ڈاکٹریعقوب خان بنگش آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں، آئینی قوانین، جدید تاریخ اور سیاسیات ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ جدیدجنوبی ایشیا کی تاریخ اور خطے کے مسائل و معاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین ’دی گارڈین‘ سمیت مختلف بین الاقوامی و قومی اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں نظامِ تعلیم حکومتی ترجیحات میں شامل دکھائی نہیں دیتا، ریاستی عدم توجہی اور انتظامی مسائل کی بنا پر پاکستانی جامعات تعلیمی میدانوں میں کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا پائیں، پاکستانی جامعات کے تحقیقی مقالہ جات ہمیشہ اہلِ علم حلقوں کی جانب سے تنقید کی زَد میں رہے ہیں کہ یہ یا تو پہلے سے کی گئی تحقیقا ت کا چربہ ہوتے ہیں یا پھر ان میں سطحیت پائی جاتی ہے۔ یعقوب خان بنگش کے یہ مضامین سلسلہ وار ’’دی نیوز‘‘ میں شائع ہو رہے ہیں، جن میں پاکستانی جامعات کے انتظام و انصرام، ان کی ترجیحات، مقاصد اور انہیں درپیش مسائل سے متعلق انتہائی تفصیل سے نہ صرف یہ کہ جائزہ لیاگیا ہے بلکہ ان مسائل کا جامع حل بھی پیش کیا گیا ہے۔اب تک شائع شدہ تین مضامین کا ترجمہ قارئین کے لیے یہاں شائع کیا جارہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اب پاکستان میں کام کرتے ہوئے آٹھ سال کا عرصہ ہورہا ہے اور میں اس دوران پاکستان کی دو مختلف جامعات سے وابستہ رہا ہوں۔ ان دونوں جامعات کو قائم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ (ایک نسبتاََ پرانی ہے مگر اسے یونیورسٹی کا باقاعدہ درجہ سال ۲۰۰۴ء میں ہی دیا گیا ہے)، یہ دونوں یونیورسٹیاں بہت پُرجوش اور پورے زور و شور سے پاکستان کے تعلیمی نقشے پر اپنے نشان قائم کرنا چاہتی ہیں۔ ان دونوں اداروں میں تقریباً ایک ہی جتنے عرصے تک کام کرنے کے بعد مجھے پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں موجود مسائل کے متعلق ایک خاص سطح کی گہری واقفیت ہوچکی ہے اور میرے اس تجربے نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں ان مسائل کے حل کے متعلق غور و فکر کرتے ہوئے ان کا حل تجویز کروں۔
پاکستان میں موجود یونیورسٹیوں کے مسائل بہت ہی سادہ ہیں تاہم ان مسائل کی اسی سادگی نے انہیں بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ سطح کے تعلیمی اداروں کے ساتھ دو بہت بڑے مسائل ان کے وژن اور گورننس میں پوشیدہ ہیں۔ آپ ان دو مسائل کو حل کردیجیے تو پاکستان میں اعلیٰ سطح کا تعلیمی نظام آسانی سے بہترین ہوجائے گا اور یہی نظام اعلیٰ پائے کے مفکرین، سائنسدان اور کاروباری حضرات پیدا کرنے لگے گا، جس کی خواہش ہم سب کرتے ہیں مگرعملاََ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اگر ہم ان مسائل پہ توجہ نہیں دیں گے تو ہم محض ڈگریاں ہی دیتے رہیں گے ،جن کی قدرکاغذ کے اس ورق کے برابر بھی نہیں ہوتی جس پر انہیں چھاپا گیا ہوتا ہے۔ ان مسائل کو نظر انداز کرتے رہے تو جلد ہی وہ وقت آن پہنچے گا جب ہمارے پاس لاکھوں سند یافتہ ایسے طلبہ ہوں گے جن کے پاس ملازمتیں نہیں ہوں گی ،کیونکہ محض ڈگریاں دینے والی ان فیکٹریوں کے پاس وہ نظام ہی نہیں کہ یہ اپنے طلبہ کو موجودہ مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق صلاحیتیں مہیا کرسکیں۔ اعلیٰ سطح کے ان تعلیمی اداروں میں ان بنیادی نوعیت کے اہم ترین مسائل کو نظرانداز کرنے کے سماجی، معاشی اور سیاسی نتائج بہت واضح اور تباہ کن ہوں گے۔
