ترک ریفرنڈم

ترکی میں کرائے جانے والے ریفرنڈم میں صدر رجب طیب ایردوان اور ان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ ۵ کروڑ ۵۰ لاکھ میں سے ۴ کروڑ ۸۰ لاکھ ووٹروں نے صدارتی نظام کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ ریفرنڈم آئین میں ۱۸؍ایسی ترامیم سے متعلق تھا جن کے منظور کرلیے جانے کی صورت ملک کو صدارتی نظام کی طرف لے جانا ممکن تھا۔ ریفرنڈم میں عوام نے جن ترامیم کو قبول اور منظور کیا ہے اُن پر عمل آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں ممکن ہوسکے گا، جو ۲۰۱۹ء میں ہونے ہیں۔ ترامیم کے حق میں ۵۱ فیصد ووٹروں نے اور ان کے خلاف ۴۸ فیصد ووٹروں نے رائے دی۔ رجب طیب ایردوان نے کامیابی تو حاصل کرلی ہے، مگر استنبول، انقرہ اور ازمیر میں اُنہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ طرز حکومت کے حوالے سے ترک ووٹر کس حد تک منقسم ہیں اور ان میں کتنا نظریاتی اور عملی اختلاف پایا جاتا ہے۔

۱۹۶۱ء سے اب تک ترکی میں ۶ بار انتخابات ہوئے ہیں اور اس مدت کے دوران ریفرنڈم کرانے کی روایت نے بھی خاصا زور پکڑا ہے۔ ترک حکمرانوں نے کئی بار عوام سے رائے لی ہے اور عوام سے فوری طور پر رائے لینے کا ایک موثر طریقہ ریفرنڈم ہی ہے۔ ۱۶؍اپریل ۲۰۱۷ء کا ریفرنڈم ترکی میں غیر معمولی سیاسی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرے گا۔ اس ریفرنڈم کا بنیادی مقصد ملک کو صدارتی نظام کی طرف لے جانا ہے، جس میں صدر کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس میں منتظمہ کو مقنّنہ پر فوقیت حاصل ہوگی اور بہت سے اہم فیصلے اب صدر کی صوابدید پر منحصر ہوں گے۔ ترکی میں آئینی طور پر وزیراعظم کا منصب اب خاصا بے اختیار ہوکر رہ گیا ہے۔ وزیراعظم کے اختیارات بہت حد تک صدر کے منصب کا حصہ بنائے جاچکے ہیں۔ صدر کو اب پارلیمنٹ کی تحلیل کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ وہ ججوں کے تقرر میں بھی کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ اب تک ججوں کا انتخاب اُن کے سینئرز کرتے آئے ہیں۔ اب صدر ججوں کے انتخاب کا بھی مجاز ہوگا۔ علاوہ ازیں صدر کو ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔ اور مخصوص حالات میں صدر بعض قوانین فوری طور پر وضع کرکے نافذ کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہوگا۔

مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترکی میں منعقد کرائے جانے والے اس ریفرنڈم کے ذریعے مقنّنہ اور عدلیہ دونوں کا کردار غیر معمولی حد تک گھٹادیا گیا ہے۔ ریفرنڈم میں منظور کی جانے والی ترمیم کے ذریعے ایردوان کو مزید دو میعادوں کے لیے صدر منتخب ہونے کا استحقاق بھی مل گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ۲۰۲۹ء تک اقتدار میں رہ سکیں گے۔

ترکی میں استنبول اور انقرہ سب سے بڑے شہر ہیں۔ ان دونوں بڑے شہروں میں فتح یاب ہوئے بغیر کوئی بڑی انتخابی فتح ترکی میں حیرت انگیز ہی قرار دی جائے گی۔ ازمیر کسی زمانے میں اپوزیشن کا گڑھ تھا مگر چند برسوں کے دوران یہ اے کے پی کی طرف جھک گیا تھا۔ اب اس شہر کے لوگوں نے ایک بار پھر اپوزیشن کا ساتھ دے کر یہ اشارہ دے دیا ہے کہ حکمراں جماعت کے لیے معاملات ایسے آسان بھی نہیں رہے۔ استنبول اور انقرہ جیسے شہروں میں بھی مخالف ووٹ اس بات کا مظہر ہے کہ رجب طیب ایردوان کو بہت سے معاملات میں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ استنبول اور انقرہ میں yes اور no تناسب وہی رہا جو پورے ملک میں مجموعی طور پر پایا گیا، تاہم ازمیر میں ۶۸ فیصد ووٹ مخالفت میں آئے، جو اس بات کا مظہر ہے کہ وہاں حکومتی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مرسن شہر میں مخالف ووٹوں کا تناسب ۶۴ فیصد رہا۔ غیر مقیم ترک باشندوں میں سے ۵۹ فیصد نے موافقت میں ووٹ دیا۔ بحیرہ روم کے خطے کے شہر اناطولیہ میں ۵۹ فیصد ووٹ مخالفت میں پڑے۔

