امریکا کے صدارتی انتخاب اور مسلمان

امریکا ۵۱ ریاستوں کا ایک اتحاد ہے۔ اس اتحاد کی اکائیاں اپنی آبادی رقبے اور سیاسی و معاشی اثر و رسوخ کے لحاظ سے انتہائی غیرمتناسب ہیں‘ مگر ایک قومی جذبے نے ان سب کو متحد کر رکھا ہے۔ امریکی ریاستوں کی آبادی کے لحاظ سے ان کے الیکٹورل ووٹ شمار ہوتے ہیں۔ کل ووٹ ۵۳۸ ہوتے ہیں۔ جیتنے کے لیے ۲۷۰ یا زائد ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ پچھلے انتخاب میں بش کے پورے ۲۷۰ الیکٹورل ووٹ تھے۔ کم از کم کسی ریاست کے تین ووٹ ہیں‘ جس میں الاسکا‘ نارتھ ڈکوٹا اور سائوتھ ڈکوٹا اور کئی دیگر چھوٹی ریاستیں شامل ہیں‘ زیادہ ووٹوں والی ریاستیں ترتیب وار یہ ہیں۔ کیلیفورنیا ۵۵‘ ٹیکساس ۳۴‘ نیویارک ۳۱ اور فلوریڈ ۲۷۱ پچھلے انتخاب میں پاپولر ووٹ الگور کے زیادہ تھے۔ اس نے پانچ کروڑ ننانوے لاکھ ۲۳ ہزار اور بش نے پانچ کروڑ ۴۵ لاکھ ۵۱ ہزار عوامی ووٹ حاصل کیے مگر انتخابی طریقِ کار نے بش کو جتوا دیا۔

امریکا میں ہر چار سال بعد صدارتی انتخاب منعقد ہوتے ہیں۔ انتخابات کا لیپ کا سال ہوتا ہے اور انتخاب کی تاریخ مستقل طور پر متعین ہے۔ ماہِ نومبر کے پہلے پیر کے بعد جو منگل آتا ہے وہ الیکشن ڈے ہوتا ہے۔ اس مرتبہ ۲ نومبر کو امریکی صدارتی انتخاب ہو رہا ہے۔ یہ امریکی تاریخ کا ۵۵واں صدارتی انتخاب ہے۔ پہلا انتخاب ۱۷۸۹ء میں ہوا‘ جس میں باباے قوم جارج واشنگٹن کو غیرجماعتی بنیاد پر منتخب کیا گیا‘ پھر تین سال بعد ۱۷۹۲ء میں وہ دوسری مرتبہ منتخب ہوئے۔ اس مرتبہ وہ فیڈرلسٹ جماعت کے امیدوار تھے۔ مگر انتخابی طریق کار ایسا تھا کہ کسی جماعت کا ایک دوسرا امیدوار بھی میدان انتخاب میں تھا اور مقابلے پر دیگر تین وفاق مخالف امیدواروں نے بھی انتخاب لڑا۔ اس مرتبہ بھی جارج واشنگٹن جیت گیا۔

جارج واشنگٹن نے دستور میں یہ بات طے کرا دی کہ کوئی شخص دو سے زیادہ مرتبہ صدارت کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا۔ نیز انتخاب ہر حال میں چار سال بعد ہوا کرے گا۔ اس نے خود یہ مثال قائم کر دی کہ لوگوں کے اصرار کے باوجود تیسری مرتبہ انتخاب لڑنے سے انکار کر دیا۔ دو مرتبہ سے زیادہ صدارتی منصب کا مزا لوٹنے کی دو افراد نے کوشش کی۔ حسنِ اتفاق سے دونوں ہی روز ویلٹ تھے اور دونوں کا زمانہ جنگِ عظیم اول اور دوم کے قریب قریب تھا۔ پہلا روز ویلٹ (تھیوڈور) ریپبلکن تھا‘ اس کا تعلق نیویارک سے تھا۔ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا‘ البتہ دوسرا فرینکلن روز ویلٹ‘ جو ڈیموکریٹ اور نیویارک ہی کا باسی تھا‘ چار مرتبہ صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ آخری ٹرم کے دوران ۱۲ اپریل ۱۹۴۵ء کو وہ یہ معیاد مکمل کرنے سے قبل ہی فوت ہو گیا۔ امریکی تاریخ میں اس حوالے سے یہی ایک استثنا ہے۔