سب سے پہلا مسئلہ وژن کا ہے۔ ایک اعلیٰ سطح کے تعلیمی ادارے کے مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ پاکستان میں اس سوال پہ توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ لوگوں کو اعلیٰ تعلیم کیوں حاصل کرنی چاہیے؟ کیا اس کا مقصد لوگوں کو بہتر، باشعور اور اچھا شہری بنانا ہے؟ یا اس کامقصد محض ملازمت کا حصول ہے؟ یا یہ دونوں صورتیں ہی اس کا مقصد ہیں۔ بیان کیے گئے ان تینوں مقاصد میں کسی ایک مقصد کا حصول بھی ایک مختلف طرز کی یونیورسٹی کے قیام کا متقاضی ہے، چاہے وہ نظام ہو، نصاب ہو یا اس کا انداز۔
جان ہنری نیومین نے اپنی کتاب ’’ آئیڈیا آف اے یونیورسٹی‘‘ میں بیان کیا ہے کہ یونیورسٹی کا بنیادی مقصد کسی بھی فرد کی فکر کی اس طرح پرورش کرنا ہے کہ وہ سچ کی تلا ش کرسکے۔نیومین لکھتے ہیں، ’’سچ کا حصول ہی فکر کا مقصد ہے‘‘۔ اس کا مطلب ہوا کہ یہ ایک عظیم اور آفاقی مقصد ہے۔ حقیقت میں یہ ایک مذہبی مقصد ہے کیونکہ اس مقصد سے علم حاصل کرنا تاکہ سچ تک پہنچا جاسکے، دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات کا بنیادی پیغام ہے۔ نئے علوم کی افزائش علم کی تلاش ہی سے ممکن ہوتی ہے۔
تو کیا ہماری یونیورسٹیاں اس بنیادی مقصد کو پورا کرتی ہیں کہ انہیں یونیورسٹی کہا جا سکے؟ اگر آپ گوگل کریں تو آپ دیکھیں گے کہ پاکستان کی اکثر یونیورسٹیاں اگر خبروں میں آتی ہیں تو وہ اس لیے کہ وہاں موجود پروفیسر صاحبان علمی سرقہ (پلیجرازم) میں پکڑے گئے ہوتے ہیں، یا وہ اس طرح کی خبریں ہوتی ہیں کہ کسی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ کو کسی تقریب کے انعقاد سے روک دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں بجائے نئے علوم کی تشکیل کے، بہت ڈھٹائی سے دیگر اداروں کا علم چوری کررہی ہیں اور بجائے طلبہ کو سوال اور فکر کی آزادی دینے کے، ان کے لیے مکالمے اور مباحثے کے مواقع بند کررہی ہیں۔
آپ اگر اس سے بھی بنیادی سطح پر چلے جائیں، ایسی یونیورسٹیاں اور ان کے اساتذہ کی تعداد کتنی ہوگی جو کمرہ جماعت کے علاوہ سوچنے اور تحقیق کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اکثر یونیورسٹیوں میں تو نصاب ختم کرنے، گریڈ حاصل کرنے اور ڈگریاں لینے کی بھاگ دوڑ لگی رہتی ہے۔ ایسی صورتحال میں کیا ہم ان اداروں کو، جن کے پاس یونیورسٹی کا درجہ ہے، یونیورسٹی کہہ سکتے ہیں؟
وژن کے مسئلے کے تناظر میں غور کرنے سے یہ سامنے آتا ہے کہ کوئی یونیورسٹی کس طرح کا ادارہ بننا چاہتی ہے ؟ مثال کے طور پر ایک لبرل آرٹس کالج ہے،جہاں طلبہ کو انڈر گریجویٹ سطح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح کے اداروں میں اساتذہ اپنی ذاتی تحقیق تو جاری رکھتے ہیں مگر اس ادارے کے اساتذہ کا مقصد طلبہ کو وسیع سطح کی انڈر گریجویٹ تعلیم دینا اور بین الکلیاتی (انٹر ڈسیپلنری)درجے کی عمومی سمجھ بوجھ سے متعارف کروانا ہوتا ہے۔
اس کے بعد کا درجہ ایک تحقیقی (ریسرچ) یونیورسٹی کا ہوتا ہے جہاں ایک موثر سطح کا انڈر گریجویٹ پروگرام موجود ہوتا ہے مگر اس ادارے کی بنیادی توجہ پوسٹ گریجویٹ اور پی۔ ایچ۔ ڈی سطح پہ ہوتی ہے۔ اس ادارے میں اعلیٰ درجے کے اساتذہ کو بھرتی کیا جاتا ہے جو انڈر گریجویٹ درجے کے طلبہ کو بھی پڑھاتے ہیں ،مگر ان کی بنیادی ذمہ داری جدید درجے کی تحقیق کرنا ہوتی ہے۔ ان اداروں کا مقصد اعلیٰ سطح کی موثر تحقیق سامنے لانا ہوتا ہے۔
مزید برآں، کچھ دیگر ادارے ایسے ہوتے ہیں جو کسی خاص شعبہ سے منسلک ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے پاس عمومی درجے کا وسیع نصاب بھی ہوجسے وہ انڈر گریجویٹ سطح پر پڑھاتے ہوں، مگر ان کا بنیادی مقصد ایک خاص موضوع پر تحقیق کرنا ہوتا ہے۔ امریکا میں ایم آئی ٹی اور کال ٹیک، لندن میں ایمپریل کالج اور پیرس کا ایچ ای سی، اس طرح کے اداروں کی مثالیں ہیں۔ ان اداروں میں بہت سے شعبہ جات موجود ہیں مگر ان کی توجہ کا خاص مرکز چند شعبے ہیں اور یہ ادارے دنیا بھر میں ان خاص شعبوں پر تحقیق کے نامور مراکز ہیں۔
اس کے بعد عوامی سطح کی سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جو تمام شعبوں میں تعلیم مہیا کرتی ہیں مگر ان میں بھی چند شعبہ جات انتہائی اعلیٰ درجے کے حامل ہوتے ہیں۔ مگر چونکہ یہ سرکاری سطح پرقائم ادارے ہوتے ہیں لہٰذا ممکنہ طور پر ان میں داخلے کے لیے ترجیح ان کے مقامی شہریوں کو ہی دی جاتی ہو مگر ان کے بڑے حجم کے سبب یہ ادارے بھی چند اعلیٰ درجے کے پروگرام کی پیشکش کرتے ہیں۔
دنیا بھر کے اکثر ادارے خاص طور پر امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین میں موجود ادارے درجہ بالا اقسام میں شمار ہوتے ہیں۔ اور تقریباً تمام ادارے اس معاملے پرمکمل فہم رکھتے ہیں کہ وہ کون سی قسم میں شمار ہوتے ہیں، لہٰذا یہ تمام ادارے اپنے اپنے وژن (مقاصد) سے ہم آہنگ ہیں۔ اس فہم کے سبب یہ ادارے اپنے مقاصد اور اپنی نوع کی ضرورتوں کے متعلق آگاہ رہتے ہوئے اپنی ترجیحات وضع کرتے ہیں اور ان ترجیحات کے حصول میں درست سمت کا تعین کرتے ہوئے واضح اور موثر حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔
آیے اب پاکستان میں موجود یونیورسٹیوں کا جائزہ لیں۔ ہماری اکثر یونیورسٹیاں سرکاری ہیں لہٰذا وہ تقریباََ تمام شعبوں میں تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ چونکہ سرکاری یونیورسٹیوں کا مقصد عوام کی خدمت ہے ،جو اعلیٰ تعلیم کا حصول چاہتی ہے تو یہ ادارے وہ ماڈل اپناتے ہیں جس کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ادارے اعلیٰ سطح کے چند تعلیمی شعبوں پہ توجہ نہیں دے سکتے۔
پھر اس کے بعد ہمارے وہ سرکاری ادارے آتے ہیں، جو سائنس، ٹیکنالوجی اور بزنس جیسے شعبوں کے لیے خاص طور پر قائم کیے گئے ہیں۔ تقریباََ یہ تمام ادارے ہی اب عمومی سطح کی یونیورسٹیوں میں تبدیل ہونے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یا تو وائس چانسلر اپنی یونیورسٹی کی سمت میں تبدیلی چاہتے ہیں یا انہیں بعض منافع بخش مضامین کی جانب منتقل ہونا ہوتا ہے۔اس تبدیلی کے سبب ان کی سمت میں ابہام جنم لیتا ہے۔ پہلے سے ہی موجود چند پی ایچ ڈی اساتذہ میں دیگر ماہرین کی ملاوٹ ہوجاتی ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ ان مضامین کی جانب ترجیحات کم پڑ جاتی ہیں، جن میں اعلیٰ درجے کے مقام کے حصول کے لیے انہیں قائم کیا گیا تھا۔
