے تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے ترکی کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے خطے کی سیاست اور سفارت میں ترکی کی واپسی کا خیر مقدم بھی کیا۔

سعودی شہزادے کا کہنا تھا کہ خطے میں بہتر طور پر آگے بڑھنے اور اپنا کردار بھرپور طور پر منوانے کے لیے ترکی کو اپنا وجود ایک بار پھر پوری قوت سے منوانا ہوگا۔ فی الحال چند ایک امور میں تھوڑا بہت تذبذب پایا جاتا ہے۔

عبدالعزیز بن طلال کا کہنا تھا ’’بعض ممالک خطے کے کسی بھی ملک کے معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ اس پر اپنے فیصلے تھوپتے ہیں۔ ترکی کے معاملے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کی نیت سب پر واضح ہے اور اس کے مقاصد کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں پایا جاتا‘‘۔

’’خطے کی سیاست میں ترکی کی دوبارہ آمد کا بھرپور خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ عرب دنیا کے معاملات کو درست کرنے کے لیے ترکی کے بھرپور اور فعال کردار کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ ایک سال سے عرب دنیا کا بڑا حصہ اور شمالی افریقا شدید عدم استحکام سے دوچار ہے۔ جسے عرب اسپرنگ کہا جارہا ہے وہ اسلامی خزاں بھی قرار دی جاسکتی ہے۔ عرب اسپرنگ کے نام پر جو کچھ ہوا ہے اس کے نتیجے میں خطے کے عوام اور ان کی حکومتوں کے درمیان شدید نفرت کا بیج بویا گیا ہے۔ ہزاروں افراد قتل کیے جاچکے ہیں اور مزید ہزاروں افراد پابندِ سلاسل ہیں‘‘۔

’’عرب دنیا میں ترکی دوبارہ اے کے پارٹی کی بدولت ابھرا ہے۔ ترکی اور عرب دنیا کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنے اور بیشتر امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا موقع ملا ہے۔ اے کے پارٹی کی حکومت ہمارے لیے اللہ کا تحفہ ہے۔ پارٹی خطے میں تمام معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی اور عرب دنیا کے تعلقات کے حوالے سے میرے بھی تحفظات رہے ہیں مگر اس کے باوجود یہ بات بہت اہم ہے کہ ترکی اور عرب دنیا کے رہنما اچھی طرح رابطے میں رہتے ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اس صورت میں بہتر اشتراک عمل کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان معاشی اور ثقافتی رشتے مزید مضبوط ہوں گے۔ اس حوالے سے کام کی رفتار سست سہی، مگر خیر کام ہو تو رہا ہے‘‘۔

شہزادہ عبدالعزیز بن طلال کا کہنا تھا ’’میں یہ دکھانے کے لیے ترکی آیا ہوں کہ ہمارے لیے ترکی کس قدر اہم ہے اور ہم اس کا کس حد تک احترام کرتے ہیں۔ ترکی کو ہم اپنا برادر مسلم ملک تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے ہمارا تعلق اسلامی، تاریخی اور ثقافتی نوعیت کا ہے۔ اب جبکہ بہارِ عرب نے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے، خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے لازم ہے کہ سعودی عرب اور ترکی ایک دوسرے کے مزید قریب آئیں‘‘۔

’’خطے میں ترکی کے بڑھتے ہوئے کردار کے حوالے سے تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی ایک بار پھر سلطنتِ عثمانیہ کا احیاء چاہتا ہے۔ یہ تحفظات اس لیے پیدا ہو رہے ہیں کہ لوگ ترکی کی تاریخ سے واقف نہیں۔ کچھ لوگ اب تک ماضی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ترکی اور اس سے ملحق علاقہ سلطنتِ عثمانیہ کہلاتا تھا۔ تب ترکی کی عسکری قوت غیر معمولی تھی اور اس نے جزیرہ نما عرب کا بڑا حصہ فتح کرلیا تھا۔ آج کے عرب ممالک صدیوں ترکی کے باج گزار رہے۔ یہ سب ماضی کی باتیں ہیں۔ آج ترکی مضبوط ہے مگر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ علاقائی استحکام کے لیے کیا کردار ادا کرسکتا ہے‘‘۔

