ترکی کسی زمانے میں امریکا کا غیر مشروط اتحادی تھا اور اس کے تمام ہی پڑوسی اس سے کسی نہ کسی معاملے میں نالاں رہا کرتے تھے۔ اب معاملات یکسر تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں۔ ترکی نے خارجہ پالیسی کے میدان میں ایسی بنیادی تبدیلیاں کی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب وہ خود کو مرکز میں رکھ کر سوچ رہا ہے۔ ترک خارجہ پالیسی میں مشرق کی طرف جھکاؤ نمایاں ہوچلا ہے۔ ترک وزیر اعظم طیب ایردوان نے ایک سے زائد مواقع پر ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کو اپنا بہترین دوست قرار دیا ہے۔ طیب ایردوان نے شام اور عراق کے ساتھ دوستی اور ترقیاتی کاموں میں شرکت کے معاہدے کیے ہیں اور سوڈان کے صدر عمر البشیر کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ترکی نے غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے امدادی قافلہ بھیجا اور اس پر اسرائیلی حملے کی کھل کر مذمت ہی نہیں کی بلکہ تعلقات ختم کرنے کی دھمکی بھی دی۔ دوسری طرف ترک وزیر خارجہ احمد داوتوغلو نے اسرائیل کی ناراضی کی پروا کیے بغیر حماس کے لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کی ہے۔
ترکی جو کچھ کر رہا ہے اس نے مغرب میں اچھا خاصا ردعمل پیدا کیا ہے۔ امریکا میں جو سیاست دان ترکی کو یورپی یونین کی مکمل رکنیت دیئے جانے کے حامی تھے وہ اب ترکی پر تنقید کر رہے ہیں۔ میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایوان نمائندگان کے رکن جان سربینز نے بین الاقوامی سیاست میں نمایاں ہونے کے حوالے سے ترکی کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔ دوسری جانب صدر بارک اوباما کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی مکمل رکنیت نہ مل پانے ہی کے باعث ترکی اب خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر سیاسی اور معاشی اتحاد قائم کرنے پر غور کر رہا ہے اور اس نے روس کی جانب بھی دیکھنا شروع کردیا ہے۔ سال رواں کے آغاز میں ترکی نے روس کے ساتھ گیس پائپ لائن سمیت کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
تجزیہ نگار یہ سمجھ رہے ہیں کہ ترکی اسلامی دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کوئی اتحاد قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ اندازہ غلط ہے۔ ترکی اسلامی دنیا، روس یا کسی اور کے ساتھ مل کر کوئی اتحاد قائم نہیں کرنا چاہتا بلکہ اب وہ اپنے آپ کو مرکز میں رکھ کر خارجہ پالیسی مرتب کرنا چاہتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کئی ممالک سے دفاعی معاہدہ کرے اور بیک وقت کئی سیاسی، جغرافیائی اور معاشی اتحادوں کا رکن بھی بنے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ ترکی اب اپنے وجود کو مرکز میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی ماضی میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمومی سی سوچ کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ کہا جاتا رہا ہے کہ ترکی کے بازو مضبوط ہیں، معدہ کمزور ہے، دل بیمار ہے اور ذہن سطحی نوعیت کا ہے۔ ترک وزیر خارجہ احمد داوتوغلو کہتے ہیں کہ ترکی نے ماضی میں ایسے معاہدوں میں بھی شرکت کی جن میں اس کا کردار محض نمائشی یا رسمی تھا۔ بعض فیصلے جذباتی سوچ کا نتیجہ تھے۔ اب سوچ بدل رہی ہے۔ یورپ خارجہ پالیسی کے معاملے میں اولین ترجیح تو ہوسکتا ہے، واحد ترجیح نہیں ہوسکتا۔ ترکی کو اب تک امریکا اور نیٹو کے فطری اتحادی کے روپ میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ اب یہ سوچ بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ ترکی اپنے پڑوسیوں سے معاملات میں خاصا غیر محتاط اور جارحیت پسند رہا ہے۔ اب ترک ارباب اقتدار کو اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ اپروچ غلط ہے۔ اب ترکی یورپ میں یورپی ہوگا اور مشرق میں مشرقی، کیونکہ وہ مشرقی بھی ہے اور مغربی بھی۔