امریکا کا موجودہ صدر جارج ڈبلیو بش ۴۳ واں صدر ہے۔ (بش کو اگر عراق اور افغانستان میں اس کی توقعات کے مطابق سازگار ماحول میسر آجاتا تو وہ بھی دوسری کے بعد تیسری میعاد کے لیے ہاتھ پائوں مارتا‘ مگر اب تو اپنے باپ کی طرح دوسری میعاد بھی کھو رہا ہے)۔ کئی صدور ایک سے زیادہ مرتبہ صدر رہے۔ اس مرتبہ انتخابی معرکہ حسبِ معمول ریپبلکن اور ڈیمو کریٹس کے درمیان ہے۔ اول الذکر کی نمائندگی کے لیے صدر بش نے اپنی پارٹی سے منظوری حاصل کر لی ہے۔ جب کہ موخر الذکر نے سینٹر جان ایف کیری کو اپنا نمائندہ نامزد کیا ہے۔ دونوں کے درمیان تاحال رائے دہندگان کی آزمائشی رائے شماری کرانے والے اداروں کی رپورٹوں کے مطابق کافت سخت اور قریبی مقابلہ ہے۔ اب تک بش کے مقابلے پر کیری کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ان سطور کی تحریر کے وقت وہ بش سے پانچ پوائنٹ آگے ہے۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ اور اے بی سی کے مشترکہ سروے میں ۵۲ فیصد لوگوں نے کیری کو اور ۴۱ فیصد نے بش کو قابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ تاہم رائے عامہ کی ایک بڑی تعداد‘ جو آخر وقت تک تذبذب کا شکار رہتی ہے کسی وقت بھی انگڑائی لے کر کسی پلڑے میں اپنا وزن ڈال سکتی ہے۔

امریکی آبادی کے بارے میں ہمارے یہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی لحاظ سے بڑے بیدار مغز اور سمجھ دار ہیں۔ مگر یہ کوئی زیادہ درست بات نہیں۔ امریکیوں کی ایک قلیل تعداد ہوشیار باخبر اور صاحبِ مطالعہ ہے۔ کثیر تعداد اپنی ذات‘ کام اور دلچسپیوں سے زیادہ دنیا کی کسی چیز‘ بلکہ خود امریکا کو بھی پوری طرح نہیں جانتی۔ پچھلے انتخاب میں بڑی گہما گہمی پیدا ہوئی‘ تو بھی ووٹوں کا ٹرن آئوٹ ۳ء۵۱ کروڑ ۶۴ لاکھ تھا۔ ایک بڑی تعداد آخری وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی۔ بش اور اس کے ساتھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اسامہ ہاتھ آجائے تو انتخاب کا پانسہ پلٹ جائے۔

امریکا میں روایتی طور پر بعض ریاستیں ڈیمو کریٹک اور بعض ریپبلکن کی حامی سمجھی جاتی ہیں مگر کئی ریاستیں اس ضمن میں آزاد ہیں اور ہمیشہ پیش آمدہ ایشوز اور مسائل نیز امیدواروں کے منشور اور مہم کو دیکھ کر فیصلہ کرتی ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے امیدوار اپنی مہم میں رائے دہندگان کی دکھتی رگ کو چھیڑنے کے ساتھ اپنے مخالف کے منفی کردار اور کمزوریوں کو بھی خوب اجاگر کرتے ہیں۔ جان کیری کی شخصیت چنداں پرکشش نہیں‘ مگر وہ اچھا مقرر ہے اور اس کا نائب صدر جان ایڈورڈ بہت بڑا خطیب ہے‘ جب کہ بش خود بھی ماٹھا سا مقرر ہے اور اس کا نائب صدر ڈک چینی تو سوائے بے پناہ دولت کے کسی بھی ذاتی خوبی سے عاری ہے (بحوالہ پیٹر پریسٹن گارڈین‘ ڈان ۱۷ اگست ۲۰۰۴ء)۔ پارٹی ورکرز کے علاوہ دونوں جانب کرائے پر انتخاب مہم چلانے والی لابیز اور ایجنسیاں بھی اس کام میں سرگرمِ عمل ہو جاتی ہیں۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پورے امریکا میں یہودی ۴۵ لاکھ کے لگ بھگ ہیں‘ مگر وہ اپنی اصل تعداد کا کم ہی اظہار ہونے دیتے ہیں۔ ورلڈ المینک ایڈیشن ۲۰۰۱ء کے مطابق پوری دنیا میں یہودیوں کی کل تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے۔ اسرائیل میں ان کی آبادی ۴۹ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ روس اور دنیا کے دیگر ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں۔ امریکی انتخاب میں وہاں کی محدود اقلیت یہودی بلکہ صیہونی لابی بڑا موثر کردار ادا کرتی ہے۔ وہ بینکوں اور مالیاتی اداروں‘ ذرائع ابلاغ‘ کاروبار اور معیشت‘ صنعت و تجارت اور سول و فوجی بیورو کریسی کے علاوہ کانگریس‘ سینیٹ اور ریاستی گورنروں میں بھی بہت موثر رسوخ رکھتی ہے۔ امریکا اور اس کی سیاست کے سارے پیچ و خم ایک اقلیت کے کنٹرول میں ہیں۔ مسلمان اپنی آبادی کے لحاظ سے یہودیوں سے زیادہ اور امریکا میں دوسری بڑی آبادی ہیں‘ مگر ابھی تک ان کا عمل دخل محدود ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق مسلمانوں کی آبادی ۸۰ لاکھ سے متجاوز ہے‘ جبکہ جولائی ۲۰۰۲ء کے شماریاتی سرکاری گزٹ کے مطابق کل امریکی آبادی ۲۸ کروڑ ۸۳ لاکھ ۶۶ ہزار ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مسلم آبادی میں اضافے کا تناسب غیرمسلم آبادی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس موضوع پر الگ سے ایک دستاویز تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غیرمسلم آبادی میں اضافہ مسلسل کمی کا شکار ہے اور میسا چوسٹس کی عدالت نے کچھ عرصہ قبل ہم جنس پرستوں کو باہمی شادیاں کرنے کی جو اجازت دی ہے اور اس پر جس انداز میں امریکا بھر میں ایک بڑی مقامی سفید فام آبادی نے خوشیاں منائی ہیں اس سے یہ نتیجہ نکالنا چنداں مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں اس آبادی میں اضافے کے بجائے کمی کا عمل شروع ہو جائے گا۔ اس صدی کے وسط میں امریکا بالکل ایک مختلف دنیا ہو گا‘ جس کا تصور آج صاحبِ بصیرت لوگ ہی کر سکتے ہیں۔

