ترکی میں ہونے والے تاریخی ریفرنڈم سے، چاہے کوئی اسے قبول کرے یا نہ کرے، جہاں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہیں پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا، اس دوران ترک حزب اختلاف کے بہت سے سیکولر اور قوم پرست رہنما حمایت حاصل کرنے کے لیے جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتا ترک کا نام استعمال کر رہے تھے۔
ان رہنماؤں کے مطابق اتاترک کا سیکولر اور جمہوری ریاست کا نظریہ خطرے میں ہے، اس نظریے کو اسلام پسند صدر ایردوان کے جانب سے تباہ کیا جارہاہے اور صدر ایردوان اپنے اتا ترک مخالف سیاسی ایجنڈے کو مسلط کرنے کے لیے حکمرانی کا آمرانہ طریقہ اختیار کررہے ہیں۔ تاہم اس طرح کی سوچ جھوٹی اور غلط ہے، یہ ایردوان پر حملہ کرنے کے لیے مذموم سیاسی ایجنڈے کا مصنوعی چہرہ ہے۔وہ اتاترک کے گونگے بت کو نئی منظور شدہ آئینی ترمیم کی مخالفت کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
اب ترکی میں کمال اتاترک تقریباً ایک خیالی شخصیت بن گئی ہے۔ جس نے پہلی جنگ عظیم میں شکست اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ۱۹۱۹ء میں ترک جنگ آزادی کی قیادت کی تھی۔اپنے ہم وطنوں کو جنگ میں فتح دلانے اور یورپی استعماراتی نظام سے چھٹکارا دلانے کے صلے میں ملکی پارلیمان نے انھیں’’اتاترک‘‘ کا خطاب دیا۔ جس کے معنی ’’ترکوں کا باپ‘‘ ہے۔ یہ نام دینے کا مقصد ترکی کے بانی کے طور پر ان کے کردار کو تسلیم کرنا تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اتاترک غیر معمولی قیادت اور عسکری صلاحیت کے مالک تھے مگر ان کا طرزِ حکومت کیا تھا؟ ان کے دور میں لوگ کس طرح زندگی گزارتے تھے؟ ایردوان کے اسلام پسندی کو بدنام کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کی جانب سے اتاترک کی شخصیت سازی اس طرز پر کی گئی کہ کو ئی ایسے سوال ہی نہ اٹھائے۔ اتا ترک نے ایک ایسے نظام کی سربراہی کی جہاں نہ تو شخصی آزادی تھی اور نہ ہی آزاد جمہوریت۔ جمہوریت کی حالت یہ تھی کہ انھوں نے خود ہی اپنا وزیراعظم منتخب کیا تھا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ یہ نظام بھی خلافتِ عثمانیہ کے نظام کی طرح تھا جسے انہوں نے خود ختم کیا تھا۔ وزیراعظم پارلیمنٹ کا سربراہ تھا، پارلیمنٹ میں واحد جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کا غلبہ تھا، جو آجکل ایردوان کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے خلاف سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے۔ اس طرح اتاترک نے ایک ایسا ماحول بنا دیا تھا جس میں اسلام مخالف لبرل اور مکمل طور غیر جمہوری اشرافیہ کی سیاسی نظام کے ساتھ فوج پر بھی مکمل بالا ستی قائم رہے، جہاں سے اتاترک نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ گزشتہ دنوں ووٹ کے ذریعے جس آئین میں ترمیم کی گئی ہے اسے فوجی حکومت نے ۱۹۸۲ء میں تشکیل دیا تھا۔ اس آئین کو اتاترک کے نظریے کے حامل فوجی آمر جنرل کنعان ایورن کی قیادت میں بغاوت کے نتیجے میں بنایا گیا۔ ۱۹۸۰ء میں جنرل کنعان نے عدم استحکام اور بدامنی کے دنوں میں مخلوط حکومت کو معزول کر دیا تھا۔ فوجی حکومت کی جانب سے مسلط کیے گئے آئین میں سویلین حکومت کی طرف سے ترمیم کرنا یقینی طور پر زیادہ جمہوری انتخاب تھا نہ کہ اس آئین کو ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا، گزشتہ برس کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد اس آئین کو ایسے ہی چھوڑنے میں جمہوریت اور داخلی استحکام کو شدید خطرات لاحق تھے، ایردوان نے ترکی میں ایگزیکٹو صدارتی نظام بحال کرکے اتاترک کی میراث پامال نہیں کی بلکہ حقیقت میں وہ اتاترک کے طرزِ حکومت بحال کرنے کے قریب آگئے ہیں، دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایردوان نے کبھی اتاترک کی طرح ایک آدمی اور ایک جماعتی نظام کی وکالت نہیں کی بلکہ وہ کثیر الجماعتی صدارتی نظام قائم کرنے کے راستے پر ہیں۔
