ہندوستان اور ترکی کے مصنفین میں فرق محض اتنا ہے کہ ہندوستان کے مصنفین اگر اردو، عربی اور فارسی میں لکھنے والے ہیں تو وہ تقریباً یتیم ہیں، کیوں کہ نہ ان کے لکھنے کی حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی ہے اور نہ ان کو ان کی تحریروں کا مناسب معاوضہ ملتا ہے۔ اردو صحافت کو اپنی روزی روٹی بنانا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے۔ خوشی ہے کہ ترکی زبان میں لکھنے والوں کو اس احساس سے نہیں گزرنا پڑتا، خواہ وہ کیسا بھی لکھیں حکومت کی طرف سے مصنفین کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور پبلشرز کی طرف سے مناسب مالی معاوضہ اور مقابلے کے میدان میں برابر کی حصہ داری بھی ملتی ہے۔ ترکی میں آئی ایس بی این نمبر کے ساتھ ۶۸۰۰۰ کتابیں شائع ہوئیں، اس میں ۱۴ فیصد کتابیں صرف بچوں کے لیے شائع ہوئیں، ۱۶ فیصد اکیڈمک کتابیں اور ۳۲ فیصد تعلیمی کتابیں تھیں، تعداد اشاعت کے اعتبار سے گزشتہ سال ۵۸ کروڑ کی تعداد میں کل کتابیں شائع کی گئی ہیں، یعنی ہر شہری پر سات کتابیں پرنٹ ہوئیں۔ یہ سارے اعداد و شمار ترکی کی وزارتِ اعداد و شمار نے جاری کیے ہیں۔ جی ہاں یہ سارے اعداد و شمار پابندی سے جمع کیے جاتے ہیں اور عوام کو بتائے جاتے ہیں، اس اعتبار سے ترکی دنیا میں گیارہویں نمبر پر ہے، جب کہ ہندوستان ساتویں، ایران دسویں، مصر چالیسویں، سعودی عرب ۵۴ ویں اور پاکستان ۵۵ ویں نمبر پر ہے، ابتدائی دس میں ایران کے علاوہ اور کوئی مسلم ملک نہیں ہے۔
دِلّی میں کتابیں خریدنے کا تجربہ دوسرا ہے، وہاں لینڈ مارک کے علاوہ ایسا کوئی کتاب گھر نہیں، جہاں ایک ہی چھت کے نیچے اتنے سارے موضوعات پر کتابیں موجود ہوں، لیکن ترکی میں کتابیں فروخت کرنے والی کمپنیوں میں دوست، کتاب ایوی، پنڈورا، ڈی اینڈ آر، ریمزی کتاب ایوی سمیت کئی مقامی کمپنیاں اور دکانیں ہیں، جن کے ہر شہر میں بڑے بڑے مراکز ہیں۔ مثال کے طور پر انقرہ کے رمزی کتاب ایوی میں تو قارئین کے لیے باقاعدہ ایک چائے خانہ بھی ہے۔ یورپ کا سب سے بڑا کتاب گھر BKM دو سال پہلے بورصہ شہر میں کھولا گیا ہے، جو پانچ ہزار اسکوائر میٹر پر واقع ہے اور ۵۰ لاکھ سے زائد کتابیں اور اسٹیشنری کا سامان رکھا گیا ہے۔ استنبول میں قدیم کتابیں اور تاریخی مخطوطات کی دکانوں کا ایک الگ ہی جنون ہے۔ استنبول میں دنیا بھر سے antique سامان کے شوقین آتے ہیں، یہ دکانیں بہت مہنگے داموں پر اہم تاریخی سامان فروخت کرتی ہیں۔ اسی طرح سے قدیم ایڈیشن خریدنے والوں کا ایک بڑا طبقہ ہے، جن کے لیے نادر کتابوں کی دکانیں ہیں۔ میں نے دو سال پہلے ترکی ادبیات پر ۱۹۳۳ء کا ایڈیشن موجود ایڈیشن سے تین گنا زیادہ قیمت پر خریدا۔ یاد آیا کہ ہندوستان میں میرے والد صاحب کے انتخاب میں بھی معارف، اصلاح، زندگی نو اور الفرقان کے ۱۹۵۰ء کے نسخے موجود ہیں۔ مولانا ندوی کو مولانا مودودی کے سفر شام میں ان کی تقریر کا عربی ترجمہ کرنا کتنا ناگوار گزرا تھا یہ بات مولانا ندوی کے ’’الفرقان‘‘ میں شائع شدہ سفر نامے سے معلوم ہوئی۔ نہیں معلوم کہ مولانا کے کتابی نسخے میں یہ تذکرہ موجود ہے یا نہیں۔ میں بہت دنوں سے علامہ شبلی نعمانی کے سفر ترکی سے متعلق مضامین اس زمانے کے عثمانی رسائل میں تلاش کر رہا ہوں، ابھی تک کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی ہے۔ علامہ شبلی کی بعض کتابوں کا ترجمہ عمر رضا دوگرول نے بہت پہلے ہی کردیا تھا اور بعد کے ایام میں ترکی کے ندوی عالم دین یوسف قراچا نے ان کا سفر نامہ اور امام غزالی کا ترجمہ کیا ہے۔ علامہ شبلی نے ۱۸۹۰ء میں استنبول کے علمی حالات کا مختصر تذکرہ کیا ہے اور استنبول کے کتب خانے، قہوہ خانوں میں علمی مجلے اور مدارس اور طلبہ کی کثرت سے مولانا کو بہت خوشی محسوس ہوئی، اس کو آج کل پھرسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ کتابوں کے مطالعے کا رجحان بھی مسلم ممالک میں شاید سب سے بہتر ترکی میں ہی بڑھا ہوگا، حالانکہ ذوق مطالعہ کے سلسلے میں مَیں نے جرمنوں کو ہی اب تک سب سے بہتر پایا ہے۔ مَیں نے جرمنی میں قیام کے دوران لوگوں کو ٹرینوں، بسوں، پارکوں یا عام جگہوں پر بیٹھ کر کتابیں پڑھتے دیکھا ہے، اس کا کچھ اثر ترکی پر بھی ہوا ہے، کیونکہ ترکی اور جرمنی کے تعلقات عثمانی زمانے سے ہی مضبوط رہے ہیں اور فی الحال تقریباً تیس لاکھ ترک جرمنی میں مقیم ہیں۔ عثمانی رسائل میں بھی یورپی ادب کا ترجمہ بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا تھا۔ ایک خاص کلچر جو یورپ میں بھی عام نہیں ہے، وہ ہے قرأت خانوں کا کلچر۔ ہر شہر میں ایک لائبریری اور چائے کی دکان کو ملا کر قرأت خانے قائم کے گئے ہیں۔ سبھی تنظیمیں، پارٹیاں، کلچرل گروپس اور کمرشل گروپس بھی اس طرح کے قرأت خانے کھولتی ہیں، لیکن ان کا مقصد کمرشل بالکل نہیں ہے، اس لیے چائے اور دیگر کھانے کے سامان بے حد مناسب داموں میں دستیاب ہیں۔ مَیں اب تک ایسے متعدد قرأت خانوں میں جا چکا ہوں، کوئی سیکولر حضرات کا ہے تو کوئی دین پسند افراد کا، کچھ این جی اوز سے وابستہ ہیں تو کچھ تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے۔ آپ یہاں ہر روز کوئی نہ کوئی گروپ ڈسکشن ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ میرے جانے کی پہلی وجہ ترکی زبان سیکھنے کے لیے غیر ملکی زبانیں سیکھنے والے گروپ میں شرکت تھی، جہاں میں عربی اور انگریزی سکھانے کے بدلے ترکی زبان سیکھنے جاتا تھا۔ ایک گروپ قرآن اسٹڈیز کا آتا ہے، ایک گروپ سیاسی علوم کا آتا ہے، ہر ملک کے طلبہ نے اپنی ملاقات کا وقت اور دن مقرر کر رکھے ہیں۔
موضوعات کے اعتبار سے بھی بڑا تنوّع آیا ہے، اکیلے عثمان غازی پر پانچ ناول ایک ہی شو روم میں موجود ہیں، تاریخ کا سیکشن عثمانی اور جمہوری دور میں الگ الگ بنائے جاتے ہیں اور دونوں میں ہزاروں ٹائٹلز موجود ہیں۔ سب سے بڑا سیکشن غالباً ترک ادبیات کا ہی ہوتا ہے۔ بعض ناول نگار جیسے الف شفق اور اورہن پامک تو عالمی شہرت کے حامل ہو گئے ہیں، لیکن بہت سے ایسے ہیں جو مشہور ہونے کے لیے ایک اچھے مترجم کا انتظار کر رہے ہیں۔ یعقوب قادری، رشاد نوری، خالد ہ ادیب کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ نامق کمال، علی سوائی اور جمہوری دور میں صباح الدین علی، احمد حمدی، یشار کمال، ناظم حکمت کی اہمیت ابھی بھی کم نہیں ہوئی ہے، لیکن ایردوان کی آمد کے بعد سے نیا ادب بھی بہت زیادہ آرہا ہے۔ ارھان بینر، وہبی وقاص اوغلو، نزلی ارے، فرید ادو، اور بہت سارے نئے ناول نگار مشہور ہوئے ہیں، البتہ جو بات اردو اور ترک ادبی ماحول کو الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ترکی زبان میں عالمی ادب کی تقریباً ہر اچھی کتاب فوراً ترجمہ ہوکر شائع ہو جاتی ہے اور عالمی کلاسیکی ادب تو ہر دکان میں ایک خاص شیلف میں رکھا جاتا ہے، لیکن اردو میں عالمی ادب کے ترجموں کی اس قدر مقبولیت نہیں ہے، یہاں تک کہ مدارس نے بھی جدید عربی اور فارسی ادب کے ترجمے پر توجہ نہیں دی ہے۔ یقیناً ترک حضرات غیر ملکی زبانیں سیکھنے میں دنیا میں سب سے پیچھے ہیں لیکن حال کے برسوں میں یہ رجحان تیزی سے بدلا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہندوستان میں ویسے بھی شعر و ادب ایک گھاٹے کا شوق ہے، اور اس میں بھی اردو عربی تو گھر بیچ کر تماشا دیکھنے کے مانند ہے۔ لیکن اگر مسلمان نوجوان عالمی ادب کا ہندی، بنگالی، ملیالی، تمل، تلگو اور کنڑ زبانوں میں ترجمہ کریں تو اچھی خاصی بڑی مارکیٹ ان کے پاس موجود ہے۔ ہندوستان کے فکشن نان فکشن بازار میں اگر چیتن بھگت مقبول ہو سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلم نوجوان بھی عالمی زبانوں سے ترجمے کرکے اپنے لیے جگہ نہ بنا سکیں۔ اس لیے ترکی کی فکشن مارکیٹ ایک بہترین مثال ہے، جہاں ناول نگار اور شعرا حضرات ایک مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔
اگرچہ ہندوستان پاکستان کے مذہبی حلقوں میں عموماً شیخ سعید نورسی کی تحریریں ہی زیادہ مقبول ہوئی ہیں، لیکن ان کے علاوہ بہت سارے مفکرین ہیں جن کو جنوبی ایشیا کے اسلامی حلقوں نے اپنے یہاں ابھی تک متعارف نہیں کرایا ہے، ان ناموں میں خاص طور پر محمد عاکف ایرسوے، سعید حلیم پاشا، یوسف اکچورا، شیخ بندر زادے، اور دیگر اسلامی مفکرین نے ترکی کی اسلامی تحریکات پر گہرا اثر قائم کیا ہے۔ اس لیے یہ بات زیادہ وزن نہیں رکھتی ہے کہ ترکی کا اسلامی رجحان اخوانی نہج کا ہے بلکہ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اخوانی فکر عثمانی مفکرین سے متاثر ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہوگی، کیوں کہ شیخ محمد عبدہ براہ راست جمال الدین افغانی کے شاگرد تھے اور جمال الدین افغانی نے سلطان عبد العزیز اور سلطان عبدالحمید کے دور میں پان اسلام ازم کی تحریک کی خوب حمایت کی تھی۔ بہر حال عثمانی سلطنت کے آخری دور کے اہم مفکرین کے اہم کاموں کا تعارف احمد شیخوں نے اپنی کتاب Islamist Thinkers in the late Ottoman Empire and Early Turkish Republicمیں تفصیل سے کرایا ہے۔ البتہ میرا خیال یہ ہے کہ عثمانی خلافت اور ہندوستانی مسلمانوں میں زوال کا ایک سبب مشترک ہے اور وہ یہ کہ عثمانی مفکرین بہت مخلص اور مبنی بر انصاف نظریات رکھنے کے باوجود اپنے افکار کو عربی زبان میں بر وقت منتقل کرنے میں ناکام رہے، ان کی عثمانی ترکی زبان میں فکری بحثیں ان کی فکری پختگی کی دلیل ہیں، مثال کے طور پر اسلام ازم کیا ہے، اس کی تعریف عموماً تحریکی ادب میں بھی نہیں دی جاتی بلکہ ہندوستانی اور مصری اسلامی حلقے اسلام ازم کی اصطلاح سے قدرے تحفظ رکھتے ہیں، لیکن سعید حلیم پاشا ۱۹۰۹ء کے اپنے ایک مضمون میں اسلام ازم (اسلاملاشمک) کی اصطلاح کا باقاعدہ تعارف پیش کرتے ہیں۔ غالباً سب سے زیادہ زمینی مفکر علی سوائی کو قرار دیا جا سکتا ہے جنہوں نے ۱۸۶۷ء کے علوم گزیٹ میں حاکمیت خدا کا تفصیلی تعارف پیش کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس دور کے عثمانی مفکرین کے علمی کارنامے اردو اور عربی زبان میں نہیں پہنچے ہیں، جب سے میں نے عثمانی ترکش سیکھنا شروع کیا ہے میری دلچسپی اس دور کے ادب کی طرف بہت ہوئی ہے، اگر وقت اور وسائل میسر آئے تو انشااللہ بعض عثمانی اسلامی مفکرین کا تعارف اردو یا انگریزی میں ضرور پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
(عمیر انس جواہر لعل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اور ترکی کی ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)
(بحوالہ: ہفت روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی)
Leave a Reply