ترکی کی لچک دار و روشن خیال اسلامی حکومت اور عربوں کے درمیان نئے تعلقات کی شروعات کے لیے ہر دو کے لیے یکساں طور پر ایک تاریخی موقع ہے۔ ان ہی تعلقات کے ذریعہ ان تاریخی مغالطوں کو دور کیا جاسکتا ہے جو دونوں کے درمیان گزشتہ کچھ عرصہ سے چھایا ہوا ہے، ترکوں میں ایک بدگمانی یہ پھیلی ہوئی ہے کہ مغربی طاقتوں کے مقابلہ پر عثمانی خلفاء کو عربوں کی خیانت و غداری کی وجہ سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا نہ کہ ان کے انحطاط و تنزلی یا سرکشی کی وجہ سے، اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلہ پر بھرپور روشنی ڈالی جائے، اور پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ اس بدگمانی کو دور کرنے کی تدبیر کی جائے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اب خود ترک عوام اپنی سلطانی و خلافتی تاریخ سے اسی طرح دوری اختیار کرنے لگے ہیں جس طرح عرب کیے ہوئے ہیں اور یہ اس وجہ سے کہ ماضی کے احساسات کا ازالہ ہی جدید ترکی اور عربوں کے درمیان متوقع باہمی تعاون کا راستہ ہموار کر سکتا ہے، اسی کے ذریعہ مسئلہ فلسطین ہو یا دیگر عرب مسلم مسائل اس میں یکساں موقف اختیار کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی اسلامی درسگاہوں نے اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کے بعد حالیہ دنوں یہ تصور کر لیا کہ ترکی اسلامی خلافت کا ملک اور اس کے رہنما اسلامی قائدین ہیں، اور بہت جلد اسرائیل کے خلاف وہ عربوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے جارہے ہیں۔ مگر تاریخی اعتبار سے سعودی اتحاد، سنوسی اور ہاشمی عرب جیسے سارے عرب انقلابات نے عثمانی خلافت و سلطنت کے تسلط و بالادستی اور اس کے اثر و رسوخ کو مسترد کرنے کی کوشش کی، ۱۹۰۸ء میں عثمانی دستور کے اعلان کا ترکوں و عربوں میں سے ہر ایک نے دھوم دھام سے جشن منایا اور آزادی کے ایک نئے دور کے آغاز پر خوشی منائی تھی، مگر سلطان عبدالحمید نے اس دستور کو پس پشت ڈال دیا، اور دیگر عثمانی خلفاء کے نقش قدم پر مسلمانوں کے ملک پر حکومت کرتے رہنے کی پالیسی اختیار کی، یہ بات مشہور اور قابل اعتماد دستاویزات سے ثابت ہے کہ سلطان عبدالحمید نے سرزمین فلسطین پر یہودی مملکت کے قیام کو اور اس کی ایک انچ زمین بھی یہودیوں کے حوالے کرنے کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد ہی انہیں بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر اقتدار ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس انقلاب کے آلہ کار بھی عرب ہی بنے تھے جنہیں یہودیوں نے بھڑکایا تھا، جس طرح اس وقت عالم عرب میں بھڑکایا گیا ہے۔
خلافت کے زوال کے بعد ترکی میں جس سیکولرازم کو نافذ کیا گیا اس میں اسلام کے بالکل برعکس رخ کو مبالغہ کی حد تک اپنایا گیا۔ اس میں ترکی کے اسلامی میراث کی ذرہ برابر رعایت نہیں کی گئی، اسلام دشمنی میں وہ اس حد تک نکل گئے کہ انہوں نے اپنی زبان کے حروف و رسم الخط کو بھی عربی سے لاطینی میں تبدیل کر دیا، اس طرح موجودہ ترکی اور ان کے آباء اجداد نے عربی رسم الخط میں جو کچھ لکھا تھا اس کے درمیان کلی طور پر اس طرح قطع تعلق ہو گیا کہ دونوں کے درمیان کوئی رشتہ ہی باقی نہ رہا، یہاں تک کہ کلمہ شہادت اور بسم اللہ جیسے عام بولے اور استعمال کیے جانے والے جملے اور عبارتیں نئی نسل کے ترک باشندوں