ترکی جانتا ہے کہ یورپی یونین کی رکنیت اس کے لیے معیشت کے میدان میں بہت سی دشواریاں ختم کردے گی۔ یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کی ترک کوششوں کی راہ میں جرمنی اور فرانس حائل ہیں۔ یہ دونوں ممالک اس کی امیدوں پر پانی پھیرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مگر اس کے باوجود ترکی نے بھی اب تک یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کا خواب اپنی آنکھوں سے نکال کر پھینکا نہیں۔ یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے اہل ہونے کے لیے ترکی کو جس قدر بھی اصلاحات نافذ کرنی ہیں، وہ کر رہا ہے۔ وہ اب معیشت میں تمام اہم یورپی معیارات اپناچکا ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں فوجی حکومت نے جو آئین اپنایا تھا اب اس میں یورپی تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائی جارہی ہے۔ ترک قیادت جانتی ہے کہ جب تک وہ فوجی قیادت کو سویلین حکمرانی کے ماتحت نہیں کرے گی اور اظہار رائے کی آزادی کو معیار کی صورت میں نہیں اپنائے گی تب تک یورپی یونین کی رکنیت کے بارے میں پرامید ہوکر سوچنا ممکن نہ ہوگا۔ یورپی یونین کے لیے ترکی کے مرکزی مذاکرات کار اجمین بیگس کا کہنا ہے کہ جب تک ترکی کے آئین سے فوجی بغاوت کی روح نکالی نہیں جائے گی تب تک معاملات درست کرنے اور یورپی معیارات کے مطابق جمہوری کلچر کو اپنانے کی راہ ہموار نہیں ہوگی۔
ترکی میں نئے آئین کے لیے ستمبر میں ریفرنڈم ہونے والا ہے۔ اس ریفرنڈم ہی کی بنیاد پر طے ہوگا کہ ترکی کا نیا آئین کس نوعیت کا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ نئے آئین میں صرف یورپی یونین کی رکنیت کے لیے درکار اہلیت پیدا کرنے یا اس میں یورپی روح پھونکنے کا اہتمام کیا جائے گا۔ حکمراں اے کے پارٹی بھی چاہے گی کہ اس کی مرضی آئین کا حصہ بنے۔ طیب ایردوان نے عدلیہ کو بہت محنت کے بعد اقتدار کے میدان میں پیچھے دھکیلا ہے۔ ویسے طیب ایردوان اور ان کی پارٹی کی کوشش خواہ کچھ رہی ہو، یہ بات طے ہے کہ ستمبر کے ریفرنڈم سے ترک آئین یورپی مزاج سے کچھ اور ہم آہنگ ہو جائے گا۔ یہ بات اور ہے کہ یورپ کو اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا نہیں۔
ترکی یورپی یونین کی رکنیت ضرور چاہتا ہے مگر اس کی دنیا یورپ تک محدود نہیں۔ وہ معاشی مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور دیگر خطوں کی طرف بھی دیکھ رہا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ترکی کی ۵۰ فیصد سے زائد برآمدات یورپ سے ہٹ کر تھیں اور اس کی درآمدات میں یورپ کا حصہ ۴۰ فیصد رہا۔ مشرقی ترکی سے تعلق رکھنے والی مینوفیکچرنگ اور کنسٹرکشن کمپنیاں اب مشرقی وسطیٰ، وسط ایشیا اور کاکیشیا کی طرف زیادہ دیکھ رہی ہیں۔ ان خطوں سے ترکی کو ملنے والا بزنس بھی غیر معمولی ہے۔ ایک ارب ۶۰ کروڑ ڈالر کا بزنس کرنے والی ترک کمپنی سیمبول کنسٹرکشن نے استانہ (قزاقستان) میں ایک یونیورسٹی، ایک اسٹیڈیم اور ایک عالی شان اوپیرا ہاؤس تعمیر کیا ہے۔ قزاقستان میں تعمیراتی شعبے کا ۶۰ فیصد کنٹرول ترک اداروں کے پاس ہے۔ ترکی ہی کی ٹی اے وی کمپنی نے قاہرہ، دوہا اور جارجیا کے شہر باتومی میں ایئر پورٹ تعمیر کیے ہیں۔ گزشتہ برس ترکی کی فرنیچر فرم استقبال اور ملبوسات تیار کرنے والے ادارے ڈی فیکٹر کی جانب سے عراق کو برآمدات ۵ ارب ۸۰ کروڑ ڈالر رہیں۔ ۲۰۰۹ء میں ایران سے ترکی کی تجارت ۱۰ ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ ایران سے یورپ کے لیے ایک گیس پائپ لائن کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنے کی صورت میں ترکی اور ایران کے درمیان تجارت ۳۰ ارب ڈالر تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ امریکا کے جرمن مارشل فنڈ میں ترکی کے امور کے ماہر ایان لیسر کہتے ہیں کہ ترکی کو اب مشرق وسطیٰ، کاکیشیا، روس، وسط ایشیا اور دیگر خطوں سے بھی بزنس مل رہا ہے۔ ایسے میں وہ یورپ یا امریکا ہی کی ہم نوائی کیوں کرے گا۔ یہی سبب ہے کہ ترکی اب ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں کا سخت مخالف ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے بھی ترکی کوشاں رہتا ہے۔
ترکی اگر مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے تو اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ وہ دہشت گردی پر قابو پانا چاہتا ہے۔ عراق، شام اور ایران میں کرد علیٰحدگی پسندوں کے ٹھکانے ہیں جہاں سے ترک افواج کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ترکی چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ترکی بات چیت سمیت تمام آپشنز اپنا رہا ہے۔ عراق میں کردوں کے ٹھکانوں پر ترکی نے تین سال میں کئی مرتبہ حملے کیے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکا سے خفیہ معلومات کے تبادلے نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
