ہم نہیں جانتے کہ روزگار کی منڈی ۲۰۵۰ء تک کیا صورت اختیار کرے۔ اس بات پر عمومی اتفاق رائے ہے کہ دہی جمانے سے یوگا سکھانے تک، مشینیں اورروبوٹکس (خدمات) تقریباً ہر کام کی نوعیت اور زاویہ بدل دیں گی۔ تاہم اس تبدیلی کی نوعیت اور وسعت پرمختلف تصورات باہم متصادم ہیں۔ کچھ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ایک یا دودہائیوں میں اربوں انسان معاشی طورپربے کار ہوجائیں گے۔ جبکہ دیگر سمجھتے ہیں کہ آٹومیشن روزگار کے نئے ذرائع پیدا کرتارہے گا، اور سب کی ترقی کا کچھ نہ کچھ بندوبست کرلیا جائے گا۔
کیا ہم واقعی ایک خوفناک تبدیلی کے قریب پہنچ چکے ہیں، یا پھر محض بے بنیاد ہوائی باتوں کی زد میں ہیں! کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ آٹومیشن کے سبب، بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے خدشات انیسویں صدی میں بھی تھے، مگروہ کبھی حقیقت میں نہ ڈھل سکے۔ جب سے صنعتی عہد شروع ہوا، ہر وہ روزگار جو مشین نے چھینا، اس کی جگہ نیا روزگارپیدا کردیا گیا۔ معیار زندگی ڈرامائی رفتار سے بہترہوا۔ مگر اس بار صورتحال برعکس ہے، اور ایسا سمجھنے کی کافی معقول وجوہات ہیں۔ اس بار مشین درحقیقت گیم چینجربننے جارہی ہے۔
انسانوں میں دوطرح کی قابلیتیں ہیں۔ ایک جسمانی اور دوسری عقلی و ادراکی۔ ماضی میں مشینیں انسانوں سے جسمانی مہارتوں میں مقابلہ کرتی رہی ہیں، مگر انسان کی ذہانت اورمنصوبہ بندی نے اُسے ہمیشہ بہت آگے خاص مقام پر رکھا ہے۔ جب زرعی وصنعتی روزگارمشینوں نے چھین لیے، توانسانوں نے وہ سارے کام سنبھال لیے، جن میں دماغی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ مگر اب (Artificial Intelligence) مصنوعی ذہانت کا نیا نظام انسانوں کواُن سب کاموں سے نکال باہر کرے گا جن میں دماغ استعمال ہوتا ہے۔ جسمانی و دماغی، ہم ان دو انسانی صلاحیتوں کے سوا کسی تیسری انسانی خاصیت سے واقف نہیں، جو اُسے انفوبائیوٹیک انقلاب سے محفوظ و مامون بناسکے۔ (خالص مادی نکتہ نظر ہے۔ پروفیسر ہراری اور نظریہ ارتقا پر ایمان رکھنے والے حضرات روح کے قائل نہیں۔ مگرانسانوں کی بہت بڑی اکثریت، جو بڑے مذاہب سے تعلق رکھتی ہے، نہ صرف روح سے تعلق رکھتی ہے بلکہ اسے انسانی عزوشرف سمجھتی ہے، اوردیگر مخلوقات سے انسان کو ممتاز بنانے والی یہی وہ صفت ہے، جس کے بغیرانسان واقعی درندہ صفت نظر آتا ہے۔)
یہ سمجھنا انتہائی اہم ہوگا کہ مصنوعی ذہانت کا انقلاب صرف کمپیوٹر کی کارکردگی یا تیز رفتاری سے متعلق نہیں ہے۔ یہ علوم حیاتیات اور علوم سماجیات میں فیصلہ کن تبدیلیاں لانے کی توانائی سے بھرپور ہوگا۔ جیسا کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بائیوکیمسٹری کا مکینزم انسانی جذبات، خواہشات اور پسند نا پسند کو کس طرح تقویت دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح کمپیوٹر بھی انسانی رویوں کا تجزیہ، انسانی فیصلوں کی پیش بینی اورانسانی ڈرائیوروں، بینکر اورقانون دانوں کی جگہ سنبھال سکتے ہیں۔ (یہاں دو باتیں دلچسپ ہیں، ایک یہ کہ انسان کی آزاد خیالی کا مغربی تصور مادی نکتہ نظر سے ہی غلط ثابت کیا جارہا ہے، دوسرا یہ کہ آزاد ارادے کا یہ اختیار اربوں نیورونز کو دیا جارہا ہے اوران کے اس اختیار پر قابو پانے کے لیے کیمیائی ہتھکنڈوں کے استعمال کوبائیو کیمسٹری کی اکادمی اصطلاح میں قابل قبول بناکر پیش کیا جارہا ہے، یعنی پہلے انسان پرظلم کے جو خارجی طریقے تھے، وہ اب ادویات اورطبی تشدد کی صورت اختیار کرلیں گے، حقیقت تو یہ ہے کہ عرصہ دراز سے ایسا ہی ہورہا ہے، LSD کا استعمال واضح مثال ہے۔)
آخری چند دہائیوں میں نیورو سائنس اور معاشی رویوں کے علوم میں تحقیق سے یہ سامنے آیا ہے، کہ سائنس دان بہت حد تک انسانی فیصلوں کو جاننے کے قابل ہوچکے ہیں۔ یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ خوراک سے لے کرباہمی تعلقات تک ہماری ہر خواہش کا تعلق کسی ’پراسرار آزاد ارادے‘ سے نہیں ہے، بلکہ یہ اربوں نیورونز کا وہ حساب وشمار ہے، جو امکانات مدنظر رکھ کرلمحے بھر میں فیصلہ کرتا ہے۔ (پروفیسر صاحب کی دانشوری میں نیورونز کی شماریات کس قدر ’بصیرت افروز‘ شیخی کا ثبوت دے رہی ہے؟ اس کا ادراک انہیں واقعی نہیں ہے،مگر وہ انسانی دماغ کی خودکاری ثابت کرنے پرجس جذبے اور لگن سے زور دیتے ہیں، وہ از خود ’خود کارمشینی‘ دماغ کی نفی کررہی ہے۔ ہماری اس رائے میں ہمارے نیورونز کی کوئی من مانی ہرگز نہیں ہے، یہ ہمارا یقین ہے، اگر ہمارا یہ یقین نیورونز کی شرارت ہے، تب بھی ہم یقین سے کیسے دستبردار ہوسکتے ہیں؟ اور مزے کی بات یہ کہ بصیرت کی شیخی بھی شیخی نہیں اگر وہ واقعی نیورونز کی شرارت ہے۔)
’انسانی بصیرت و وجدان‘ کی شیخی دراصل ’صورت یا نمونے کی شناخت‘ ہے۔ ماہر ڈرائیور، بینکار اور قانون دان کسی جادوئی سمجھ کے سبب ٹریفک، سرمایہ کاری اوربحث ودلائل ممکن نہیں بناتے، بلکہ متواتر پیش آنے والی صورتوں (عادتوں) کی شناخت کے ذریعہ لاپروا راہگیروں، ناتجربہ کار قرض خواہوں اور بددیانت عیار آدمی سے بچتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ انسانی دماغ کے بائیوکیمیکل ایلگوریتھم بے عیب نہیں ہیں (یہ عیب جاننے کا دعویٰ محل نظر ہے، کیونکہ اس طرح پروفیسر صاحب کا دماغ بھی بے عیب نہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ ماہر ڈرائیور، سرمایہ کار اورقانون دان بھی احمقانہ غلطیاں کرجاتے ہیں۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ مصنوعی ذہانت انسانی دماغ کوبھی پچھاڑسکتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کوانسانی روح سے مسابقت کی کوئی ضروت ہوگی؟ تو یہ ناممکن لگتا ہے! اور اگر AI کو واقعی انسانی نیورون سسٹم سے مقابلہ کرنا پڑگیا، تو اس کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہ ہوگی۔ (پروفیسر ہراری AI ورلڈ آرڈر کی خبر دے رہے ہیں۔)