ریفرنڈم میں صدارتی نظام کے مخالفین اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ نتائج میں گڑبڑ کی گئی ہے۔ وہ ترک الیکشن بورڈ کے فیصلے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ مگر یہ بھی ترکی میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ انتخابی نتائج پر شک کا اظہار کرنے اور انہیں قبول نہ کرنے کی روایت سی پڑگئی ہے۔ صدارتی نظام کے خلاف تحریک چلانے والوں کو خاموش کرنے کے لیے حکومت سخت تر اقدامات بھی کرسکتی ہے۔ اس وقت بھی ہنگامی حالت نافذ ہے اور مخالفین کو کنٹرول کرنے کے لیے اس میں مزید سختی لائی جاسکتی ہے۔ گزشتہ جولائی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش (فوجی بغاوت) کے بعد نافذ کی جانے والی ہنگامی حالت کو تین تین ماہ کے لیے وسعت دی جاتی رہی ہے۔ نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس ہونے والا ہے جس میں طے کیا جائے گا کہ ہنگامی حالت ختم کی جائے یا اسے مزید وسعت دی جائے۔ (واضح رہے کہ تین ماہ کی مزید وسعت دے دی گئی ہے)

ترک نظامِ حکومت میں بنیادی اور کلیدی نوعیت کی تبدیلی اور سخت گیر انداز کا مزید استحکام یورپی یونین کے لیے مزید پریشانی کا باعث ہوگا اور وہ ترکی کے معاملے میں زیادہ شکوک میں مبتلا ہوگی مگر اس حقیقت کو بھی ذہن نشین رکھنا لازم ہے کہ آج بھی ترکی یورپی یونین کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ تارکین وطن کی راہ روکنے میں غیر معمولی کردار ادا کرسکتا ہے، اور پھر روس کا کردار محدود رکھنے میں بھی ترکی سے مدد لی جاسکتی ہے۔ ترک قیادت بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ یورپی یونین کو تارکین وطن سے محفوظ رکھنے میں ترکی مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے اور کرتا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے حال ہی میں کہا تھا کہ ریفرنڈم کے بعد ہم ترک باشندوں کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک کے ویزا میں نرمی اور تارکین وطن کی روک تھام سے متعلق معاملات کا نئے سرے سے جائزہ لیں گے۔ ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد ترکی کی قیادت کا لہجہ مزید سخت ہوجائے گا اور ہوسکتا ہے کہ یورپی یونین کی رکنیت سے متعلق مذاکرات میں ترکی کی پوزیشن مزید کمزور ہو جائے اور یورپی یونین سے اس کے تعلقات میں مزید کشیدگی در آئے۔ موسم کی تبدیلی سے اب تارکین وطن کی نقل و حرکت میں تیزی آسکتی ہے۔ یہی یورپی یونین کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسے ترک قیادت سے بات کرنا ہی پڑے گی۔

حالیہ ترک ریفرنڈم کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ ترک سیاست میں دور رس اثرات کے حامل ہوں گے، تاہم خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی اور جوہری تبدیلی رونما ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ریفرنڈم کے نتائج سے قطع نظر، ترکی شمالی عراق اور شام میں اپنا کردار تبدیل کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ ایک طرف تو وہ کردوں کی توسیع پسندی کو لگام دینا چاہتا ہے اور دوسری طرف خطے میں ایران کا کردار بھی ایک خاص حد تک رکھنا چاہتا ہے۔

“Turkey’s President Wins Sweeping Powers in Cliffhanger Vote”.
(“stratfor.com”. April 16, 2017)

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*