جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے رکن اور یورپ کے گروپ آف دی الائنس آف دی لبرلز اینڈ ڈیموکریٹس کے سربراہ الیگزینڈر گراف لیمز ڈارف کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم کے خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر یورپ اور ترکی کو زیادہ سے زیادہ بات چیت کرنا چاہیے تاکہ دونوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ممکن ہو۔ بالخصوص مشرقی بحیرہ روم میں قبرص سے شام اور غزہ سے مصر تک حالات تیزی سے پلٹا، بلکہ پلٹے کھا رہے ہیں۔ لیمز ڈارف کا کہنا ہے کہ یورپ اور ترکی کے مفادات مشترکہ ہیں اس لیے ان کے درمیان تزویراتی مذاکرات لازم ہیں۔ مفادات کے بارے میں کوئی بات طے کرنے میں وقت ضرور لگے گا مگر بات چیت کیے بغیر چارہ نہیں۔ اگر بات چیت نہ کی گئی تو دونوں کے مفادات میں اختلاف بڑھے گا اور اس حوالے سے تصادم کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ حال ہی میں استنبول کے دورے میں لیمز ڈارف نے یورپ اور ترکی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار ایک انٹرویو میں کیا جو ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
– آپ کا کہنا ہے کہ ترکی اور یورپ کو تزویراتی مذاکرات کرنا چاہئیں۔ اس کی وضاحت کیجیے کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟
لیمز ڈارف: ترکی ایک اہم ملک ہے۔ اور یورپ بھی بہت اہم خطہ ہے۔ عشروں تک ان کے تعلقات خوشگوار رہے ہیں۔ ترکی کو یورپ کا حصہ بنانے کے معاملے پر چند ایک اختلافات رہے ہیں۔ مگر مجموعی طور پر ترکی کے مفادات یورپ سے اور یورپ کے مفادات ترکی سے وابستہ ہیں۔ ترکی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ یورپ کا باضابطہ حصہ بننے کے لیے بے تاب ہے۔ اس حوالے سے معاملات درست نہیں چلے آرہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بات چیت جاری رہنی چاہیے تاکہ معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار ہو۔ مفادات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم بات چیت کریں۔
– ترکی کو اپنا حصہ بنانے سے زیادہ یورپ اس وقت دوسری بہت سی ترجیحات رکھتا ہے؟
لیمز ڈارف: اس وقت یورپی یونین اپنی مشترکہ کرنسی یورو کو مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔ اس اقدام کی کامیابی پر یورپی یونین کے ارکان کی بہبود کا مدار ہے۔ اس وقت یورپی یونین کی توسیع سے زیادہ استحکام اور بہبود اہم ہے۔
– ترکی میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یورپ کے چند لیڈر (مثلاً جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی) ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کے مخالف ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر وہ ترکی اور ترک معاشرے کے مخالف ہیں۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟
لیمز ڈارف: یورپ کے کچھ حصوں میں اسلام مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ ترکی کا معاملہ مختلف ہے۔ میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کا رکن اور اس خیال کا حامل ہوں کہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے۔ سیاسی بحث میں اسلام کی مخالفت یا ترکی کی مخالفت کا نکتہ شامل کرنا لا حاصل ہے۔ ترکی یورپی یونین میں شمولیت کی بھرپور اہلیت رکھتا ہے۔ چند لیڈروں کے خیال میں بہتر یہ ہے کہ ترکی کو اپنی صفوں میں شامل نہ کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ رفتہ رفتہ ترکی کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی۔ یہ بات کسی بھی طور برداشت نہیں کہ کسی ملک کو محض اس لیے یورپی یونین کی رکنیت نہ دی جائے کہ اس کی اکثریت مسلمان ہے۔
– آپ نے یورپ کے بعض حصوں میں اسلام مخالف جذبات کی بات کہی۔ یورپ میں اسلامو فوبیا بھی تو ہے۔ ان دونوں میں فرق کیوں کر کیا جاسکتا ہے؟