بالخصوص، یہ AIانسانوں کے بہت سارے ایسے کام سنبھال لیں گے، جن میں جھوٹ فریب کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ یہ AI انسانی کیفیات اور رویوں کا بہتر تجزیہ کرسکیں گے۔ یہ بہترین ڈرائیور، بہترین سرمایہ کار اور بہترین قانون دان بن سکیں گے۔ کون سا بچہ کب اچانک سڑک پر آسکتا ہے؟ اور کیا یہ سوٹڈ بوٹڈ شخص میرا پیسہ لے کر بھاگ تو نہیں جائے گا؟ اور کیا یہ وکیل محض دھمکیاں دے رہا ہے یا واقعی کچھ کرگزرے گا؟ اگر یہ جذبات اور رویے محض بائیو کیمسٹری ایلگوریتھم کا نتیجہ ہیں، توپھرانہیں سمجھنے میں کمپیوٹر کیوں انسانوں سے پیچھے رہ سکتے ہیں؟ یہ AI چہروں کے تاثرات تک پڑھ سکیں گے، آواز کا اتار چڑھاؤ محسوس کرسکیں گے، ہاتھ پیروں کی حرکات سے اندازہ لگاسکیں گے کہ سامنے والاکیسا ہے؟
مستقبل کی نوکریوں کو صرف انفوٹیک سے ہی خطرہ نہیں ہے، بلکہ بائیو ٹیک بھی بہت بڑی تبدیلیاں لارہا ہے، دماغ کے سائنسدان ایسی چیزوں پر کام کررہے ہیں، جو ۲۰۵۰ء تک ماہرین نفسیات اور محافظوں کی جگہ AI کی تقرری ممکن بنادیں گی۔ AI میں صرف انسانی خوبیاں ہی نہیں بلکہ غیر انسانی صلاحیتیں بھی حیرت انگیز ہیں: ان میں سے ایک بہترین رابطہ اور دوسری اپ ڈیٹنگ کی اہلیت ہے۔ کروڑوں انسانوں کی جگہ سنبھالنے کے لیے کروڑوں روبوٹس یا کمپیوٹروں کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک جدید نیٹ ورک کے ذریعہ بہت کچھ سنبھال سکیں گے۔ مثال کے طور پر ڈرائیور عموماً ٹریفک قوانین سے بہت زیادہ واقف نہیں ہوتے، حادثات کے خدشات ہمیشہ رہتے ہیں، جبکہ باہم ربط وضبط کا نظام AI خودکار گاڑیوں کوحادثات سے بہت زیادہ محفوظ رکھ سکے گا۔اسی طرح جب عالمی ادارہ صحت کو کسی نئی بیماری یا دوا کا علم ہوگا، توتمام ڈاکٹروں کواس بارے میں اپ ڈیٹ رکھنا ناممکن ہوگا، جبکہ اس کے برعکس اگر دنیا بھرمیں دس ارب AI ڈاکٹر بھی ہوں توفوراً سب ہی اس بیماری اور دوا سے واقف ہوجائیں گے۔ اس سے انسانی معاشرے کو صحت عامہ میں بے حد فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، انتہائی سستا علاج آسان ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں مصنوعی ذہانت کی خدمات انسانوں کے لیے بہت مفید ہوسکتی ہیں، کیونکہ یہ بہت فعال اور غلطیوں سے پاک ہوگی۔
انسانوں کا روزگار بچانے کے لیے ٹرانسپورٹ اور صحت عامہ کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کا راستہ روکنا پاگل پن ہوگا۔ کیونکہ ہمیں انسانوں کومحفوظ بنانا ہے، روزگار کو نہیں۔ فارغ ڈاکٹر اور ڈرائیور کوئی اور کام بھی ڈھونڈسکتے ہیں۔
مشینی موزارت
فوری طور پر مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس تمام صنعتوں کویکسر ختم نہیں کررہے۔ روزمرہ کی وہ سرگرمیاں، جن میں اسپیشلائزیشن درکار ہوتی ہے، فی الحال وہی آٹومیشن پر جائیں گی۔ تاہم وہاں انسانوں سے مشینوں میں تبدیلی کافی دشوار ہوگی، جہاں کام کی ایسی مختلف نوعیتیں پیش آئیں گی، جن کا تعلق غیر معین صورتحال اورفیصلہ سازی سے ہوگا۔ مثال کے طور پرشعبہ صحت کو لیجیے، زیادہ تر ڈاکٹر معمول کی معلومات پرذمے داریاں اداکرتے ہیں، میڈیکل ڈیٹا جمع کرتے ہیں، اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور علاج تجویز کرتے ہیں۔ جبکہ نرسوں کا کام حساس ہوتا ہے، انہیں احتیاط سے تکلیف دہ انجکشن لگانے ہوتے ہیں، مریض کی نفسیاتی واخلاقی مدد بھی کرنی ہوتی ہے اورغصیلے مریض پر قابو بھی پانا ہوتا ہے۔ لہٰذا، اس بات کا امکان زیاہ ہے کہ اسمارٹ فون پر خاندانی AI ڈاکٹر کا استعمال روبوٹک نرسوں سے دہائیوں پہلے شروع ہوجائے۔ انسانوں کی دیکھ بھال کا کام غالباً طویل عرصہ انسانوں ہی کے ذمے رہے گا۔ غالباً یہ انسانوں کی مزدور منڈی میں سب سے زیادہ فروغ پانے والا شعبہ قرار پائے۔
اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی سرگرمیوں والے کام بھی فوری طورپر آٹومیشن پر نہ لائے جاسکیں گے۔ ہمیں انسانوں سے موسیقی خریدنے کی ضرورت نہیں رہی، وہ ہم آسانی سے ڈاؤن لوڈ کرلیتے ہیں، مگرموسیقار، گلوکار اور فنکار اب بھی گوشت پوست کے انسان ہی ہیں۔ ہمیں ان کی تخلیقی صلاحیتیں درکار ہوں گی۔
اس سب کے باوجود، کوئی بھی روزگار مکمل طور پر آٹومیشن سے محفوظ نہیں رہے گا۔یہاں تک کہ فنکار بھی نوٹس پر چلے جائیں گے۔ عموما سمجھا جاتا ہے کہ موسیقی انسانی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے، مگر اس صورت میں کیا ہوگا جب خارجی ایلگوریتھم انسانی جذبات سمجھنے لگیں گے، اورانہیں شیکسپئیراور فریڈا کاہلو سے بہترانداز میں پیش کریں گے؟
بہرحال، جذبات اب کوئی پراسرار شے نہیں رہے، یہ محض بائیو کیمیکل عمل ہے۔بہت جلد مشینی ایلگوریتھم سینسر کے ذریعہ ہمارے جسم کے بائیومیٹرک تجزیے کریں گے، پسند ناپسنداور موڈ کا پتا لگائیں گے اوراس کے مطابق مطلوبہ موسیقی سنوادیں گے، پسند کاگیت اورُ سر تک الگ نکال کر مہیاکردیں گے۔
نئی نوکریاں؟
شعبہ صحت اور تفریح میں روزگار کی کمی کوجزوی طور پر نئی نوکریوں سے حل کیا جائے گا۔ جنرل میڈیکل پریکٹیشنرز، جوعموماً مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، وہ شاید مصنوعی ذہانت کی جگہ سنبھال سکیں۔ انسانی ڈاکٹر، لیب اسسٹنٹ وغیرہ تحقیق اور نئی دواؤں کی تیاری سے کافی آمدنی پیدا کرسکیں گے۔ مصنوعی ذہانت شاید ایک اور طریقہ پرانسانی نوکریوں کا انتظام کرسکے، وہ یہ کہ انسان مصنوعی ذہانت سے مسابقت کے بجائے ان کی خدمات پرمامورہوجائیں، ان کے معاون بن جائیں۔ مثال کے طورپر، ڈرون کی ایجاد نے انسانی پائلٹس کی نوکریاں ختم کیں، مگر ساتھ ہی مینٹیننس، ریموٹ کنٹرول، ڈیٹا کا تجزیہ، اورسائبر سکیورٹی جیسے شعبوں میں نئی اسامیاں پیدا کردیں۔ امریکی فوج میں ایک ڈرون کنٹرول کرنے کے لیے ’۳۰‘ آپریٹر کام کرتے ہیں اور جائزہ و نتائج کے لیے ’۸۰‘ افراد مامور ہیں۔ اگر صورتحال اسی طرح رہی، تو ۲۰۵۰ء تک جاب مارکیٹ میں انسانوں اور مصنوعی ذہانت کے درمیان مقابلہ کی فضا شاید پیدا نہ ہو، بلکہ تعاون واشتراک ہو۔ پولیس اور بینکاری کے شعبوں میں تعاون صرف انسانوں اور صرف کمپیوٹردونوں کو مات دے سکتا ہے۔ تاہم ان سب نوکریوں کے ساتھ ایک مسئلہ درپیش رہے گا، وہ ہے انتہائی مہارت کا۔ روزگار کا حصول شاید پھر بھی اتنامشکل نہ ہو، جتنادشوار انسانوں کوازسرنو تربیت دینا ہوگا۔ ماضی میں بھی آٹومیشن کی کئی لہریں آئیں، مگرایک پیشے سے دوسرے پیشے میں منتقل ہونا چنداں دشوا رنہ تھا۔ مگر۲۰۵۰ء میں ایک کیشیئر یا ٹیکسٹائل ورکر۔۔۔ کینسر ریسرچر، ڈرون آپریٹر، یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس بینکنگ ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے گا، اس کے لیے غیر معمولی مہارت درکار ہوگی۔
اس طرح، انسانوں کے لیے بہت سی نئی نوکریوں کے باوجود عمومی صورتحال خوفناک ہوگی، شاید ایک بہت بڑا ’بے کار‘ طبقہ وجود میں آجائے۔ غیر تربیت یافتہ ملازمین اور بے روزگاری دونوں مل کرشاید بڑا بحران پیدا کردیں۔ کوئی بھی انسانی روزگار آٹومیشن سے ہمیشہ کے لیے محفوظ نہیں رہے گا۔۔۔ ۲۰۵۰ء تک نہ صرف ’تاحیات روزگار‘، بلکہ ’تاحیات پیشہ‘ کا تصور بھی بالکل دقیانوسی ہوچکا ہوگا۔ ایسی صورتحال میں انسانوں پر ذہنی تناؤ بڑھے گا، بے روزگاری اوربے کاری کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون کی ادویات کے استعمال میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ یقینا ابھی، یعنی بہ وقت تحریر، یہ باتیں قیاس آرائیاں ہیں۔ آٹومیشن نے صنعتوں میں ہلچل ضرور پیدا کی ہے، مگر روزگار کا بحران پیدا نہیں ہوا۔ ابھی یہ کہنا انتہائی دشوار ہے کہ مشینیں کب تک انسانوں کی جگہ لے لیں گی۔ اس کا بہت کچھ انحصار سیاسی فیصلوں اور ثقافتی تبدیلیوں سے ہی سامنے آئے گا، خاص طور پر ٹیکنالوجی کی پیشرفت اس حوالے سے فیصلہ کن ہوگی۔ تاہم ہم خواب خرگوش کے مزے نہیں لے سکتے۔ یہ باور کرنا خطرناک ہوگا کہ روزگار کی کمی نئی نوکریوں سے پوری کرلی جائے گی۔ سیاسی اور سماجی انتشار اس قدر زیادہ ہے کہ سنجیدگی اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اکیسویں صدی میں انفو ٹیک اور بائیو ٹیک سے پیدا ہونے والا چیلنج ماضی کے کسی بھی صنعتی چیلنج سے زیادہ بڑا اور ہولناک ہے۔ اب ہم مزید جنگوں اور خونیں انقلابات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس بار ناکامی نیوکلیائی جنگ کی صورت میں سامنے آئے گی، جینیاتی انجینئرنگ سے نہ جانے کیسے کیسے عفریت سامنے آئیں گے۔ کرہ ارض پر زندگی مکمل طورپر خطرے میں پڑجائے گی۔
استحصال سے لاتعلقی تک
روزگار کے بحران سے بچنے کے تین راستے نظر آتے ہیں۔ نوکریوں کے زیاں سے بچنا قابل عمل اور دانشمندی نہیں، کیونکہ روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کے فوائد سے ہاتھ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ حکومتیں شاید یہ کوشش کریں کہ آٹومیشن کے نفاذ کی رفتار سست رکھی جاسکے، تاکہ اچانک صدمات اور بھونچال سے بچا جاسکے۔ ٹیکنالوجی کبھی بھی جبرکی صورت نہیں بنی اور یہ کہ کچھ ہوسکتا ہے کہ مطلب یہ نہیں کہ وہ لازماً ہوگا ہی۔ یہ ممکن ہے کہ حکومتیں ٹیکنالوجی کا راستہ کامیابی سے روک سکیں اور اس سے ضروری کمرشل اور معاشی فائدے بھی سمیٹ سکیں۔ جیسے انسانی اعضا کی خریدو فروخت کا راستہ سرکاری سطح پر روکا گیا ہے، جبکہ یہ اربوں کھربوں کا کاروبار بن سکتا ہے۔ اگر تبدیلی کا عمل سست کردیا جائے، توخاطر خواہ نوکریاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔مگر اس کے لیے بھی حکومتوں کوعمر بھر کی تعلیم کے لیے مکمل سہولیات کا انتظام کرنا ہوگا اورطویل عرصہ تک کے لیے سیفٹی نیٹ مہیا کرنا ہوگا، تاکہ لوگ ٹیکنالوجی میں مہارتیں حاصل کرسکیں۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ لوگ ساری زندگی تیزی کے ساتھ پیشہ ورانہ تبدیلیاں برداشت کر پائیں گے یا نہیں۔ یقینا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا نہیں کرپائے گا۔ توپھربے روزگار و بے کار دنیا کیا کرے گی؟اس کے لیے نئے معاشرتی نمونے ڈھونڈنے ہوں گے، یا تیار کرنے ہوں گے۔ مگر اس سے بھی پہلے دیانت داری سے اعتراف کرنا ہوگا کہ موجودہ معاشی و سیاسی نظام درپیش چیلنج سے نبرد آزما نہیں ہوسکتا۔
شاید کچھ لوگ کہیں کہ انسان کبھی بھی معاشی طور پرلاتعلق نہیں ہوسکتا، کیونکہ صارف تو وہی رہے گا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ مستقبل میں انسانی صارفین کی ضرورت بھی شاید نہ رہے۔ روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کی اپنی دنیا اپنی ضروریات ہوں گی، وہ ایک دوسرے کے صارف بھی ہوسکتے ہیں۔ شاید انہیں اس بات کی ضرورت ہی نہ ہو کہ انسان ان سے کچھ خریدیں۔ حقیقت یہ ہے کہ الگوریتھم پہلے ہی تاجر اور بیوپار بن چکے ہیں، آج اسٹاک ایکسچینج میں وہ بانڈز کے اہم خریدار ہیں۔ مثلاً اشتہار کی دنیا میں اس وقت سب سے بڑا خریدار گوگل سرچ انجن ایلگوریتھم ہے۔ ظاہر ہے ایلگوریتھم ہوش وحواس نہیں رکھتا، نہ جذبات رکھتا ہے، نہ خواہشات (یہاں ہراری تضاد کا شکار ہورہے ہیں، پہلے باب میں اور دیگر مقامات پر وہ انسانی احساسات اور جذبات کو مشینی قرار دیتے رہے ہیں، اب یہاں انہیں اعتراف ہے کہ مشین کے کوئی جذبات اور خواہشات نہیں ہوتیں)، اور نہ ہی آئس کریم کھاسکتا ہے، مگر آج کی دنیا میں بہترین آئس کریم کون سی ہے؟ اس کا فیصلہ گوگل رینکنگ کرتی ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب کوئی کتاب اشاعت کے لیے بھجواتا ہوں، تو ناشر کے ساتھ ساتھ ایلگوریتھم کی مہارت درکار ہوتی ہے، جو زبان کی تصیح کرتا ہے۔
بہرصورت ہمیں روزگار سے زیادہ انسانوں کی فکر کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں انہیں لاتعلقی سے بچانا ہوگا، ایک ایسا معاشرتی نمونہ تیار کرنا ہوگا، جس میں بے روزگار دنیا کی جسمانی اور نفسیاتی بقا کا سامان وافردستیاب ہوسکے۔ اگر ہم عالمی سطح پرنئے متحد انسانی معاشرے تشکیل دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو مصنوعی ذہانت اور ایلگوریتھم وغیرہ ہمارے لیے نعمت سے کم نہ ہوں گے۔ مگر یہ بات ہمارے لیے ہولناک ہوسکتی ہے کہ اختیارات سارے ایلگورتھم کے ہاتھوں میں چلے جائیں! اس طرح ڈیجیٹل ڈکٹیٹرشپ کا عروج ہوگا اور یہ لبرل کہانی کا افسوسناک اختتام ہوگا!
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
Leave a Reply