اخوان المسلمون کا امت کے نام اہم پیغام

حمدہ و صلاۃ کے بعد

الاخوان المسلمون دنیا بھر کی آزاد اقوام کو شہید صدر محمد مرسی کی مظلومانہ شہادت پر آواز بلند کرنے پر مبارکباد پیش کرتی ہے۔ یہ حقیقت تاریخ میں لکھی جائے گی کہ پوری دنیا کے حریت پسند اس بات پر گواہ تھے کہ مصر کی تاریخ کے پہلے منتخب صدر کو کیسے ایک غاصب فوجی قیادت نے انتہائی مشکوک اور پراسرار حالات میں شہید کیا۔

عسکری انقلاب کے چھ سال مکمل ہونے سے چند دن قبل صدر محمد مرسی کی شہادت نے مجرم عسکری انقلاب اور حریت پسند عوام کے مابین معرکے کو ایک نئی صورت اور ایک نیا رُخ دے دیا ہے، جس بِنا پر یہ بات ضروری ہے کہ مصر میں عوامی سطح کے انقلاب میں پائی جانے والی فکری اور تحریکی سوچ کو ایک نئی جہت پر استوار کیا جائے۔ لہٰذا اخوان المسلمون کا مرکزی دفتر چند اہم امور پر اپنا موقف واضح کرنا ضروری سمجھتا ہے۔

اول، شہید صدر مرسی کی شہادت

جماعت الاخوان المسلمون یہ سمجھتی ہے کہ شہید محمد مرسی مصر میں جمہوری طور پر پہلے منتخب صدر کی حیثیت سے، مصری جمہوریت کے تجربے کی علامت تھے۔ طبی غفلت برتنے پر ہم مجرم فوجی قیادت کو ان کے قصداً قتل کاذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ہم ان کے حقوق کی جنگ خواہ وہ سیاسی ہو، قانونی ہو یا انسانی، تمام ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے تک بدرجہ اتم جاری رکھیں گے۔ ہم ہر اس کوشش کا ساتھ دیں گے، جو عالمی سطح پر ان کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں ہو اور اس سلسلے میں ہم اپنی بھرپور جدوجہد جاری رکھیں گے۔

دوم، مصر میں موجودہ حکومت کے بارے میں ہمارا موقف

جماعت الاخوان المسلمون سمجھتی ہے کہ مصر میں ۳ جولائی ۲۰۱۳ء سے اب تک جو کچھ ہوا وہ ایک فوجی انقلاب کے ذریعے ایک خونخوار فوجی حکومت کا قیام تھا، جسے نہ ہم تسلیم کرتے ہیں اور نہ اس کے ساتھ کسی طرح کے کوئی سیاسی معاملات طے کر سکتے ہیں۔ ملک جس بحران سے گزر رہا ہے، ہمارے نزدیک اس سے نکلنے کا واحد حل فوجی حکومت کا خاتمہ ہے اور یہ ہدف درج ذیل اقدامات کے ذریعے حاصل کرنا ممکن ہے:

عوامی فیصلے کی بحالی۔ جنوری ۲۰۱۱ء سے اب تک کے شہدا کا مبنی بر انصاف قصاص، فوج بیرکوں میں واپس جائے، سیاست میں فوج کی شرکت پر کلیتاً پابندی عائد کی جائے۔ معیشت کو ان کے چنگل سے آزاد کرکے قومی معیشت کا تصور بحال کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ اور عدلیہ کی غیر جانبداری کو بحال کرکے اسے مجرموں سے پاک کیا جائے۔ عوام تک مصدقہ معلومات شفاف انداز سے پہنچائی جائیں۔ لوٹی ہوئی دولت واپس کی جائے۔ غصب شدہ املاک و اراضی اور کمپنیاں واپس کی جائیں۔ سلامتی کے ادارے کو اپنے قومی فرائض ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔

سوم، فوجی حکومت کے خلاف جدوجہد کا لائحہ عمل

تاریخ گواہ ہے اور قوموں اور ملکوں کے تجربات شاہد ہیں کہ تبدیلی تین طریقوں سے آیا کرتی ہے۔ دستوری جدوجہد، عوامی انقلاب یا مسلح انقلاب۔ الاخوان المسلمون یہ سمجھتی ہے کہ مصر میں فوجی حکومت، مصری معاشرے کی ہیئت، سیاسی اشرافیہ اور عوامی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور عوامی تحریک اور اس کے نتیجے میں قیادت کی مکمل تبدیلی ہی مناسب ترین لائحہ عمل ہے، جس کے تحت عسکری قوتوں کے خلاف پُرامن عوامی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے آمرانہ نظام کو خیرباد کہا جائے۔ یعنی یہ وہی طریقہ کار ہے، جسے دنیا کے بیشتر حصوں میں عالمی قراردادوں کی تائید حاصل رہی ہے۔ مصر کے حالات کے تناظر میں الاخوان المسلمون نے اسی موزوں ترین راستے کا انتخاب کیا ہے، چاہے اس کے نتائج مرتب ہونے میں ایک صبر آزما طویل وقت ہی کیوں نہ درکار ہو۔

ان نکات کی روشنی میں الاخوان المسلمون کا مکتب العام یہ سمجھتا ہے کہ عوامی انقلابی جدوجہد کی راہ ہموار کرنے کے لیے اس وقت ترجیحی بنیادوں پر درج ذیل دو بنیادی اہداف پر توجہ مرکوز کرنا ناگزیر ہے:

ایک تو یہ کہ فوری طور پر جیلوں سے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی یقینی بنائی جائے۔ وسیع پیمانے پر گرفتاریاں وہ ہتھکنڈا ہے، جسے فوجی آمریت نے بھرپور طور پر استعمال کرکے عوام کے جذبہ حریت کو پست کرنے کے لیے صَرف کیا۔ عسکری قیادت ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی معتبر سیاسی اور قومی شخصیات کو یرغمال بنا کر جیلوں کی نذر کرتی رہی ہے جہاں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، پراسرار طور پر غائب کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح قتلِ عمد، طبی غفلت، طویل المیعاد جبری قید، سزائے موت اور ایسے دیگر حربوں سے قوم کو کسی انقلابی تحریک سے دور رکھنے کی ہر ممکن سعی کی جارہی ہے۔ فوجی آمریت نے انقلاب کے راہیوں کو پابند سلاسل کرنے کا جو وتیرہ بنا رکھا ہے، لازم ہے کہ اس کو روکنے کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جائیں۔

اصل ہدف کی جانب توانائیاں صَرف کی جائیں جوکہ تمام قیدیوں کی رہائی ہے نہ کہ جیل میں ان کی حالت بہتر بنانے کا مطالبہ۔ اس کے لیے قیدیوں کا معاملہ دنیا بھر کی پارلیمان اور بین الاقوامی سطح کے فورمز پر اٹھایا جائے۔ فوجی انقلاب کا محاسبہ انسانی حقوق کے تحفظ کے اداروں کی جانب سے کیا جائے اور حقیقت یہی ہے کہ قیدیوں کی رہائی کسی بھی انقلابی عمل کی بقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اور معاشرے میں پھیلے خوف و ہراس کا خاتمہ کرنے کا ایک اہم نفسیاتی موجب بھی ہے۔

دوسرا یہ کہ جمہوریت پسند طبقہ خواہ ان کا تعلق کسی بھی نظریے یا مکتب فکر سے ہو، اختلافات کو بھلا کر یک جان ہو جائیں۔ یہ بات ہم ایک عمومی نصیحت کے طور پر فوجی آمریت کے خلاف سینہ سپر تمام طبقوں سے کہتے ہیں۔ خصوصاً الاخوان المسلمون کے ہمارے وہ بھائی جو ہم سے اختلاف کا اظہار کرکے الگ جاکھڑے ہوئے ہیں۔ اب اختلافات سے آگے بڑھنے کاوقت ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ کی حکمت عملی مشترکات کی بنیاد پر ہو تاکہ وہ مستقبل کے حقیقی اور فعال انقلابی اتحاد کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

الاخوان المسلمون کا مکتب العام یہ یقین دہانی کرواتا ہے کہ اس تجویز سے قبل ہم نے اپنا مکمل جائزہ لیا ہے۔ یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ گزشتہ انقلاب اور حکومت میں کس کس مرحلے پر کیا کیا لغزشیں سرزد ہوئیں۔ مزید یہ کہ ہم نے اس پر بھی نظرثانی کی ہے کہ اپنے حلیفوں اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ معاملات کرنے میں کہاں کہاں کوتاہیاں سرزد ہوئیں، کہ جس کے نتیجے میں زمامِ کار مخالف گروہ کے ہاتھ میں جاپہنچا۔ لہٰذا ہم اب اعلان کرتے ہیں کہ الاخوان المسلمون کے لیے مصری عوام کے حقوق کی حفاظت، اہم قومی امور پر مبنی سیاسی جدوجہد، قومی اقدار کے دفاع اور امت کے اہم مسائل پر مبنی سیاست کسی بھی تنگ نظر حزبی سیاست اور حصول اقتدار کی لڑائی سے کہیں زیادہ اہم اور وسیع میدان ہے۔

فوجی حکومت کے اختتام کے بعد ہم قومی سطح پر اسلامی تشخص رکھنے والی قومی لہر کی حیثیت سے کام کریں گے، جو امت کے حقوق کی پشتِ بانی کرتے ہوئے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھے گی اور ہم ان تمام قومی جماعتوں کی پشتِ بانی کریں گے، جو ہمارے وژن سے متفق ہوں گی۔ ہم اخوان کے ارکان، پروفیشنلز اور علما کرام کو اپنی سیاسی جدوجہد کے لیے ملک کی ان تمام جماعتوں اور تحریکوں میں شمولیت و شرکت کی اجازت دیں گے، جو تعمیر امت کے لیے ہمارے تصورات سے ہم آہنگ ہوں گی۔ الاخوان المسلمون کا مکتب العام یہ یقین دہانی کرواتا ہے کہ وہ آنے والے وقت میں فوجی آمریت کے خلاف کھڑی ہونے والی ہر قوت کے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ ایک ایسے ’’مشترک فکر‘‘ لائحہ عمل کی بنیاد رکھی جاسکے جو اپنی قومی و اخلاقی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے عوامی تحریک کے اہداف و مقاصد کی یکجائی پر منتج ہو سکے، اور جو نئے سرے سے ملک میں ایک فعال انقلابی مزاحمت کا سرخیل ثابت ہو۔۔۔

(ترجمہ: عبداللہ)

(المکتب العام للاخوان المسلمون القاہرۃ۔ ۲۹ جون ۲۰۱۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*