یہودیوں کے مقابلے میں آبادی زیادہ وسائل کم اور سیاسی اثر و رسوخ انتہائی قلیل سہی‘ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکی مسلمانوں میں اپنے تشخص اور سیاسی وجود کا احساس پیدا ہو گیا ہے اور یہ بہت بڑا آغاز ہے جس کی پیش رفت آنے والے برسوں میں مزید راستے کھولے گی۔ اس مرتبہ بش کی عالمی مسلم کش پالیسی‘ اسرائیل کی حد سے بڑھی ہوئی سرپرستی بلکہ چاپلوسی اور عراق و افغانستان پر ظالمانہ یلغار نے عالمی مسلم رائے عامہ کی طرح امریکی مسلمانوں کو بھی بش مخالف بنا دیا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں ڈیمو کریٹک امیدوار البرٹ الگور کی پشت پناہی یہودی کر رہے تھے‘ جب کہ مسلمانوں کے ووٹ ہمدردیاں اور حمایت بش کو حاصل تھی۔ الگور اس مہم میں بہت زیادہ لبرل ازم کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی پرزور حمایت کا دم بھر رہا تھا۔ انتخابی نتائج میں پاپولر ووٹ اگرچہ الگور ہی کو زیادہ ملے تھے۔ مگر امریکا کا طریق انتخاب کافی پیچیدہ اور عمومی جمہوری طرز سے مختلف ہے‘ اس لیے ریاستی الیکٹورل ووٹوں کے ذریعے سیاسی کشمکش اور عدالتی جنگ کے بعد آخرکار بش صاحب وہائٹ ہائوس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

یہودی چونکہ اقتدار کے ایوانوں میں براہِ راست دسترس رکھتے ہیں اس لیے انتخابات کے بعد الگور گوشہ گمنامی میں چلا گیا‘ تو یہودی بش پر ڈورے ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کا معاملہ یہ ہے کہ چت بھی اپنی اوت پٹ بھی اپنی۔ اپنے کمتر سیاسی اثرات اور ایوانِ اقتدار میں عدم رسائی کی وجہ سے مسلمان بھی بش کی حمایت کے باوجود فراموش کر دیے گئے اور پھر نائن الیون کے بعد تو انہیں قربانی کا بکرا بننا پڑا۔ بش نے ایسی آنکھیں پھیریں کہ مسلمان حیران رہ گئے مگر امریکی سیاست اور تاریخ کو جاننے والوں کے لیے اس میں کوئی حیرانی نہ تھی۔ یہ یہودی تو اتنے طاقتور ہیں کہ پچھلی صدی کے مقبول ترین اور قابل ترین صدر رچرڈ نکس کو ایوان صدارت سے نکالنے پر مصر ہوئے تو اسے نکالے بغیر چین نہ لیا۔ اس طرح کے دلچسپ اور عبرت انگیز واقعات سے امریکی سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے۔

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*