لیمز ڈارف: میں ان دونوں میں زیادہ فرق نہیں کرتا۔ یورپ میں چند ایک رجعت پسند ایسے بھی ہیں جو اس خیال کے حامل ہیں کہ یورپ ایسے ممالک کا کلب ہے جو مسلمانوں کی واضح اکثریت رکھنے والے کسی بھی ملک کو قبول نہیں کرسکتا۔ یہ انتہائی ناقابل قبول ہے۔ یہ رائے چند افراد کی ہے، تمام یورپی باشندوں کی نہیں۔ اگر سیاست میں مذہب کو متعارف کرائیں تو ایک پینڈورا بکس کھل جائے گا۔ یورپ میں مذہب نے سیاست سمیت تمام معاملات پر متصرف ہونے کی کامیاب کوششیں کی ہیں اور ہم نے بڑی مشکل سے اس رجحان کو شکست دی ہے۔ ۱۶۱۸ سے ۱۶۴۸ تک جاری رہنے والی جنگ اس کی واضح مثال ہے۔ اس جنگ کے اختتام پر امن معاہدے میں اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ سیاست اور مذہب الگ الگ رہیں گے۔
– یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت سے یورپ کے اسلامو فوبیا کو ختم کرنے میں مدد ملے گی یا نہیں؟
لیمز ڈارف: یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت سیاسی عمل ہے، معاشرتی یا مذہبی نہیں۔ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ معاشی اعتبار سے یہ قابل قبول ہے یا نہیں۔ تمام امور کا جائزہ لینا ناگزیر ہے تاہم بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں رکھنا چاہئیں۔ ایک ملک کو یورپی یونین کی رکنیت دینے سے لوگوں کا متعصبانہ رویہ تبدیل نہیں ہو جائے گا۔
– فرانس کے انتخابات قریب آ رہے ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ترک مخالف جذبات انتخابی مہم کے دوران اور نتائج میں نمایاں ہوں گے؟
لیمز ڈارف: میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا۔ آرمینیا کا مسئلہ انتخابات میں سر فہرست ہوگا۔ دوسرے نمبر پر ترکی ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ صرف قیادت نہیں بلکہ فرانس کے عوام کی اکثریت بھی یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے خلاف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انتخابی مہم میں عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے آرمینیا کا مسئلہ اٹھایا جائے۔ اور اس صورت حال سے فرانس اور ترکی کے لیے بہتر تعلقات استوار کرنا مزید دشوار ہو جائے۔
– آپ ترکی اور یورپ کے درمیان تزویراتی مذاکرات کو خطے کے استحکام کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ دونوں کو تصادم یا مسابقت کے بجائے تعاون کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ اس کی وضاحت کیجیے۔
لیمز ڈارف: مشرقی بحیرہ روم کا خطہ اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ عرب ممالک میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی ہے۔ بہت کچھ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ شام میں خرابی چل رہی ہے۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان شدید کشیدگی ہے۔ غزہ میں کچھ بھی اچھا نہیں چل رہا۔ مصر تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ قبرص کے معاملے پر بھی پیش رفت یقینی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس وقت مشرقی بحیرہ روم کا خطہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور ترکی کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ ترکی اور یورپی یونین کے تقریباً تمام ارکان معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے بھی ارکان ہیں۔ ہمیں مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ دینا چاہیے۔ یہ عمل طویل بھی ہوسکتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ مگر ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی ایسے سیاسی آئیڈیا کو قبول نہ کیا جائے جو معاملات کو محض الجھاکر رکھے۔ ترکی وسط ایشیا، کاکیشیا اور افریقا میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ترکی کے ساتھ یورپ میں کس حد تک تعاون کیا جاسکتا ہے، کہاں تک اشتراکِ عمل ممکن ہے۔ اتحادی ہونے کے ناطے ہمیں بہت کچھ دیکھنا ہوگا۔ اگر ہم بعض امور میں اختلافات کے حامل ہوں تو پھر اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
– کیا آپ کو ترکی سے تزویراتی مذاکرات کے یورپ میں مخالفین دکھائی دیتے ہیں؟
لیمز ڈارف: جی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ترکی میں کچھ لوگ اس حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ تزویراتی مذاکرات کیے گئے تو یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کا معاملہ سرد خانے میں چلا جائے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ لیبیا کے معاملے پر فرانس نے ترکی کو مذاکرات میں شریک کرنے کی مخالفت کی تھی۔ یہ انتہائی غلط اقدام تھا۔
– عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے حوالے سے آپ نے یورپی یونین سے زیادہ ترکی کی پوزیشن کو اہم قرار دیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
لیمز ڈارف: ترکی محل وقوع اور وسائل کے اعتبار سے شمالی افریقا اور مشرق وسطیٰ کے لیے اہم ملک ہے۔ یورپی یونین کو معاملات درست کرنے کے لیے ترک وسائل استعمال کرنا چاہئیں۔ ہم نے یورپی یونین کے صدر مقام برسلز اور قومی صدر مقامات (لندن، پیرس وغیرہ) میں بھی اس امر پر بحث کی ہے۔ ترکی سے اسٹریٹجک ڈائیلاگ لازم ہے۔ یورپی یونین میں شمولیت کا معاملہ خواہ کچھ ہو، یہ سوچنا انتہائی غلط ہے کہ خطے کے معاملات میں ترک کردار محدود ہے۔ معاملات کی درستی کے لیے ترکی کو اس کا جائز مقام اور احترام دینا ہوگا۔ ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ نیٹو کے ارکان میں دوسری سب سے بڑی فوج ترکی کی ہے۔
– کیا اب بھی یورپی یونین میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ شمولیت کا حق دیئے جانے سے انکار کی صورت میں ترکی کسی اور اتحاد سے مل جائے گا اور نیٹو سے بھی نکل جائے گا؟
لیمز ڈارف: ۲۰۰۳ء میں ترکی اور یورپ کے تعلقات کشیدہ ہوئے۔ ترکی نے امریکا کو عراق جنگ کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کیا۔ پھر اس کے تعلقات اسرائیل سے بھی کشیدہ ہوئے۔ ایک مرحلے پر ایسا بھی لگا کہ شاید وہ نیٹو کی رکنیت ترک کرکے مغرب مخالف لہر میں بہہ جائے گا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس حوالے سے خدشات پالنا اچھی بات نہیں۔ ترکی نے ایران، شام یا روس کے ساتھ مل کر کوئی محور قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ترکی آج بھی برسلز اور واشنگٹن سے اپنے مفادات وابستہ کئے بیٹھا ہے۔ اگر ترکی ہائی ٹیک قوم بننا چاہتا ہے تو اسے یورپ کے ساتھ مل کر چلنا پڑے گا۔ یہی اس کے بہترین مفاد میں ہے۔ نیٹو میں امریکا قائدانہ کردار کا حامل ہے اور ترکی کی سیکورٹی کا ضامن بھی ہے۔ ترکی کے مفادات مغرب اور شمال سے وابستہ ہیں۔ مشرق اور جنوب بھی اہم ہیں مگر زیادہ نہیں۔
– ترکی خبردار کرچکا ہے کہ اگر ۲۰۱۲ء میں یونانی قبرص کو یورپی یونین کی رکنیت دی گئی تو وہ یورپی یونین کے رکن ممالک سے اپنے تعلقات منجمد کردے گا۔ کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات میں ایک بار پھر شدید خرابی رونما ہونے والی ہے؟
لیمز ڈارف: ایسا بیان غیر دانش مندانہ ہے۔ قبرص یورپی یونین میں واحد چھوٹا ملک نہیں جس کے پڑوس میں کوئی بڑا ملک ہے۔ بڑے ممالک اپنے چھوٹے پڑوسیوں کی تمام پالیسیوں کو قبول اور برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر لیٹویا اور ایسٹونیا کی پالیسیوں سے روس کو شدید اختلاف ہو اور وہ ان پالیسیوں کے خلاف جانے کا سوچ لے تو سوچیے کیا ہوگا۔ یورپی یونین روس سے ترکِ تعلق کو ترجیح دے گی۔ ترکی یورپی یونین میں شمولیت کا امیدوار ہے۔ اسے ایسا کوئی بھی بیان دینے سے پہلے اس کے عواقب کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ قبرص کے معاملے پر پیش رفت ۲۰۱۲ء کے دوسرے نصف میں متوقع ہے۔
– اگر قبرص کا معاملہ مستقبل قریب میں طے نہ ہو پائے تو کیا آپ کے خیال میں یورپی یونین کو آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنا چاہیے؟
لیمز ڈارف: اقوام متحدہ نے عشروں تک اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسے مزید موقع دیا جائے۔ اگر ایک سال کے اندر یہ معاملہ طے نہ ہوا تو یونان، ترکی، ترک قبرصی اور یونانی قبرصی سبھی پریشان ہوں گے۔ اگر یورپ سے کسی کردار کی توقع رکھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قبرصی باشندوں کو یورپی سانچے میں ڈھلنا ہوگا۔
– آپ نے ترکی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے بات کی ہے۔ یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے آپ کو کس نوعیت کا اختلافِ رائے دکھائی دیا ہے؟