مثال کے طور پر ایک انجینئرنگ یونیورسٹی کے لیے لازم ہے کہ وہ اعلیٰ معیار کے انجینئر پیدا کرے اور اس شعبے میں جدید ترین تحقیق پیش کرے نہ کہ اس کے برعکس وہ ایک اور ڈگری، مثلاًایم بی اے کی پیشکش کردے، چاہے یہ کس قدر منافع بخش اور پرکشش ہی کیوں نہ ہو،ایک نئی ڈگری کی پیشکش پہلے سے موجود انجینئرنگ پروگرام کے لیے ترجیحات کو کم کردے گی اور ایک عجیب سی صورتحال پیدا کردے گی جہاں ایک انجینئرنگ یونیورسٹی ایک بزنس پروگرام بھی چلا رہی ہوگی۔
ہمارے ہاں موجود نجی یونیورسٹیوں کا معیار اس سے بھی بدتر ہے۔ کوئی ایک ہی نجی یونیورسٹی ایسی ہو جس نے اپنے مقاصد اور سمت کو ترتیب دے کر شائع کیا ہو کہ وہ اپنے ہاں موجود ڈگری پروگرام کی پیشکش کیوں کررہے ہیں۔ چند ادارے ایسے ہیں جو اپنے ہاں موجود ڈگری پروگرام کو عوامی رجحان کے مطابق بدلتے رہے ہیں اور کچھ دیگر ادارے یکلخت ڈھیر سارے پروگرام اس خیال میں شروع کردیتے ہیں کہ ان کے پاس طلبہ کی تعداد زیادہ ہوجائے۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جو ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام بھی شروع کردیتے ہیں۔ اور وہ اس امر کا قطعی خیال نہیں رکھتے کہ ان کے پاس اس مقصد کے لیے لازمی نظام، اساتذہ اور استعداد موجود ہے یانہیں،لیکن چونکہ وہ ایسا کرسکتے ہیں لہٰذا وہ ایسا کرگزرتے ہیں۔
ایک مرتبہ مجھے میرے ایک ساتھی استاد نے بتایا کہ ان کے وائس چانسلر کی جانب سے ہدایت تھی کہ اگر ان کے پاس ایم فل پروگرام کے لیے طلبہ کی لازمی تعداد کا کم ازکم عدد بھی پورا ہوجائے تو وہ یہ پروگرام شروع کردیں۔ جب یہ پوچھا گیا کہ ایم فل پروگرام شروع کیوں کیا جائے تو جواب دیا گیا کہ یہ پروگرام کیوں نہ شروع کیاجائے؟ ایسا ظاہر کیا گیا کہ جیسے یہ لازمی ہے کہ جونہی کم از کم تعداد پوری ہو اسے شروع کردینا چاہیے۔ بہت سے ادارے ،جو لبرل آرٹس ماڈل پر قائم کیے گئے تھے ان اداروں نے پوسٹ گریجویٹ ڈگریوں کی پیشکش محض اس خاطر کردی ہے کہ اس کے سبب وہ مالی امداد ملتی ہے جو ایک ریسرچ ادارے کے لیے مختص ہے اور اس طرح شہرت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ان اداروں نے اس معاملے پرغور نہیں کیا کہ وہ انڈر گریجویٹ پروگرام ،جن کے لیے انہیں قائم کیا گیا تھا،پہلی توجہ ان پروگرا موں پر دینا لازمی تھا۔
اگرپاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا نظام چلانا ہے تو اس کے مقاصد اور مرکزی نکات پر ایک بار پھر سوچنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ اور اساتذہ کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کے مقاصد اور نظام پر مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے اور پھر اس کو پورا کرے۔ مارکیٹ کی مناسبت سے حکمت عملیوں کی ترتیب، سمتوں میں من چاہی تبدیلی اور مقاصد میں ابہام باقی رہا تو ہمیشہ بے صلاحیت طلبہ اور بے مقصد اساتذہ ہی ہمارا مقدر رہیں گے۔
پاکستانی یونیورسٹیاں اگر عالمی سطح پرتحقیق کی صلاحیت اور تعلیم یافتہ شہری پیدا کرنا چاہتی ہیں تو ان کو اس نظام میں بہت جلد انقلابی تبدیلی لانی ہوگی، جس کے تحت ان کے ہاں موجودتعلیمی شعبوں کے سربراہان کا تقرر کیا جاتا ہے۔
