اگر کسی کو پاکستان کی یونیورسٹیوں کے نظام میں بنیادی مسئلہ دیکھنا ہو تو وہ کسی بھی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے بعد دوسرے درجے کی قیادت میں پوشیدہ ملے گا۔ پاکستانی یونیورسٹیوں کے نظام میں وائس پریذیڈنٹس، وائس ریکٹرز، فیکلٹی ڈینز وغیرہ، سب سے زیادہ متذبذب یا مجھے کہہ لینے دیجیے، سب سے زیادہ مہمل طبقہ ہوگا۔ ان درجن بھر تعداد کی یونیورسٹیوں میں، جہاں میری واقفیت رہی ہے تقریباً ہر ایک میں ہی، اس درجے کے لوگ حد درجہ کاہل اور تمام مسائل کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔
اکثر ایسی یونیورسٹیوں میں جہاں وائس چانسلر کی تعیناتی کے عمل میں کچھ جانچ پڑتال کی جاتی ہے وہاں یہ ساری جانچ اس وقت خاک میں مل جاتی ہے جب کسی پرووسٹ، وائس ریکٹر یا ڈین کی تقرری کا مرحلہ سامنے آتا ہے۔ عام طور پر اس کا فیصلہ وائس چانسلر کرتا ہے یا اس مرحلے کو اْس بْری روایت کے تحت مکمل کیا جاتا ہے جسے ’’سنیارٹی‘‘ کہتے ہیں۔ آپ کو بس اپنا آپ کسی یونیورسٹی میں قائم رکھنا ہے، اس بات کی پرواہ مت کیجیے کہ آپ انتظامی لحاظ سے یا تحقیق کے لحاظ سے کس قدر باصلاحیت ہیں۔ آپ بس وہاں موجود رہیے اور گھڑی کی سوئیاں دیکھتے رہیے کیونکہ ایک نہ ایک روز آپ اس ’’سنیارٹی‘‘ کی بنیاد پر اعلیٰ درجے پر ضرور فائز ہو جائیں گے۔
یہ کم از کم درجے کا گھٹیا نظام ہے۔ اگرچہ اس نظام کے تحت چند اچھے لوگوں کی تعیناتی بھی ممکن ہے لیکن یہ معیار اور قابلیت جانچنے کا کوئی میزان نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ ایک عالمی سطح کا محقق انتظامات کی ابجد سے بھی واقف نہ ہواور ممکن ہے کہ ایک اوسط درجے کا محقق اعلیٰ سطح کا منتظم ثابت ہوجائے۔ اس درجے پر قیادت کے قیام کے لیے لازم ہے کہ اساتذہ اور انتظامیہ کی صلاحیتوں کی شناخت کی جائے اور ایسے افراد کی تقرری کی جائے جو اس مقصد کے لیے نہ صرف اعلیٰ صلاحیتوں بلکہ اس انتخاب کے لیے لازمی تجربے کے حامل بھی ہوں۔
ایسی پاکستانی یونیورسٹیاں جہاں ان آسامیوں پر تقرریوں کے لیے ’’سنیارٹی‘‘ کے قانون کا لحاظ نہیں رکھا جاتا وہاں یہ تمام معاملات صوابدیدی اختیارات پر لٹک رہے ہوتے ہیں۔کسی بھی طرح کے قانون کے نہ ہونے کی صورت میں کسی بھی شخص کو ایسے عہدوں پر فائز کردیا جاتا ہے۔ اب چونکہ ایسا شخص اقربا پروری کے نتیجے میں آتا ہے تو وہ ہروقت اپنی تقرری کرنیوالے فرد (عام طور پر وائس چانسلر) کی خوشامد کرتا نظرآتا ہے اور شاذ ہی کوئی آزادانہ قدم اٹھاتا ہے۔ چونکہ ان افراد کو یہ تعیناتی کسی کامیابی یا باقاعدہ مرحلے سے گزر نے کے سبب نہیں ملی ہوتی تو یہ افراد اس اتھارٹی کے رحم و کرم پر رہتے ہیں جس نے ان کا تقرر کیا ہوتا ہے، لہٰذا یہ افراد سارا وقت اس اتھارٹی کو خوش کرنے میں ہی مشغول رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس شعبے کی ہر ترقی اور اقدام کو زنگ آلود کردیتے ہیں جس کے یہ سربراہ ہوتے ہیں۔