’’ایران کے حوالے سے خطے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ مغرب سے تصادم کی راہ پر گامزن ہوکر ایران نے چند ایک مشکلات کو جنم دیا ہے۔ اس کی طرف سے ملنے والے اشارے انتہائی خطرناک ہیں۔ مغرب کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے جواب میں ایران نے آبنائے ہرمز بند کرکے تیل کی ترسیل بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ کشیدگی ختم کرنے کے بجائے معاملات کو مزید الجھا رہا ہے۔ ایران کی جانب سے مغربی مفادات کو نشانہ بنانے کی بات بھی خاصی پریشان کن ہے۔ اس صورت میں علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ سفارتی بحران ختم کرنے کے لیے ایران کو مغرب سے تعاون کرنا چاہیے‘‘۔

’’ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا کوئی فائدہ اب تک نہیں ہوا۔ چند ممالک اب بھی ایران کی مدد پر کمر بستہ ہیں۔ ایران میں بعض ایسے سر پھرے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک بٹن دباکر ہزاروں میزائل خلیجی مجلس تعاون کے رکن ممالک قطر، کویت، عمان، متحدہ عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب پر برسادیں گے۔ ایران میں جو نظام حکومت ہے وہ تنہا نہیں گرے گا بلکہ سب کو لے کر گرے گا۔ امریکا کہتا ہے کہ ایران کی فوج اتنی طاقتور نہیں جتنی بتائی جارہی ہے۔ ایران کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی خطرناک ثابت ہوگی۔ اگر ایرانیوں کے پاس ہزاروں نہ سہی تو سیکڑوں میزائل ضرور ہیں جن کا رخ خلیج کے خطے کی طرف ہے۔ اگر ایران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی ہوئی تو ایک ایسا تنازع چھڑے گا جو عشروں میں ختم کیا جاسکے گا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ عالمی معیشت کے لیے انتہائی اہم خطے میں کوئی بھی محاذ آرائی کیا رخ اختیار کرے گی۔ خلیجی مجلس تعاون کے رکن ممالک کو ایک زمانے سے یہ خطرہ لاحق ہے کہ ایران کی جانب سے کبھی بھی کوئی خطرناک اقدام ہوسکتا ہے۔ اس سے نمٹنے کی تیاری بھی کی جاتی رہی ہے۔ مگر خیر، خلیجی مجلس تعاون کے رکن ممالک بات چیت کے ذریعے ہی ہر بحران کو حل کرنے کے متمنی ہیں۔ مگر خیر جب کوئی ایک فریق خطرناک اشارہ دے تو بات چیت کی اہمیت نہیں رہتی جیسا کہ آبنائے ہرمز بند کرنے کی ایرانی دھمکی کے حوالے سے ہے۔ ایران کے مقاصد اب تک واضح نہیں اور عرب ممالک میں اس کی مداخلت بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ عرب ممالک کے استحکام کو داؤ پر لگانا چاہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ترکی بالآخر درست جانب کھڑا ہوگا‘‘۔

’’یورپ کے میزائل دفاعی نظام کے حوالے سے ایران نے ترکی کو بھی ڈرانے کی کوشش کی۔ جب ترکی نے یہ نظام نصب کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو ایران نے دھمکی دی کہ وہ اسے تباہ کردے گا۔ میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب دراصل یورپ سے باہر کہیں سے بھی آنے والے میزائلوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے تھا۔ ایرانی اس نوعیت کے دعوے کرتے رہے ہیں مگر کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔‘‘

’’ایران نے مختلف معاملات نمٹانے کے لیے جو رویہ اور طریق کار اختیار کر رکھاہے اس کے نتیجے میں علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ایران نے کوئی ایسا ویسا اقدام کیا تو خطے میں چھڑنے والی لڑائی تیسری عالمی جنگ کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔ ایران کو ایسا کچھ بھی کرنے سے باز رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اس کی قیادت میں تبدیلی رونما ہو مگر یہ تبدیلی باہر سے تھوپنے کی کوشش لاحاصل رہے گی۔ تبدیلی ایران کے اندر سے آنی چاہیے اور خود ایرانی عوام کو کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔‘‘