ایردوان نے واضح طور پر اتاترک کے نظریہ اور سیاسی سوچ کی مخالفت کی ہے۔سابقہ’’کمالسٹ حکومت‘‘کے ادوار کے ظلم و ستم کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ کوئی برا کام نہیں ہے۔ لوگوں کا سیکولرازم کو لبرل جمہوریت کے ساتھ ملانا غلط فہمی کو ظاہر کرتا ہے۔اس بات کے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ایردوان اتاترک کے نظریہ سے اختلاف کرتے ہوئے اتاترک دور کی گورننس کو بحال کرنے کے قریب آگئے ہیں،مگر انہوں نے اس کے لیے اکثریتی ووٹ کی شرط کو کھلا رکھاہے۔ اپنے بانی اور محبوب کو آمر کہے بغیر ایردوان پر آمریت کا لیبل لگانا اتاترک کے ماننے والوں کی منافقت کو ظاہر کر تا ہے۔
آپ کو ایردوان اور آق پارٹی کے بارے میں جو بھی کہنا چاہتے ہیں کہیں، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایردوان نے تقریباً ہر انتخاب اور رائے شماری کو عوامی اکثریت سے جیتاہے۔
۲۰۰۲ء کے بعد سے ایردوان اور ان کی پارٹی نے معقول حد تک بہتر معیشت دی اور عرصہ دراز سے نظرانداز قدامت پسند ترک عوام کی اکثریت کو آزادی دی، جس میں سرکاری ملازمتوں پر موجود عورتوں کو حجاب پہننے کی اجازت دینے کے ساتھ کرد عوام کو اپنی زبان کو بات چیت اور نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق دینا شامل ہیں۔ یہ وہ تمام اقدامات ہیں جن پر ایردوان سے پہلے حکومت کرنے والی سیکولر اور لبرل جماعتوں کے دور میں پابندی تھی۔ اس لیے کرد ووٹوں کی بڑی تعداد کا کرد علیحدگی پسند جماعت کے بجائے آق پارٹی کی حمایت میں جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
جمہوریت صرف ووٹ کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا نام نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آئینی ترمیم کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں۔آئندہ سے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ایک ہی دن منعقد ہوں گے، جس کے نتیجے میں صدر کی جماعت کے پارلیمان میں بھی غلبے کی بہت زیادہ امکانات ہوں گے۔اہم بات یہ ہے کہ صدر کو پارٹی کی قیادت اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہوگی جس کا مطلب ہے کہ پارلیمان کی سادہ اکثریت کے ذریعے صدر کے مواخذے کا امکان بہت کم ہوگا اور جرم کا مرتکب صدر بھی کامیابی حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ترکی مکمل آمریت کا شکار بن جائے گا۔ آق پارٹی اور ایردوان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ وہ قدامت پسندوں کے مرکز استنبول میں رائے شماری میں ہار گئے ہیں، اسی طرح ان کو ترکی کے دو بڑ ے شہروں انقرہ اور ازمیر میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا،۔ان شہروں کو ترکی کے معیشت اور فکری پیداوار میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ایک محدود مارجن سے فتح کے بعد اگر یہ طویل مدتی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پڑے گی۔اور آئینی ترمیم کے مسئلے پر حزب اختلاف کو کچھ جگہ دینی ہو گی۔ ان سب کے باوجود ایردوان کو نئے صدارتی اختیارات استعمال کرنے کے قابل ہونے کے لیے۲۰۱۹ء کے انتخابات جیتنے ہوں گے۔ ریفرنڈم سے ایک دن پہلے آق پارٹی کے مخالف قو م پرست نے میری بات کو تسلیم کیا کہ ترکی میں حزب اختلاف اسی وقت جمہوریت پسند ہوگی جب وہ اپوزیشن میں ہو۔ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ حکومت ایردوان کی طرح ہی کریں گے۔ ریفرنڈم کے نتیجے کے حوالے سے اتاترک کے وارثوں کی حقارت کے لیے یہ بیان شاید سب سے زیادہ تلخ ہے کہ اتاترک کا دوراب گزر گیا ہے اور پیچھے رہ جانے والی سیکولر اشرافیہ،جو کافی ناراض دکھائی دیتی ہے، جمہوریت کی کمزوری پر ناراض نہیں، بلکہ ایردوان کے بہت با اختیار ہونے پرخفا ہے، کیونکہ ایردوان اتاترک کے سیاسی نظریے اور عرصہ دراز سے ترکی کے قدامت پسند اکثریت پر ہونے والے ظلم کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے جا رہا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Turkey’s secularists need to stop hiding behind Ataturk”. (“middleeasteye.net”. April 19, 2017)
Leave a Reply