لہٰذا پرووسٹ اور ڈین کی تقرری کا عمل بہت موثر اور شفاف ہوناچاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سطح پر تقرریوں کے لیے سربراہ ادارہ کی معاونت کی خاطر پہلے سے تشکیل شدہ عالمی کمیٹی کی مدد لینی چاہیے کیونکہ وہ بھی یونیورسٹی کی ترقی کے لیے لازمی ذمہ دار ہیں۔ ادارے کے سربراہ کے معاونین کی حیثیت میں یہ افراد اعلیٰ سطح کے وہ ارکان ہوتے ہیں جنہیں اساتذہ اور عملہ باقاعدگی سے مل رہا ہوتا ہے لہٰذا ان آسامیوں پر تقرری کے لیے ان سے مشاورت بھی لازمی ہونی چاہیے۔
جب ایک ڈین یا پرووسٹ کی تعیناتی کا عمل مکمل ہوجائے تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اختیارمیں ایک ضابطہ نظام ترتیب دیں۔وہاں ایک انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جانا لازم ہے، ایک تحریر شدہ منظم فیکلٹی پالیسی بنائی جائے۔ (جس میں اساتذہ، تحقیق، ترقیوں اور تنخواہوں کا جائزہ لیا جاتا رہے) اس کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط پالیسی بنائی جائے جس میں پوری توجہ اساتذہ اور طلبہ کے تعلقات پر ہو اور ان کی فلاح کا خیال رکھا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ تمام حکمت عملیاں ڈین کے دفتر میں ہی ترتیب دے دی جائیں اور پھر انہیں نچلی سطح پرنافذ العمل قرار دیا جائے بلکہ انہیں ایسے معاونین کی اعانت سے ترتیب دیاجائے جس میں مختلف شعبوں کے سربراہان، یونیورسٹی میں خاص شعبہ جات کے اساتذہ کرام (مثال کے طور پرفیکلٹی کی ترقی اور تنخواہ کے معاملے پر بنائی گئی کمیٹی میں ایچ آر منیجر کو شامل کیا جائے) اور اس مقصد کے لیے باہر سے ماہرین کو بھی مشاورت میں شامل کیا جائے تاکہ اس مرحلے کی شفافیت کا خیال بھی رکھا جاسکے۔ اس حکمت عملی کو یونیورسٹی میں یکساں بنیادوں پر پھیلانا چاہیے تاکہ مختلف ڈپارٹمنٹس کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہ ہونے پائے اور تمام حکمت عملی ہم آہنگی سے تشکیل پائے۔ ایک مرتبہ اگر ایسی حکمت عملی نافذ کردی جائے تو پھر اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا لازمی ہے۔
پاکستان کے معاملے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اولاً تو یہاں ایسی کسی حکمت عملی کا وجود ہی نہیں ہے اور اگر کہیں کوئی ایسی حکمت عملی موجود بھی ہے تو اس میں اس قدر ابہام ہے اور یہ اس حد تک کمزور ہے کہ کوئی بھی فرد انہیں جب چاہے با آسانی نظر انداز کرسکتا ہے۔اس معاملے کی بدترین صورت یہ ہے کہ کسی سطح کے نظام کی موجودگی میں بھی کچھ لوگ طاقت کے بل بوتے پر یا غنڈہ گردی کرکے یا دھمکیاں دے کر بھی اپنے کام کرلیا کرتے ہیں۔
