شمال مشرقی بھارت کے باغیوں کا اتحاد

شمالی ہند کے باغی گروپوں نے ۱۷؍اپریل کو ایک متحدہ مورچہ تشکیل دیا ہے، جس کے بعد سے مرکزی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس مورچے کی تشکیل کا بنیادی مقصد مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے لیے مشکلات بڑھانا ہے تاکہ اپنے مطالبات زیادہ طاقتور انداز سے منوائے جاسکیں۔

ناگا لینڈ اور میانمار کی سرحد پر ایک گشت کے دوران باغیوں سے جھڑپ میں بھارتی نیم فوجی دستوں کے آٹھ جوان مارے گئے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ باغیوں نے بڑی تعداد میں علاقے کا محاصرہ کرکے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔ یہ سب کچھ اتنے بڑے پیمانے پر تھا کہ مقامی باشندے شدید خوفزدہ ہوگئے۔ باغیوں کے پاس جدید اور وافر اسلحہ تھا۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو گمان بھی نہ تھا کہ ان پر ایسا شدید حملہ کیا جائے گا۔ سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کو اپنے لیے گہرے اور مضبوط بنکر تیار کرنے پڑے ہیں۔ خندقیں بھی کھودی گئی ہیں۔ باغیوں میں جس قدر طاقت ہے، اس کے پیش نظر یہ سب کرنا لازم ہے۔

تری پورہ کے سرحدی علاقوں سے آنے والی خبروں کے مطابق ایک درجن سے زائد باغی گروپوں نے مل کر یونائٹیڈ نیشنل لبریشن فرنٹ آف ویسٹرن ساؤتھ ایسٹ ایشیا (یو این ایل ایف ڈبلیو) تشکیل دیا ہے۔ اس فرنٹ کی تشکیل کا بنیادی مقصد شمال مشرقی حصے کو بھارت سے الگ کرانا ہے۔ ۴ مئی کو ایک بیان میں یو این ایل ایف ڈبلیو نے کہا کہ اس فرنٹ کی تشکیل کا ایک اہم مقصد اجداد کی زمین کو آزاد کرانا ہے۔ نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ کے ایس ایس کھپلانگ کو اس فرنٹ کا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فرنٹ کی تشکیل کا عمل ۲۰۱۱ء میں شروع ہوا تھا جب باغی گروپوں نے آپس میں رابطے بڑھائے تھے۔ آسام، منی پور، تری پورہ، ناگا لینڈ اور میگھالیہ میں سرگرم باغی گروپوں نے سوچا کہ الگ الگ لڑنے سے طاقت کم پڑجاتی ہے، اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ مل کر لڑا جائے۔ ۲۰۱۱ء میں باغی گروپوں کے درمیان رابطے ہی نہیں بڑھے بلکہ انہوں نے اتحاد کی طرف بڑھنا بھی شروع کیا اور اسی سال مل جل کر فرنٹ تشکیل دینے کی باتیں بھی ہونے لگیں۔ چند گروپوں کے سربراہ ہچکچا رہے تھے۔ انہوں نے فرنٹ میں شمولیت کی تصدیق میں دیر لگائی، جس کے باعث فرنٹ کو بنانے اور اس کا اعلان کرنے میں بھی تاخیر ہوئی۔

۱۷؍اپریل کو جس فرنٹ کے قیام کا اعلان کیا گیا، وہ چار بار کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ گوہاٹی (آسام) کے ایک سینئر صحافی راجیو بھٹاچاریہ کو ایک علیحدگی پسند گروپ کے مرکزی رہنما نے بتایا کہ پیپلز لبریشن آرمی کے تمام منی پوری گروپوں، دی یونائٹیڈ نیشنل لبریشن فرنٹ، دی پیپلز ری پبلکن پارٹی آف کانگ لیپاک، دی پیپلز ری پبلکن پارٹی آف کانگ لیپاک پروگریسیو، کانگلا یووون کانالپ اور کانگ لیپاک کمیونسٹ پارٹی کے ایک دھڑے نے (جس کے میانمار کی سرحد سے متصل علاقے میں تربیتی کیمپ ہیں) ان اجلاسوں میں شرکت کی، جو آگے چل کر باغی گروپوں کے فرنٹ کی تشکیل کا ذریعہ بنے۔

منی پور کا ’’دی یونائٹیڈ نیشنل لبریشن فرنٹ‘‘ پورے خطے میں سب سے بڑا زیر زمین گروپ ہے۔ اس کا مطالبہ تھا کہ اس کے چیئرمین آر کے میگھن کو اتحاد کا سربراہ بنایا جائے۔ اس مطالبے کی کئی گروپوں نے مخالفت کی کیونکہ آر کے میگھن اس وقت گواہاٹی جیل میں ہے۔ ایسی حالت میں اسے چیئرمین بنانا کسی بھی طور اتحاد کے لیے سودمند ثابت نہ ہوگا۔

منی پور کے علیحدگی پسند گروپوں نے اب تک یونائٹیڈ فرنٹ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں مگر اخلاقی مدد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اختلافات ہیں مگر انہیں دور کرنے کے حوالے سے امید بھی زندہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام اختلافات بھلاکر سارے ہم خیال گروپ جلد ایک ہوجائیں گے تاکہ بھارت سے آزادی کے لیے زیادہ قوت سے اور زیادہ منظم تحریک چلائی جاسکے۔ چار بنیادی گروپوں نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے تاکہ آئین اور پرچم تیار کیا جاسکے۔

یونائٹیڈ فرنٹ کا قیام عمل میں لانے کے حوالے سے پیش رفت اس وقت ہوئی جب کھپلانگ نے ۲۷ مارچ کو بھارت کے ساتھ ۱۴؍سالہ جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ جنگ بندی کا معاہدہ ۲۰۰۱ء میں ہوا تھا مگر تب سے اب تک معاملات کو درست کرنے کی سمت کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی تھی۔ جنگ بندی میں کئی بار توسیع کی گئی۔ کھپلانگ کا موقف یہ تھا کہ جنگ بندی سے اب کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کیونکہ حکومت خود مختاری کے مطالبے پر بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ چند ہفتوں قبل باغی گروپوں کے نمائندوں کو میانمار کے دارالحکومت بھیجا گیا تاکہ معاملات کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اس اقدام نے بھارتی حکومت کو برہم کردیا اور اس نے باغی گروپوں کے خلاف کارروائیاں تیز کردیں۔

تجزیہ کار اور مبصرین کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ یونائٹیڈ فرنٹ اپنی طاقت کو برقرار رکھ کر سکیورٹی فورسز کو بھرپور انداز سے چیلنج کر پائے گا۔ یونائٹیڈ فرنٹ میں کے ایل او نہ ہونے کے برابر ہے۔ یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آسام (الفا) کی طاقت گھٹ رہی ہے۔ افرادی قوت میں کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ نئے لڑکوں کی بھرتی مشکل ہوگئی ہے۔ دیگر دھڑوں میں بھی اندرونی اختلافات اور تنازعات زیادہ ہیں۔ نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ بھی کمزور ہوچکا ہے۔ ویسے اس میں حملے کرنے کی صلاحیت نے مکمل طور پر دم نہیں توڑا۔

بہت سی اندرونی خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود یونائٹیڈ فرنٹ کا قیام اب بھی بہت اہم ہے اور کچھ نہ کچھ مفہوم ضرور رکھتا ہے۔ بھارتی خفیہ اداروں کے حکام کا کہنا ہے کہ یونائٹیڈ فرنٹ کے قیام میں چین نے بھی مرکزی کردار ضرور ادا کیا ہوگا تاکہ ایک طرف تو میانمار میں اپنے مفادات کو تقویت بہم پہنچائی جاسکے اور دوسری طرف شمال مشرقی بھارت کو قابو میں رکھا جائے۔ چند گروپوں کے رہنماؤں نے چین میں سکونت اختیار کی ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ باغی گروپوں کا یونائٹیڈ فرنٹ کے بنائے جانے کی چین کو خبر ہی نہ ہوئی ہو۔

“Unified front of NE India’s rebel groups rattles Delhi”. (“Weekly Holiday” Dhaka. May 22,2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*