کے لیے ایسی نہ رہیں کہ وہ اسے پڑھ سکیں، ان عبارتوں کو وہ اسی وقت پڑھ سکتے تھے جبکہ اسے لاطینی رسم الخط میں لکھا جائے، اتاترک نے مسجدوں میں اذان بھی ترکی زبان میں دینے اور عربی الفاظ کو قطعی طور پر استعمال نہ کرنے کا فرمان جاری کر دیا، ترکی کی اسلام سے یہ دوری جاری رہی، پردہ نشین خواتین کا اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ ممنوع ہوگیا، بلکہ پارلیمنٹ میں بھی ان کے داخلے پر پابندی لگ گئی، سب سے تکلیف دہ و افسوسناک بات تو یہ ہوئی کہ ترکی اپنے پورے مشرقی دائرے سے کٹ گیا، اور وہ ناٹو رکن اور اسرائیل کا دوست بن گیا۔ عدنان مندریس جنہیں سیکولرازم کے شیدائیوں نے پھانسی دے دی تھی نے ترکی کی اس نظریاتی تبدیلی کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا تھا ’’ہم مشرق میں اولین و سرفہرست ملک تھے، پھر مغرب کے آخری سرے کے دُم چھلے ملک بن گئے‘‘۔ گزشتہ دو دہائی کے دوران دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ۱۹۸۹ء میں سوویت یونین بکھر گیا، اس کے بعد بڑی دو طاقتوں کے درمیان جاری سرد جنگ ختم ہوگئی، سوویت یونین کا ستارہ ڈوب گیا اور اس کے بعد بڑی طاقتوں کے عروج و زوال کے قانونِ قدرت کے تحت بہت سی بڑی طاقتوں اور اثر و رسوخ اور وزن رکھنے والے ملکوں کا کردار ماند پڑنے لگا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اسی تبدیلی کا اثر ہے کہ اب ترکی کی مسجدوں کے میناروں سے عربی میں اذان کی آواز بلند ہونے لگی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عربی و ترکی زبانوں کی تعلیم پر توجہ دی جائے اور ان دونوں کے اندر ترجمہ کے عمل کو فروغ دیا جائے عربوں کو چاہیے کہ وہ اپنے یہاں ترکی زبان کی تدریس شروع کریں اور ترکوں کو چاہیے کہ عربی زبان سیکھنے سکھانے کا سلسلہ شروع کریں اور ایک کے سرمائے کو ترجمہ کے ذریعہ دوسرے میں منتقل کریں۔ خطہ میں اسلامی رجحانات میں اضافہ، اور ترک اسلامی پارٹیوں کے ظہور کے ساتھ ہی انصاف و ترقی پارٹی اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی جو دو میعاد تک اقتدار پر برقرار رہنے کے بعد اب تیسری میعاد کے لیے اپنے آپ کو اہل ثابت کرچکی ہے، ۱۲ جون کو منعقد ہوئے عام انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ نئے ترکی کی تبدیلی کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں جسے محض انتخابی مزاج قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ توقع کے مطابق اس انتخاب میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے اپنی زبردست کامیابی کا پرچم لہرایا ہے۔ جو بلاشبہ عام باشندوں کے مزاج میں تبدیلی کی عکاسی ہے، ترکی کی جانب سے خطہ میں بڑا و اہم کردار ادا کرنے کے بہت سے اسباب و عوامل ہیں۔ ترکی مشرق و مغرب یعنی ایشیا و یورپ کے درمیان پُل ہے، اس کی یہ حیثیت نہ صرف تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے ہے بلکہ اقتصادی و معاشی اعتبار سے بھی ہے، وہ گیس و پیٹرولیم پیدا کرنے والے ایشیا اور ملکی ترقی، عوامی مطالبات اور ضروریات کے تقاضوں کی بناء پر توانائی کے پیاسے یورپ کے درمیان انرجی پُل ہے۔ اس کے علاوہ خود ترکی کی اقتصادیات تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔ اس وقت ترکی دیگر صنعتوں سے قطع نظر سیمنٹ کی پیداوار اور اس کی برآمدات کا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے، ترکی کے تیار شدہ مال میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت کی موجودگی کی وجہ سے ترکی کی تیار کردہ اشیا کے لیے بین الاقوامی منڈی اپنے دروازے کھلے رکھنے پر مجبور ہے۔ عرب ممالک کی منڈیوں اور تاجروں کا رجحان بہت سے سیاسی اسباب و وجوہات کی بنیاد پر ترکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ترکی کی اس تبدیلی کا اظہار ترک وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو نے اپنی کتاب ’’العمق، الترکی‘‘ (ترکی کی گہرائی) میں جن الفاظ میں کیا ہے وہ محض اظہار ہے جس کا ہمیں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، ترکی کی جانب سے اسرائیل کی تنقید اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ جلد ہی خلافت اسلامیہ میں تبدیل ہونے جارہا ہے، جیسا کہ عالم عرب کی بعض مذہبی تحریکیں سمجھ رہی ہیں بلکہ وہ ملک کے مفادات اور سیاسی فائدے کے تحت ہے، اس کا مقصد ترکی کے مفادات کی تکمیل کے لیے مغرب پر دبائو ڈالنا ہے۔ خاص طور پر یورپی یونین میں قبول کیے جانے کے مقصد کو پانا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات معاندانہ نہیں ہیں اور نہ ہی ایران کے ساتھ اس کی قربت دائمی ہے۔
یہ توقع کی جارہی ہے کہ عالم عرب میں مصر کا جو مقام و مرتبہ ہے ترکی اس کی رعایت کرے گا، کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ بالآخر عرب اپنی قیادت کے لیے مصر کے کردار کے علاوہ کسی اور کے کردار کو قبول نہیں کریں گے، عرب دنیا میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے دوران ترکی کے نمونے کی خوب بات ہو رہی ہے اور اس کے بارے میں ہر جگہ گفتگو چھڑی ہوئی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام پسندی کی ہم آہنگی اتاترکی سیکولرازم کے ساتھ یا لبرل جمہوریت کے ساتھ یا مغربی اثر انگیزیوں کے ساتھ کس طرح ہو سکتی اور ان میں کسی طرح توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ مغربی اثر کو خلافت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے بعد سے ہی ترک باشندوں نے اپنی سماجی زندگی کا حصہ بنایا ہے، اس طرح کی مشکل ترکی میں نہیں پائی جارہی بلکہ شام، اردن، مصر، لبنان جیسے دیگر عرب ملکوں کے اندر بھی پائی جارہی ہے اوراس کی جڑیں یہاں گہری ہو چکی ہیں۔
عدالت و انصاف پارٹی کے رہنما اگرچہ دولت عثمانیہ کی واپسی کے خواب کی نفی کرتے ہیں، مگر عملی طور پر ان کی پالیسی اسی کی ترجمانی کرتی ہے اور بسااوقات یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ انہیں اس کا شدت سے اشتیاق ہے۔ خود رجب طیب ایردوان بھی اکثر وبیشتر زمانۂ خلافت اور عثمانی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے اور واضح کرتے رہتے ہیں کہ یہی تاریخ ہمارا سیاسی و اخلاقی منبع و سرچشمہ ہے وہ کبھی اتاترک کے دور کی طرف اشارہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے تاریخی ورثہ ہونے کا اظہار کرتے ہیں، انصاف و ترقی پارٹی کے زمانہ میں بلاشبہ ترکی کا اثر و رسوخ بڑھا ہے، اس نے عربوں اور مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کی استواری کو ترجیح دی اور تزویراتی گہرائی پر توجہ دی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ ترکی اپنے مختلف ذرائع و وسائل کے سہارے اپنے جغرافیائی سرحدوں سے آگے بڑھ کر کردار ادا کرسکے۔ احمد دائود اوغلو ترکی کی جانب سے بین الاقوامی کردار ادا کرنے کا اظہار ہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ پہلی مرتبہ رکن پارلیمنٹ بننے اور قونیہ شہر کی نمائندگی کرنے کے لیے اپنی انتخابی مہم کے دوران گزشتہ دنوں بھی انہوں نے اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا، اوغلو کی گفتگو اگرچہ ووٹروں کے دلوں کو جھنجھوڑنے والی اور انہیں اپنا گرویدہ بنانے والی تھی مگر اس سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ اوغلو اور ترقی و انصاف پارٹی کے رہنمائوں اور اسلام پسند تحریکوں کا نظریہ کیا ہے ان سبھوں کا نظریہ نئے لباس اور نئے اسلوب و انداز میں عثمانی خلافت کو واپس لانا ہے تاکہ ساری دنیا بالخصوص عالم عرب و عالم اسلام پر اپنا بازو پھیلایا جاسکے۔
اب جبکہ ایردوان صدر جمہوریہ بننے کے لیے پر تولنے لگے ہیں تو لازمی طور پر اس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ اور پارٹی صدر کے عہدہ کو چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے ہیں اسی لیے شاید احمد دائود اوغلو کی نگاہ اس وقت وزارتِ عظمیٰ اور پارٹی صدر کے عہدہ پر ٹک گئی ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ان دونوں عہدوں کے لیے اردگان کے بعد ان سے زیادہ بہتر اور لائق و مناسب کوئی دوسری شخصیت نہیں ہوسکتی ہے۔ دائود اوغلو نے قونیہ شہر میں اپنے حامیوں اور وفاداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ ترکی کو بین الاقوامی قیادت کرنے والا ملک دیکھنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ترکی نہ صرف عالم اسلام کی قیادت کرے بلکہ ساری دنیا کی قیادت کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا بہت جلد قیادت کی صلاحیت رکھنے والے اس ملک کے قدم کی آہٹ سنے گی‘‘۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ترکی کی امنگ اس وقت یہی ہے کہ وہ چھ صدی تک برقرار رہنے والی اور تین براعظموں پر پھیلی ہوئی عثمانی عظمتِ رفتہ کو واپس لائے اور خاص طور پر عالم اسلام کی قیادت کے کردار کو انجام دے۔
احمد دائود اوغلو اپنے قلب و دماغ میں سابقہ عثمانی وراثت کو نئے ڈھانچے اور عصری لباس میں بٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ اس تعلق سے بسااوقات ایسے وسائل استعمال کرتے یا اس طرح کی نقل و حرکت کرتے ہیں جس سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی کو یہ اندازہ کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی کہ ان کی امنگ کیا ہے اور وہ کس نظریہ کے حامل ہیں۔
اسی وجہ سے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے۔
ترکی اس نئے انتخابات کے بعد یورپی یونین میں شامل ہونے کا رخ اختیار کرے گا یا عالم اسلام کی قیادت کے لیے خلافت عثمانیہ کے احیاء کا یا ان دونوں کے بیچ کی راہ اپنانے کی کوشش کرے گا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیچ کی راہ نہایت دشوار گزار ہے اور فی الحال یورپی یونین میں داخلہ بھی مشکل ہے۔ اس لیے اب مزید شدت سے خلافت کی واپسی کا نعرہ بلند کیا جائے گا تاکہ مغرب پر اس کا دبائو پڑے اور وہ اپنے موقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو۔
(بحوالہ: ’’الشرق الاوسط البیان العرب آن لائن‘‘)
Leave a Reply