انسانی حقوق پر دہرے امریکی معیارات
Posted on February 16, 2012 by Abdel Aziz Aluwaisheg in شمارہ 16 فروری 2012 // 0 Comments

سیاست میں دہرا معیار کوئی نئی بات نہیں۔ بات انسانی حقوق کی ہو تو دعووں اور حقائق کے درمیان فرق بڑھ جاتا ہے۔ اس حوالے سے امریکا پر غیر معمولی نکتہ چینی معمول کی بات ہوتی جارہی ہے جو کسی ایک مقام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا رونا روتا رہتا ہے اور دوسرے مقام پر، اپنے مفادات کی خاطر، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو درست گردانتا ہے۔
کیا انسانی حقوق کے حوالے سے یہ تنقید درست اور صحیح ہے؟ ہیومن رائٹس واچ کی جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ اس سوال کا بہتر جواب دے سکے گی۔ کم ہی حکومتیں انسانی حقوق کا سوال اُس طرح اٹھاتی ہیں جس طرح امریکا اٹھاتا رہا ہے۔ امریکا نے مختلف معاملات میں انسانی حقوق کا معیار اپنے لیے کچھ اس انداز سے مقرر کر رکھا ہے کہ اس کے ناقدین بھی اب اس کی کارکردگی کو اس معیار کے پیمانے ہی سے ناپنے لگے ہیں۔
کارٹر دور سے اب تک امریکا انسانی حقوق کو خارجہ پالیسی کی بنیاد بناتا آیا ہے یعنی اگر کوئی ملک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہو تو امریکا سے اس کے تعلقات شدید متاثر ہوتے ہیں۔ عوام بھی اس حوالے سے پالیسی کی تبدیلی کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہر امریکی حکومت اسی بنیاد پر خارجہ پالیسی ترتیب دیتی آئی ہے۔ اسی بنیاد پر دوست اور دشمن کا تعین ہوتا ہے۔
اس وقت امریکی محکمہ خارجہ میں انسانی حقوق سے متعلق سیکشن شاید اس نوعیت کا دنیا میں سب سے بڑا بیورو ہے۔ بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر امریکی محکمہ خارجہ کا انتہائی اہم حصہ ہے۔ اس کے سربراہ انسانی حقوق کے سابق وکیل اور نیو یارک میں قائم تنظیم ہیومن رائٹس فرسٹ کے سربراہ مائیکل پوزنر ہیں۔
بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر ہر سال مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے مضحکہ خیز رپورٹس جاری کرتا ہے مگر کبھی اس حوالے سے اپنائے جانے والے دہرے معیار کی بات نہیں کرتا۔ ان رپورٹس میں صاف جھلکتا ہے کہ جن ممالک سے امریکی مفادات جڑے ہوئے ہوں ان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بھی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔ امریکا انسانی حقوق کے حوالے سے جو رپورٹس جاری کرتا ہے انہی کی بنیاد پر دنیا کو یہ دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے اداروں کو کس طور استعمال کرتا ہے۔
امریکا کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ نے ۲۲ جنوری کو جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں ایسے کئی نکات موجود ہیں جن کی مدد سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی پالیسیوں میں دہرا معیار کس حد تک ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے لکھا ہے کہ:
٭ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں امریکا میں، مختلف بہانوں سے، لوگوں کو غیر معمولی حد تک پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سزائیں سنانے کے معاملے میں بھی نسل پرستی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
٭ امریکا میں ہر سال محض داخلی سلامتی کے نام پر تین لاکھ سے زائد افراد کو تحویل میں لیا جاتا ہے جبکہ ان سے ملک کی سلامتی کو بظاہر کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
٭ گوانتا نامو بے میں امریکی جیل یا حراستی مرکز میں سیکڑوں افراد کو کسی جواز اور قانونی کارروائی کے بغیر حراست میں رکھا گیا ہے۔ اس حراستی مرکز کو وعدے کے باوجود بند نہیں کیا گیا۔
٭ امریکا میں ملٹری ٹریبونل کے تحت بھی کارروائی ہوتی ہے مگر ان ٹریبونل کی تشکیل اور ان کے طریق کار میں شدید نوعیت کی خامیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔
٭ امریکی جیلوں اور حراستی مراکز میں جن لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ اگر انصاف کے حصول کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیں تو ان کی راہ میں دیوار کھڑی کی جاتی ہے۔
٭ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکا میں کم و بیش ۴ کروڑ ۶۰ لاکھ افراد غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ المناک بات یہ ہے کہ اس معاملے میں نسلی اور ثقافتی فرق نمایاں ہے۔ سیاہ فام اور غیر مغربی نسلوں میں غربت کی سطح انتہائی بلند ہے۔
یہ حقائق ہیومن رائٹس واچ نے جاری کیے ہیں جو امریکی تنظیم ہے جس پر اکثر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ امریکی معاشرے اور حکومت کی خامیوں کو اجاگر کرنے سے گریز کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی بعض اوقات کارگر ثابت ہوتی ہے کہ اور کئی ممالک کی پالیسیوں کو درست کرنے میں اس سے خاصی مدد ملی ہے مگر بہتر یہ ہوگا کہ امریکی حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے پہلے اپنا قبلہ درست کرے۔
(بشکریہ: ’’عرب نیوز ڈاٹ کام‘‘۔ ۲۹ جنوری ۲۰۱۲ء)
Related Posts
Leave a comment