لیمز ڈارف: یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کا معاملہ اگرچہ طول پکڑ گیا ہے مگر اس کے باوجود ترکی میں حزب اقتدار یا حزب اختلاف کا کوئی بھی رہنما ایسا نہیں جو یورپ کو غیر اہم قرار دیتا ہو۔ ترکی سے ملحق ممالک میں اتنی تیزی سے بہت کچھ بدل رہا ہے کہ ترک قیادت کے لیے لاتعلق رہنا ممکن نہیں۔ باریکی سے جائزہ لینے پر اندازہ ہوگا کہ ترکی نے خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود اپنی پوزیشن نہیں بدلی۔ یورپ آج بھی اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ آج بھی ترک قیادت اپنے مستقبل کو یورپ کے ساتھ دیکھتی ہے۔ ترکی ہائی ٹیک کے معاملے میں بھی یورپ کی طرف دیکھتا ہے۔ پچاس کروڑ افراد اور غیر معمولی قوتِ خرید کی بنیاد پر یورپی یونین دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے پرکشش مارکیٹ ہے۔ ترکی یورپ سے متصل ہے اور نیٹو کا رکن بھی ہے۔ یہ دونوں حقائق اس کے لیے استحکام کے ضامن ہیں۔ ترکی میں کوئی بھی ذمہ دار اور با ہوش رہنما یورپ کو نظر انداز کرنے کی حماقت نہیں کرسکتا۔
– جرمنی کے لیے ترکوں کی نقل مکانی شروع ہونے کے پچاس سال مکمل ہونے پر ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے حال ہی میں میں جرمنی کا دورہ کیا اور چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ پریس کانفرنس میں اس امر کا شکوہ کیا کہ کردستان ورکرز پارٹی نے جرمنی سے ساٹھ لاکھ یورو کا چندہ جمع کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اب تک جرمن حکومت نے کرد باغیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ آپ کے خیال میں جرمن حکومت کردوں سے نمٹنے کے معاملے میں کیا کرسکتی ہے؟
لیمز ڈارف: ترک اور جرمن معیشت کی صورتحال دیکھتے ہوئے ساٹھ لاکھ یورو کوئی رقم ہی نہیں۔ مجھے تو حیرت ہے کہ وزیر اعظم اردگان نے اتنی سی رقم کا تذکرہ بھی کیوں کیا۔ جرمنی بھی پی کے کے (کردستان ورکر پارٹی) کو دہشت گردی پارٹی گردانتا ہے۔ جرمن سرزمین پر اب تک کرد باغیوں نے دہشت گردی کا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا اور نہ ہی کسی منصوبے پر عمل کے لیے جرمن سرزمین استعمال کی گئی ہے۔ اس حوالے سے خدشات بے بنیاد ہیں۔
– جرمن اخبار بلڈ سے انٹرویو میں رجب طیب اردگان نے شکوہ کیا ہے کہ یورپی یونین کے سب سے بڑے رکن (جرمنی) نے ترکی کی رکنیت میں دلچسپی لینا ترک کردیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
لیمز ڈارف: جب مذاکرات کی ابتداء ہوئی تھی تب کوئی چیز طے نہیں کی گئی تھی۔ کوئی بھی ملک کسی بھی وقت ترکی کی رکنیت سے متعلق کسی بھی چیپٹر کو بند کرسکتا تھا۔ اس میں جرمنی کا کوئی قصور نہیں۔ چند بڑے اور زیادہ با اثر ممالک کی حمایت یقینی بنائے بغیر ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے زور دینا شروع کردیا۔ ترک وزیر اعظم کو کسی بھی یورپی لیڈر پر تنقید سے قبل اتنا ضرور سوچنا چاہیے کہ اس صورت حال کی ذمہ داری خود ترکی پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ترک قیادت کا رویہ تعمیری ہونا چاہیے کیونکہ یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق کوششوں کا خواہ کچھ نتیجہ برآمد ہو، یورپی ممالک سے ترکی کے تعلقات بہتر رہنے چاہئیں۔ ہم دوستوں اور اتحادیوں کی طرح کام کرتے رہیں گے۔
– ویزا آزادی سے متعلق کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟
لیمز ڈارف: ہم چاہتے ہیں کہ ترک باشندے یورپی ممالک کا سفر آسانی سے کرنے کے قابل ہو جائیں۔ جرمن تاجروں، طلبہ، فنکاروں اور اہل دانش کو سفر کی بہتر سہولتیں میسر ہونی چاہئیں۔ ہم جرمنی میں اس مسئلے پر رجعت پسندوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
(لیمز ڈارف کا تعلق جرمنی کی فری ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ وفاقی حکومت میں شریک کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور سوشل ڈیموکریٹک یونین میں وہ جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے شریک ہے۔ لیمز ڈارف اٹلانٹک انیشئیٹیو جرمنی اور جرمن ٹرکش فاؤنڈیشن کے بانی رکن ہیں۔ انہوں نے ۱۹۹۵ء سے ۲۰۰۳ء تک جرمن دفتر خارجہ میں خدمات انجام دیں۔)
(بشکریہ: روزنامہ ’’ٹوڈیز زمان‘‘ ترکی۔ ۱۳؍ نومبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply