ترک خارجہ پالیسی : پڑوسیوں کے ساتھ مسائل

متحرک خارجہ پالیسی اپنے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔ ترکی کے معاملے میں بھی یہی ثابت ہوا ہے۔ حال ہی میں کانفرنس کے لیے بلجیم کے دارالحکومت برسلز جاتے ہوئے ترک وزیر خارجہ احمد داؤتوغلو نے میڈیا کو بتایا کہ ایک رات گہری نیند سے اچانک بیدار ہوئے۔ انہوں نے لیبیا سے متعلق ایک ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بحران شام میں تھا۔

ترکی چاہتا ہے کہ تمام پڑوسیوں سے اس کے تعلقات اس قدر بہتر ہو جائیں کہ کوئی پیچیدگی باقی نہ رہے۔ یہ پالیسی احمد داؤتوغلو کی تیار کردہ ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ شام میں حالات دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ قتل عام بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ جنوری میں فرانس کی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے تحت ۱۹۱۵ء میں آرمینیا میں ترکوں کے ہاتھوں قتل عام کو جھٹلانا جرم قرار پائے گا۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردغان نے فرانسیسی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اس بل کو منظور کرکے قانون بنانے کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اب تک ترک حکومت نے جواب میں کسی بھی اقدام کا اعلان نہیں کیا اور اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی پر ترکوں کی کسی بات کا اثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

فرانسیسی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں قومی اسمبلی نے جو بل منظور کیا ہے اس سے ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات متاثر ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ ۲۰۰۵ء میں ترکی نے یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے حوالے سے جو بات چیت شروع کی تھی وہ تھم چکی ہے۔ اور اس کے ذمہ دار سرکوزی نہیں۔ قبرص کی صورت حال بھی ترکی کے حق میں نہیں۔ ترکی نے ۲۰۰۵ء میں لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے الزام سے شام کے صدر حافظ الاسد کو بری کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۲۰۰۸ء میں ترکی نے شام اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ کرانے کی بھرپور کوشش کی۔ اگر غزہ کے نہتے باشندوں کے خلاف اسرائیل نے فوجی کارروائی نہ کی ہوتی تو امن معاہدہ ہوچکا ہوتا۔ ۲۰۱۰ء میں جب ترکی نے اقوام متحدہ میں ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف ووٹ دیا تب سبھی کو ایسا لگا کہ ترک قیادت اب مغرب سے منہ موڑ رہی ہے۔

اب احمد داؤتوغلو کے سیکولر ناقدین یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ خطے میں ایران کے اثرات کم کرنے کے لیے سنی بلاک تشکیل دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ شام کے سنیوں اور بالخصوص اخوان المسلمون کی حمایت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ترکی نے یہ بات بھی کبھی نہیں چھپائی کہ وہ عراق کے سنیوں اور کردوں کا حامی ہے۔ عراق کے شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی ترکی پر عراق میں فرقہ واریت بھڑکانے کا الزام بھی عائد کرچکے ہیں۔ اس کے جواب میں ترک وزیر اعظم اردغان کا کہنا ہے کہ نوری المالکی سنی سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کرکے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں۔ احمد داؤتوغلو کا کہنا ہے کہ نوری المالکی کی پالیسیاں خطے میں فرقہ وارانہ بنیاد پر جنگ کا باعث بن سکتی ہیں۔ نوری المالکی کا کہنا ہے کہ ترکی میں بھی شیعہ اقلیت ہے اور اگر جنگ چھڑی تو ترکی بھی نہیں بچے گا۔ سیاسی تجزیہ کار سولی اوزل کا کہنا ہے کہ نوری المالکی کے ساتھ بیان بازی کی جو جنگ ترکی نے اب لڑی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترک قیادت نے امریکا کے بعد کے عراق کے بارے میں کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا۔

رجب طیب اردغان نے ملی جلی پالیسیاں اپنائی ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں امدادی قافلے ’’مروی مرمرا‘‘ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے ترک اسرائیل تعلقات منجمد ہیں تاہم امریکا کے لیے ترکی خطے میں سب سے بڑا اسٹریٹجک پارٹنر بن کر ابھرا ہے۔ ترکی نے امریکا کے اس راڈار سسٹم کی میزبانی بھی قبول کی ہے جس کا مقصد بظاہر اسرائیل کو ایرانی میزائلوں سے بچانا ہے۔ احمد داؤتوغلو کا کہنا ہے کہ یہ میزائل ڈیفنس سسٹم ایران یا روس کے خلاف نہیں اور ساتھ ہی وہ امریکا سے تعلقات کے ایک سنہرے دور کی بات بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عرب دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے خاتمے کی ذمہ داری صرف ترکی کے کاندھوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ شام میں فوج کے ہاتھوں قتل عام جاری ہے۔ کئی شہروں میں وحشیانہ کریک ڈاؤن کیا گیا ہے تاہم قتل عام رکوانے میں ترکی عرب دنیا کے ساتھ مل کر کچھ کرے گا، اپنے طور پر کچھ بھی کرنے سے وہ اب تک گریز ہی کرتا آیا ہے۔ امریکا میں اس سال صدارتی انتخابات ہوں گے اس لیے اوباما انتظامیہ بیرون ملک کسی بھی مہم جوئی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ نیٹو مداخلت کرے گی نہیں۔ ایسے میں کیا ہوسکتا ہے؟ کون ہے جو شام میں قتل عام رکوانے کے لیے سرگرم کردار ادا کرے گا؟ کیا ترکی سرحد پار افواج بھیجنے پر رضامند ہوگا؟ اس صورت حال میں ایران کا ردعمل کیا ہوگا؟ ان سوالوں کا احمد داؤتوغلو کے پاس کوئی جواب نہیں مگر ایک بات یقینی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ انہیں مزید کئی بے خواب راتیں ملیں گی۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۲۸ جنوری ۲۰۱۲ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*