جس طرح ایک یونیورسٹی کے وژن کا واضح ہونا لازمی ہے اسی طرح اس کے نظم و نسق کے نظام کاموثر ہونا بھی لازمی ہے تاکہ طے شدہ مقاصد کو پورا کیا جاسکے۔ نظم و نسق کا بْرا نظام نہ صرف کسی ادارے کے طے شدہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں پورے پراجیکٹ میں شگاف پڑجاتے ہیں اور اس کے مقاصد کا حصول محض سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ کسی یونیورسٹی کے لیے سب سے بدترین صورت یہ ہے کہ اس کے اساتذہ بے مقصد اوراس کا عملہ، ادارے سے لاتعلق ہو۔ لہٰذا کسی بھی یونیورسٹی کی کامیابی کے لیے اس کے نظم و نسق کا نظام بہت اہمیت کا حامل ہے۔
یونیورسٹیوں میں نظم و نسق کے بہت سے ماڈل موجود ہیں۔ امریکا میں بہت سی یونیورسٹیوں کے پاس اعلیٰ سطح پر بورڈ آف ٹرسٹیز یا ان کے برابر جیسے نظام موجود ہیں، جو یونیورسٹی کی عمومی شکل تشکیل دیتے ہیں اور ان کے لیے چندہ جمع کرتے ہیں۔ عام طور پر بڑے کاروباری حضرات، اعلیٰ سطح کے ریٹائرڈ سرکاری افسران اور بڑے درجے پر رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد اس بورڈ کے ارکان ہوتے ہیں تاکہ یونیورسٹی ایسے افراد کی رہنمائی اور مشاورت لے سکے۔
اعلیٰ سطح پر ایسے افراد کی موجودگی سے یونیورسٹیوں کو مشکل مسائل سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے اور ان ارکان کے سبب یونیورسٹی کو چندہ جمع کرنے میں آسانی ہوتی ہے کیونکہ ان اہم افراد کے تعلقات اور دائرہِ اثر وسیع ہوتے ہیں۔تاہم اگر آپ ان امریکی یونیورسٹیوں کے بورڈ آف ٹرسٹیز اور پاکستان میں واقع یونیورسٹیوں کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا جائزہ لیں تو آپ دنگ رہ جائیں گے۔ اکثر نجی یونیورسٹیوں کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں مالکان کے خاندان والے، قریبی دوست یا اعلیٰ سرکاری افسران شامل ہوتے ہیں۔
اس امر کی شاذ ہی کوئی کوشش کی جاتی ہوگی کہ یونیورسٹی کے بورڈ کے ارکان ایسے افراد ہوں جن کی کوئی آزادانہ رائے ہو اور وہ بعض فیصلوں سے اختلاف کریں، جن کے سبب کچھ مسائل پر مزید مباحثہ اور غور و خوض ممکن ہوسکے۔ ایک مرتبہ ایک یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں سے ایک سرگرم رکن نے مجھے بتایا کہ انہیں خوف ہے کہ وہ اپنی خدمات بطور ٹرسٹی مزید جاری نہیں رکھ سکیں گے، کیونکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو لگتا ہے کہ وہ زیادہ سوالات پوچھتے ہیں۔ ان کا خدشہ سچ ثابت ہوا اور انہیں آئندہ بورڈ میٹنگ میں مبینہ طور پر ریٹائر کردیا گیا۔ کسی بھی یونیورسٹی کے کامیاب نظم و نسق کے لیے ایک آزاد اور بااختیار بورڈ کا ہونا لازمی ضرورت ہے۔
بورڈ کے بعد یونیورسٹی کے ریکٹر، پریزیڈنٹ یا وائس چانسلر کا دفتر آتا ہے جسے یونیورسٹی میں اختیارات کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس عہدے پر فائز صاحب یا خاتون اپنی حیثیت میں یونیورسٹی کا سب سے اہم فرد ہوتا ہے۔ بطور سربراہ یونیورسٹی اس عہدے پر فائز شخص تعلیمی، انتظامی اور ان شعبوں سے منسلک دیگر اہم امور میں حتمی اور فیصلہ کن اختیارات کا مالک ہونے کے سبب ان تمام معاملات پر اثرانداز نظر آتا ہے۔ پاکستان ، خاص طور پر پنجاب میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کس طرح اس عہدے پر فائز ہوتے ہیں اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، میں اس معاملے پر پہلے ہی تفصیل سے بیان کرچکا ہوں، مگر اتنا درج کرنا ہی کافی ہوگا کہ یہ مرحلہ انتہائی یک طرفہ، عجیب اور بسا اوقات مضحکہ خیز ہوتا ہے۔