کرد علیٰحدگی پسند پارٹی پی کے کے اب جانتی ہے کہ اس کا خاتمہ قریب ہے۔ ایسے میں آخری حربے کے طور پر وہ ترک شہروں میں دہشت گردی کا بازار گرم کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ گزشتہ ماہ استنبول میں ایک بم دھماکے میں ۶ افراد مارے گئے۔ چند ماہ کے دوران کرد باغیوں نے حملوںمیں ۶۰سے زائد ترک فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ ترکی چاہتا ہے کہ عراق کرد باغیوں کے خلاف کارروائی میں مدد دے۔ دوسری طرف وہ امریکا سے بھی خفیہ معلومات کی فراہمی جاری رکھنے کا خواستگار ہے۔ پی کے کے کی جانب سے شہروں پر حملے بڑھتے جائیں گے۔ تاہم یہ آخری مرحلہ ہے جس کے بعد یہ تنظیم ختم ہو جائے گی۔ کردوں کے خلاف کارروائی کا گراف بلند کرنے کے لیے ترکی نے شام اور عراق سے کئی کاروباری معاہدے کیے ہیں جن کا بنیادی مقصد ویزا کے بغیر سفر کی سہولت کو یقینی بنانا اور ساتھ ہی ساتھ عراق کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ترک ادارے عراق میں موبائل فون نیٹ ورک، بس اسٹیشن اور دیگر تنصیبات کے قیام میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ترکی نے خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے غیر معمولی ذہانت اور احتیاط کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ امریکا بھی اس سے کئی معاملات میں خوش ہے۔ مثلاً خطے میں امن اور استحکام کے حوالے سے ترکی کا کردار امریکا کے نزدیک خاصا پسندیدہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں کو سلامتی کونسل میں ترکی کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تب بھی امریکا نے شدید ردعمل ظاہر نہیں کیا اور جب غزہ کے لیے امدادی قافلے پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کے خلاف ترکی نے شدید ردعمل ظاہر کیا تب بھی امریکی حکومت جزبز نہیں ہوئی۔
گزشتہ مئی میں ترکی اور برازیل نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پیدا ہونے والے تناؤ کو دور کرنے کے لیے ہاتھ ملایا تو امریکا اور یورپ کو زیادہ حیرت اور افسوس نہیں ہوا۔ برازیل کے صدر لیولا ڈی سلوا اور ترک وزیر اعظم طیب ایردوان عوامی لیڈر ہیں۔ دونوں ممالک نے عشروں تک فوجی حکومت کو جھیلا ہے۔ اب وہ جمہوریت اور معاشی استحکام چاہتے ہیں۔ دونوں ہی امریکا اور یورپ سے نفرت اور محبت کے کھٹے میٹھے رشتے کے حامل ہیں۔ ترکی اور برازیل کو تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے موجودہ لیڈروں نے اپنے اپنے ملک کو مختلف شعبوں میں اصلاحات سے ہمکنار کیا ان کا مشترکہ موقف یہ ہے کہ خارجہ پالیسی یا سیاست کے شعبے میں تمام بنیادی اقدامات کا تعلق یورپ یا امریکا سے نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مشترکہ سوچ انہیں ایک دوسرے سے قریب تر کر رہی ہے۔ ترکی اور برازیل کا اتحاد اگرچہ عارضی نوعیت کا ہے تاہم اس سے دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کو متحد ہونے کی تحریک مل سکتی ہے۔
بعض امور میں اختلافات کے باوجود ترکی اب بھی امریکا کا اتحادی ہے۔ افغانستان میں ترکوں نے امریکیوں کے شانہ بشانہ خدمات انجام دی ہیں۔ اس وقت نیٹو کا نائب سربراہ حسین دریوز بھی ترک ہے۔ ترکی نے امریکا اور یورپ کو کسی بھی مرحلے پر بلا ضرورت ناراض کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ اس کی جانب سے عمدہ سفارت کاری کا نمونہ ہے۔ اگر ترکی نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سخت رویہ اپنایا ہے اور وہ اس کے خلاف پابندیوں کی مخالفت کر رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسلامی دنیا کی طرف جھک رہا ہے یا اگر اس نے روس سے تعلقات بہتر بنائے ہیں اور روسی وزیر اعظم ولادیمیر پوٹن اور ترک ہم منصب طیب ایردوان کی حالیہ ملاقات دونوں ممالک کو قریب تر لانے میں کامیاب رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کوئی نیا اتحاد قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ واقعات اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یونان جیسے پڑوسی کی معیشت زوال سے دوچار ہو تو ہو، ترکی پھل پھول رہا ہے، اس کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲؍اگست ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply