امریکا اور اس کے قریبی اتحادیوں نے پوری دنیا میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پانچ ممالک کا ’’فایئو آئی‘‘ نامی اتحادجس میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں، اس سلسلے میں دوسرے ملکوں سے تعاون کی اپیل کے ساتھ حاصل معلومات کا تبادلہ بھی کر رہا ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان پائی جانے والی تجارتی کشیدگی کے باعث اس وقت امریکا کی تمام تر توجہ چین کی طرف ہے۔ امریکا پوری دنیا کو چین کی معاشی قوت اوراس کی بڑھتی ہوئی طاقت کی طرف متوجہ کررہا ہے، ۲۶ ستمبر کو ٹرمپ نے قومی سلامتی کونسل میں خطاب کے دوران چین پر یہ الزام لگایا کہ چین امریکا کے وسط مدتی انتخابات میں دخل اندازی کر کے’’ری پبلکن‘‘ کو ہرانا چاہتا ہے۔
امریکی نائب صدر نے ۴ ستمبر کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’چین کی دخل اندازی کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے ثبوت حاصل کیے ہیں، اس سلسلے میں چینی شہریت کے حامل ایک شخص کو امریکا سے گرفتار بھی کیا گیا ہے، جو امریکا کے تجارتی راز چوری کر رہا تھا‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’چین اپنی طاقت کو دنیا بھر میں وسعت دینے کے لیے سیاسی، معاشی اور عسکری ذرائع استعمال کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ پروپیگنڈے کے ذریعے بھی اپنی طاقت کو فروغ دے رہا ہے‘‘۔
چین امریکا سمیت اس کے قریبی اتحادی ملکوں میں اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیے بھی خفیہ طریقوں کا استعمال کر رہا ہے۔ آسٹریلیا میں شائع ہونے والی ایک سالانہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ چین آسٹریلیا کی وفاقی حکومت سے لے کرمقامی کونسل تک کی خفیہ معلومات تک پہنچ چکا ہے بالکل اسی طرح جون میں شائع ہونے والی کینیڈین انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق چین نیوزی لینڈ کی خفیہ معلومات تک مکمل رسائی رکھتا ہے۔چین دراصل دنیا بھر کے سیاسی فیصلوں میں اور معاشی وتجارتی معاملات میں اپنی مداخلت چاہتا ہے، اس کے علاوہ خودپر تنقید کو روکنا،جاسوسی کے مواقع اور بیرون ملک چینیوں تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔
’’اٹلانٹک کونسل‘‘ کے سینئر رکن جان واٹ کے مطابق چین کا طریقہ جاسوسی ارزاں قیمت پر موثر ترین طریقہ ہے، جس کے نتائج بھی غیر واضح یا مبہم ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں چین کی حوصلہ شکنی ضروری ہے، ورنہ دوسری قومیں بھی اسی راستے پر چل پڑیں گی۔جان واٹ کا مزید کہنا تھا کہ چین کا انداز ایسا ہے جیسے یہ سب بہت مشکل ہے لیکن دوسرے ممالک کے مقابلے میں چین کا طریقہ اہم اور موثر طریقہ ہے۔
اس حوالے سے پیچیدہ ہوتی ہوئی صورتحال اور بیجنگ کے کامیاب طریقہ جاسوسی کے پیش نظر’’فائیو آئی‘‘ کے اتحاد کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔رائٹرزکی اطلاع کے مطابق فرانس،جاپان اور جرمنی کو بھی اب ’’فائیو آئی‘‘ کی معلومات تک رسائی حاصل ہو گی۔
’’فائیو آئی‘‘ اپنی انٹیلی جنس سے حاصل کردہ معلومات کا اشتراک اپنے اتحادی ممالک اور نیٹو سے بھی کرے گی،اور فراہم کردہ معلومات نہایت اہمیت کی حامل ہوں گی۔فائیو آئی کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا اور برطانیہ کی انٹیلی جنس کے اتحاد سے ممکن ہوا،یہ دنیا کا مضبوط انٹیلی جنس اتحاد ہے۔ یہ اتحاد چین کی طاقت کے حصول کے خفیہ طریقہ کار پر اس قدر سنجیدہ ہے کہ اب دوسرے ممالک کو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جارہا ہے۔
جان واٹ نے مزید کہا کہ بیرونی طاقت کی مداخلت مغربی دنیا کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے، گو کہ یہ خطرہ نیا نہیں ہے، لیکن بین الاقوامی معیشت اور طاقتور جدید سوشل میڈیا کا باہم رابطہ جمہوری ممالک کے لیے مزید خطرات کا ایک اعلان ہے۔
’’فائیو آئی‘‘ ممالک اپنی انٹلیجنس کو مزید مضبوط اور موثر بناتے ہوئے اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ جب وہ بیجنگ کی خفیہ سرگرمیوں کا مقابلہ کر سکیں۔آسٹریلیا نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے قوانین اور اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مضبوط کیا ہے۔ ۴ ستمبر کو نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ فائیو آئی ممالک نے جدید ٹیکنالوجی کے اداروں کو خبردار کرتے ہوئے ان سے خفیہ ای میل اور پیغامات تک قانونی طور پر رسائی مانگی ہے تاکہ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ان خفیہ پیغامات تک پہنچ سکیں جنہیں چین اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
جان واٹ کے مطابق بیجنگ جس طرح اپنی مضبوط معیشت، بین الاقوامی رابطہ اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کام کر رہا ہے اسی طرح مغربی ممالک یا ’’فائیو آئی‘‘ کو مل کر باہمی ہم آہنگی اور جامعیت کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ خفیہ معلومات کے اشتراک کے ذریعے فائیو آئی اور دیگر ممالک چین کی خفیہ سرگرمیوں کے ذریعے طاقت کے حصول کے آگے ایک مضبوط رکاوٹ کھڑی کر سکتے ہیں۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“United States, intelligence allies expand effort to contain Chinese influence”(“atlanticcouncil.org”. October 12, 2018)
Leave a Reply