ایک صوبے میں مرکزی سطح پر قائم کی گئی کمیٹی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں تقرریاں کرتی ہے، جبکہ دوسرے صوبے میں ایک تحقیقی کمیٹی کو آسامیوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے مگر اس کے لیے یا تویونیورسٹی کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا یا پھر کمیٹی کے ارکان کی مہارت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ سب سے بُرا معاملہ یہ ہے کہ اس تحقیقی کمیٹی کے اس مرحلے پر جہاں کسی یونیورسٹی میں تقرری کرنی ہو وہاں اس یونیورسٹی سے کسی نمائندے کو دعوت نہیں دی جاتی اور نہ اس معاملے کی جانچ کی جاتی ہے کہ جس شخص کو اس خاص آسامی پر مقررکیا جا رہا ہے، کیا اس کی مہارت یونیورسٹی کو درکار ضرورت سے مطابقت رکھتی ہے ،جہاں اسے بھیجا جا رہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے یہ کمیٹی کسی شخص کو بنا سوچے سمجھے ہی منتخب کرلے پھر اس کے لیے یونیورسٹی تلاش کی جائے کہ اسے وہاں تعینات کرنا ہے۔ ایک ماہر تاریخ نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ انہیں ایک انجینئرنگ یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ کی پیشکش کی گئی۔ اگر یونیورسٹیوں کے سربراہان کی تقرریوں کاطریقہ کار یہی رہا تو اس امر کا اندازہ نہ ہی لگایے کہ یہ افراد ان تقرریوں کے لیے موزوں انتخاب ہوں گے یا اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ افراد کچھ بہتر کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گے؟ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھے خود بتایا کہ انہوں نے یہ یونیورسٹی وائس چانسلر کے عہدے پر مقررہونے سے پہلے کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔
نجی سطح کی یونیورسٹیو ں کے سربراہان کی تعیناتی کا عمل واضح نہیں ہے۔ کچھ یونیورسٹیاں چند خاندانوں کی ملکیت میں چل رہی ہیں، جہاں یونیورسٹی کا مالک یا تو خود ہی، یا اس کا نمائندہ، جو ان کے زیر انتظام ملازمت کرتا ہے، یونیورسٹی میں بطور سربراہ تعینات کیا جاتا ہے۔ اس طرح سیٹھوں کی قائم شدہ، ان یونیورسٹیوں میں آسامیوں کے انتخاب جیسے کسی مرحلے کا تکلف ہی نہیں کیا جاتا۔ ان اداروں میں تقرریاں خالصتاً تعلقات اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ دیگر نجی یونیورسٹیوں میں چند افراد کا ایک گروپ تقرریاں کرتا ہے، جو آپس میں قریبی دوست ہوتے ہیں اور ان آسامیوں پر بھی اپنے قریبی دوستوں کو ہی تعینات کرتے ہیں۔ چند ہی ادارے ایسے ہوں گے جہاں ان آسامیوں پر تعیناتی کے لیے کوئی نظام وضع کیا گیا ہو یا جہاں اہلیت کا خیال رکھا جاتا ہوں۔
نجی شعبے میں سربراہ یونیورسٹی کی تعیناتی کا عمل صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان اداروں کے مالکان کا بنیادی مقصد پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ جب تک وہ پیسہ کمارہے ہوتے ہیں وہ اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کی ملکیت میں یہ ادارہ کوئی یونیورسٹی بھی ہے۔ لہٰذا کوئی بھی ایسا شخص جو انہیں ان کی سرمایہ کاری سے پیسہ کما کردینے کا عہد کرے اسے سربراہ مقرر کردیا جاتا ہے۔تو اس طرح کے اداروں میں نظامِ تعلیم وتحقیق اور اساتذہ کے معیار کی جانچ کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہوگا۔
اسی لیے پاکستانی یونیورسٹیاں اگر عالمی سطح کی تحقیقی صلاحیت اور تعلیم یافتہ شہری پیدا کرنا چاہتی ہیں تو ان کو اس نظام میں بہت جلد انقلابی تبدیلی لانا ہوگی، جس کے تحت ان کے ہاں موجود تعلیمی شعبوں کے سربراہان کا تقرر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی آسامی پر تعیناتی کے لیے جس امر کا جائزہ لینا لازمی ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے یونیورسٹی کی ضرورت کی جانچ کی جائے اور پھر اس ضرورت کے مطابق کسی ماہر شخص کی تلاش کی جائے۔ ایسے تجربہ کار اساتذہ اور انتظامیہ کو اس معاملے پر غور و خوض کی دعوت دی جائے جو ان آسامیوں پر تعیناتی کے خواہش مند نہ ہوں تاکہ وہ قابلیت اور مہارت جو اس آسامی کے لیے موزوں فرد کے لیے لازم ہیں، ان کو شناخت کیا جاسکے۔ پھر اس کے بعد ایک عالمی سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جائے جس کے ارکان کے انتخاب میں یونیورسٹی کی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھاجائے۔
مثال کے طور پر اگر یہ ایک انجینئرنگ یونیورسٹی ہے تو اس کے بورڈ کے ارکان میں سے ایک تہائی ارکان عالمی سطح کے اعلیٰ انجینئر ہونے چاہییں۔ اسی طرح اگر کوئی یونیورسٹی اگر جنرل نوعیت کی ہے تو اس کے بورڈ ارکان میں مختلف شعبوں کے ماہرین کو شامل کرنا چاہیے، اور مزید برآں اس عمل کا آغاز اس وقت نہ کیا جائے جب ایک وائس چانسلر کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے قریب ہو بلکہ اس مرحلے کو وائس چانسلر کے عہدے کی مدت اختتام سے ایک سال پہلے شروع کردینا چاہیے تاکہ اس آسامی پر تعیناتی کے لیے موزوں فرد کی تلاش اور اس سے متعلق غور و خوض کے لیے کافی وقت موجود ہو۔ یونیورسٹی کیمپس کے دورے، نیز اساتذہ اور یونیورسٹی ملازمین کے ساتھ ملاقاتیں اس مرحلے کا لازمی حصہ بنائی جائیں تاکہ نہ صرف امیدواران کو یونیورسٹی کی ضروریات سے متعلق آگہی ہو بلکہ یونیورسٹی ملازمین اور اساتذہ کو بھی یہی محسوس ہو کہ وہ لوگ بھی آسامیوں پر تعیناتی کے مرحلے کا حصہ ہیں تاکہ انہیں یقین ہو کہ معاملہ شفاف طریقے سے انجام پا رہا ہے۔ مثالی صورت یہ ہوگی کہ نئے مقرر شدہ وائس چانسلر کو کچھ مہینوں تک رخصت ہونے والے وائس چانسلر کے ہمراہ کام کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ اختیارات کی منتقلی کا مرحلہ احسن طریقے سے انجام پائے۔
یہ سب کچھ اسی صورت ممکن ہے جب اچھی طرح سمجھ بوجھ، درست سمت کے تعین اور موثر طریقے کے بعد یونیورسٹی کے سربراہ کی تقرری کی جائے تاکہ کوئی بھی یونیورسٹی ایسی قائدانہ شخصیت کے زیر اہتمام رہے جو ا س کے مقاصد سے پوری طرح واقف ہو ،ورنہ اس معاملے میں بھی اختیارات ایک اندھے سے دوسرے اندھے کے ہاتھ منتقل ہوتے رہیں گے۔یونیورسٹیوں کو بہتر نظام کے تحت چلانے کے لیے لازمی ہے کہ اس کے سربراہ کی تعیناتی کا عمل موثر اور شفاف طریقے سے انجام دیا جائے۔
(بحوالہ: ’’تجزیات ڈاٹ کام‘‘۔ یکم اپریل ۲۰۱۹ء۔ ترجمہ: شوذب عسکری)
Leave a Reply