جب اس طرح کے قوانین اور مراحل کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو یونیورسٹی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے اور اس کے سبب یونیورسٹی ایک مچھلی منڈی کی سی صورت اختیار کر لیتی ہے جہاں کچھ بھی چل جاتا ہے۔ لہٰذا جب یہ حکمت عملیاں ترتیب دی جارہی ہوں تو ان پرخصوصی توجہ دی جائے تاکہ خودکار طریقے سے نافذ العمل رہیں وگرنہ ان کی مضبوطی باقی نہیں رہے گی۔ یہاں ایسے نظام کو وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کی موجودگی میں اگر کوئی بھی فرد قانون شکنی کرے تو اس قانون شکنی کی نشاندہی کرنے والے شخص کوکسی بھی طرح کے تلخ نتائج کا خوف نہ ہو اور جرم کرنے والے شخص کو باآسانی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔
مثال کے طور پر اگر ایک ڈین بار بار قانون شکنی کا مرتکب ہو رہا ہو تو اساتذہ میں سے کسی کے پاس بھی یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ ان الزامات کو ایک آزادانہ تحقیقاتی بورڈ کے سامنے بلا خوف و خطرپوری ذمہ داری کے ساتھ رکھ سکیں۔ اساتذہ کو اس امر کا کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے کہ ڈین ایسی کسی صورت میں انہیں انتقامی کاروائی کا نشانہ بنائے گا۔ جونہی کوئی الزام سامنے آئے تو شکایت کنندہ استاد کو اس ڈین کے زیر انتظام کام کرنے کی ذمہ داری سے ہٹا دیا جائے اور اسے ان الزامات کی تحقیقات کے عرصے کے دوران کسی اور ڈین یا پرووسٹ کے زیر انتظام ذمہ داریاں سونپ دی جائیں۔ اگر کسی ادارے میں قوانین اور ضابطے کی پابندی لاگو کرنی ہو اور ا ن کی خلاف ورزی پر لازمی کارروائی کرنا ہوتو اس طرح کے اقدامات اٹھانے لازمی ہیں۔ وگرنہ قوانین تو موجود رہیں گے مگر ان پر عمل کوئی نہیں کرے گا۔ لہٰذا کسی بھی یونیورسٹی کے موثر نظم و نسق کے لیے جامع ضابطہ کار کی ایک قانونی دستاویز کا ہونا لازمی ہے جس کے ذریعے آزادانہ نگرانی کا عمل ممکن ہو سکے اور اس کے نفاذ کا نظام وضع کیا گیا ہو۔
یونیورسٹی کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے ڈین اور پرووسٹ کی تقرری اور اپنے طور پر نافذ العمل ضابطے کی دستاویز کی تیاری اور اس کا نفاذ لازمی اقدامات ہیں۔ اگر ان دونوں مراحل پر خاص توجہ دی جائے تو چاہے کوئی غیر موزوں وائس چانسلر ہی کیوں نہ مقرر ہوجائے پھر بھی یونیورسٹی کی کارکردگی باقی رہ سکتی ہے۔ کیونکہ اعلیٰ آسامیوں پر باصلاحیت افراد کی تقرریاں، ایسے وائس چانسلر کو صوابدیدی تبدیلیاں کرنے سے روک کر رکھیں گی۔
ان تمام مندرجات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں ان دو مسائل کے حل پر توجہ نہ دی گئی تو یہاں کی یونیورسٹیاں کبھی بھی ایک واضح مقصد کے ساتھ تعلیم اور تحقیق کے ایسے ادارے نہیں بن سکیں گی جہاں خودکار طریقے سے قوانین کے نفاذ ہوتا ہو اور نظم و نسق باقی رہتا ہو۔
(بحوالہ: ’’تجزیات ڈاٹ کام‘‘۔ یکم اپریل ۲۰۱۹ء۔ ترجمہ: شوذب عسکری)
Leave a Reply