’’تبدیلی صرف عرب دنیا میں نہیں آئی بلکہ ایران میں بھی لوگوں کی سوچ میں تبدیلی شروع ہوچکی ہے۔ یہ عمل ۲۰۰۹ء میں شروع ہوا تھا اور امید ہے کہ ایرانی عوام بھی مختلف اشوز پر نئی پالیسی کی راہ ہموار کریں گے۔ ویسے خطے میں کسی فوری بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہارِ عرب نے تبدیلیوں کی امید پیدا کی ہے۔‘‘

’’عوامی بیداری کی لہر اچھی بات ہے مگر یہ تمام مسائل کا حل نہیں ہے کہ حکومت کو ختم کردیا جائے۔ تبدیلی مرحلہ وار ہی آسکتی ہے۔ عراق کا کیس ہمارے سامنے ہے۔ جب باہر سے تبدیلی مسلط کی گئی تو صرف خرابی پیدا ہوئی۔ شام میں بھی لوگ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بیرونی مداخلت کے ثبوت بھی ملے ہیں۔ کئی تنظیمیں بھی شام میں مذموم مقاصد کے لیے کام کر رہی ہیں۔ یہ ان ممالک کے اپنے پیدا کردہ مسائل ہیں۔ عرب دنیا ان کے معاملات درست کرنے کے حوالے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔ مبصرین بھیج کر صورت حال کا جائزہ ضرور لیا جاسکتا ہے۔ بات چیت کے لیے خون خرابہ رکوانے کی بات کی جانی چاہیے۔‘‘

’’دو ماہ قبل سعودی فرماں روا عبداللہ بن عبدالعزیز نے ٹیلی ویژن پر شام کی حکومت کو مخاطب کیا۔ ایسا اس لیے کرنا پڑا کہ شام کے حکمران نجی طور پر کہی جانے والی کوئی بات نہیں سن رہے تھے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بعض ممالک اپنے مذموم مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے شام میں مداخلت کرکے بشارالاسد انتظامیہ کی معاونت کر رہے ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ معاملے کو عرب لیگ کے حوالے کیا جائے۔ شام کا معاملہ اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی جاچکا ہے مگر کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے جب روس اور چین جیسے بڑے ممالک بشارالاسد انتظامیہ کی مدد پر کمر بستہ ہوں؟‘‘

’’عرب لیگ سے شام کے مذاکرات ناکام رہے ہیں۔ شام کی حکومت نے عرب مبصرین کی موجودگی میں بھی قتل عام نہیں روکا۔ مبصرین نے چھتوں پر نشانہ باز تعینات دیکھے۔ عرب لیگ کی جانب سے مبصرین بھیجنے کا اقدام شام کی حکومت کو قتل عام سے روکنے کی تحریک دینے میں ناکام رہا۔‘‘

’’شام میں حکومت کی تبدیلی عرب ممالک کی ترجیح نہیں۔ لیکن اگر بشارالاسد انتظامیہ کا خاتمہ ہوتا ہے تو خطے میں ایران کے اثرات کم کرنے میں مدد ضرور ملے گی۔ دوسری طرف یہ خدشہ بھی ہے کہ حزب اللہ جیسی تنظیمیں ایک بڑے مددگار سے محروم ہونے کی صورت میں اپنے وجود کو منوانے کے لیے زیادہ خطرناک انداز سے سامنے آئیں گی۔ شام میں حکومت کی تبدیلی پورے خطے میں بہت سی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرے گی اور آگے چل کر اس سے سب کے لیے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔‘‘

’’مشرق وسطیٰ میں معاملات کو درست کرنے کے لیے طاقت اور تشدد سے ہٹ کر بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ عراق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ امریکا نے عراق کے معاملات درست کرنے کے نام پر صدام حسین کی حکومت کو ختم کیا مگر اس سے کیا ہوا؟ صرف خرابیاں پیدا ہوئیں۔ صدام حسین سے نجات پانے کے اور بھی طریقے ہوسکتے تھے‘‘۔

(بشکریہ: ’’ٹوڈیز زمان‘‘ ترکی۔ ۹ جنوری ۲۰۱۲ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*