اکیسویں صدی کس کی ہے؟

دنیا دیکھ رہی ہے کہ تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتیں ایشیا سے تعلق رکھتی ہیں مگر اس کے باوجود مغرب اب تک اس خطے کے بنیادی خواص کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور اپنے ادراک کو درست کرنے پر توجہ بھی نہیں دے رہا۔ پیٹرک اسمتھ نے اپنی نئی کتاب ’’سمبڈی ایلسز سینچری: ایسٹ اینڈ ویسٹ اِن اے پوسٹ ویسٹرن ورلڈ‘‘ میں اِسی موضوع پر بحث کی ہے۔ زیر نظر ’’انٹرویو‘‘ اس کتاب کے اقتباسات کی مدد سے مرتب کیا گیا ہے۔


٭ ایشیا کے بارے میں مغرب کے ادراک کے حوالے سے بنیادی پیچیدگی کیا ہے؟

پیٹرک اسمتھ: ہم مغرب کے لوگ مشرق کو سمجھنے کے معاملے میں خاصے ’’غیر معمولی‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ ہم مشرق کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے اب بھی انیسویں صدی کے آخر کا نقطہ نظر اپنائے ہوئے ہیں۔

٭ ایسا کیوں ہے؟

پیٹرک اسمتھ: ہماری نظر میں ایشیا ایک ایسی مشین کی مانند ہے جس کے تمام پُرزے الگ الگ ہیں۔ ہمارے خیال میں ایشیا اب تک اپنے آپ کو جدید تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں کرسکا ہے۔

٭ اس نوعیت کی سوچ سے منسلک خطرات کی بہتر نشاندہی کس تصور سے ہوتی ہے؟

پیٹرک اسمتھ: ہم بھارت اور چین کو مشترکہ خطرہ گردانتے ہیں اور اسے مشترکہ طور پر Chindia قرار دیتے ہیں۔ دو ارب سے زائد افراد کو ہم ایک ہی لڑی میں پروکر دیکھتے ہیں۔ اس صورت میں چند ایک آسانیاں بھی ہیں۔ انہیں ایک سمجھنے کی صورت میں بعض امور کو یکساں نقطہ نظر سے دیکھنا ممکن ہوتا ہے۔

٭ اس طرح کی سوچ کا بنیادی نقصان کیا ہے یا اس میں بنیادی خامی کون سی ہے؟

پیٹرک اسمتھ: جب ہم بھارت اور چین کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں تو مذہب، تاریخ، روایات اور اقدار کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

٭ ایشیا نے جدید دور کا کس طور ساتھ دیا ہے؟

پیٹرک اسمتھ: اس میں کوئی شک نہیں کہ ایشیائی معیشتوں نے دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہی ہیں۔ ایشیا کی متحرک معیشتوں میں جدید دور کی تمام نشانیاں پائی جاتی ہیں جن میں بلند و بالا عمارات، مواصلات اور مالیات کا عمدہ نظام، جدید تعلیمی سہولتیں اور بہتر نظم و نسق کا اصول و فن شامل ہیں۔ جدید پارلیمانی نظام اپنایا گیا ہے۔ بہتر قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ عدلیہ کو موثر اور کرپشن سے پاک بنانے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔

٭ اب تک کس ایشیائی ملک نے ہر اعتبار سے جامع ترقی کی ہے اور مغربی معیار کو اپنانے کی کامیاب کوشش کی ہے؟

پیٹرک اسمتھ: جاپان نے یہ عمل مکمل کرلیا ہے۔ دوسرے بہت سے ممالک اس دوڑ میں شریک ہیں۔

٭ جدیدیت کے معاملے میں ایشیا کہاں کھڑا ہے؟

پیٹرک اسمتھ: ایک زمانہ تھا جب جدید کا تصور صرف مغرب سے وابستہ تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ ایشیا کے لیے اب جدیدیت سے بیگانگی ختم ہوچکی ہے۔ ایشیائی ذہن نے بھی جدیدیت کو اپنالیا ہے اور اب جدیدیت کا تصور صرف مغرب سے وابستہ نہیں رہا۔

٭ مغرب کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟

پیٹرک اسمتھ: یہ کہ اب جدیدیت کا تصور صرف مغرب سے وابستہ نہیں رہا۔ دیگر اقوام بھی جدید تصورات پیش کر رہے ہیں۔

٭ اکیسویں صدی کس کے نام ہوگی؟

پیٹرک اسمتھ: فی الحال ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایشیائی صدی کے آغاز پر کھڑے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ بیسویں صدی مجموعی طور پر امریکی تھی۔ اکیسویں صدی کسی اور کی ہوگی، مگر کس کی ہوگی یہ پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔

٭ کس چیز نے طاقت کا توازن تبدیل کیا ہے؟

پیٹرک اسمتھ: جو کچھ کسی زمانے میں ایشیائی ممالک کے لیے نقصان کا باعث سمجھا جاتا تھا وہ اب ان کے لیے توانائی اور بھرپور منفعت کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یورپ کے لیے جو باتیں طاقت کا ذریعہ تھیں وہ اب چیلنج میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

٭ چین کا معاملہ کیا ہے؟

پیٹرک اسمتھ: خود چینی بھی اس سوال سے محظوظ ہوتے ہیں کہ آج کل چینی ہونے کے مفہوم کو چینی ہونے کے مفہوم میں خلط ملط کردیا جاتا ہے۔

☼☼☼

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*