امریکا نے شام کے معاملے میں اب تک ایسا واضح موقف نہیں اپنایا جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ شام کے عوام کو احترام دینا چاہتا ہے اور بشارالاسد انتظامیہ کے خاتمے کی صورت میں ملک کو تھوڑا بہت مستحکم کرنے کا خواہش مند ہے۔ واشنگٹن شام کے معاملے میں جس قدر صرفِ نظر کرتا جارہا ہے، ترک وزیر اعظم رجب طیب اردغان کو اُسی قدر یقین ہوتا جارہا ہے کہ امریکا نے شام کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ترکی سے امریکا کے تعلقات اچھے رہے ہیں۔ صدر براک اوباما نے ترکی کے معاملے میں اب تک ذہانت کا ثبوت دیا ہے اور رجب طیب اردغان سے بہتر روابط کے ذریعے دو طرفہ تعلقات کو عمدگی سے فروغ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکا کو مشرق وسطیٰ میں ایک اچھا اتحادی ملا ہے۔ عراق میں استحکام پیدا کرنے کے حوالے سے واشنگٹن اور انقرہ نے مل کر کام کیا ہے۔ مگر خیر، شام میں ایک بڑا طوفان ان کا منتظر ہے۔ شامی فورسز کی جانب سے ترک علاقوں پر شیلنگ کے بعد ترک حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس نے فوج کو شام پر حملے کا اختیار دے دیا ہے۔ شام میں بحران جس قدر سنگین ہوتا گیا ہے، واشنگٹن نے انتظار کرنے اور بشارالاسد انتظامیہ کے خاتمے کی راہ تکنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ انقرہ کے لیے شام کا بحران شدید نوعیت کے ہنگامی حالات میں تبدیل ہوچکا ہے۔
شام میں حکومت کے خلاف تحریک اٹھارہ ماہ سے چلائی جارہی ہے۔ انقرہ یہ سمجھتا رہا ہے کہ بشار انتظامیہ کو ختم کرنے اور منحرفین کو اقتدار سونپنے کے معاملے میں وہ اور واشنگٹن ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ اب ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات ابھر رہے ہیں۔ واشنگٹن اگر شام کے معاملے میں کچھ کرنے سے گریز کر رہا ہے تو اس کے کئی اسباب ہیں۔ نومبر میں صدارتی انتخاب سے قبل صدر اوباما کوئی نیا سیاسی اور عسکری ایڈونچر نہیں کرنا چاہتے۔ امریکی عوام جنگ سے تنگ آچکے ہیں۔ اگر امریکا نے شام پر لشکر کشی کی تو ہوسکتا ہے کہ صدر اوباما کو دوبارہ منتخب ہونے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اردغان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا نے شام کے معاملے میں جو بے حسی اپنا رکھی ہے اس پر پردہ ڈالنے کے لیے انتخابی موسم اور دیگر امور کا بہانہ تراش رہا ہے۔ ۵ ستمبر کو اردغان نے شام کے معاملے میں کچھ نہ کرنے پر صدر اوباما کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ حیرت انگیز بات تھی کیونکہ اب تک وہ اوباما پر براہِ راست تنقید کرنے سے گریز کی راہ پر گامزن رہے ہیں۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے۔ اردغان غیر ملکی رہنمائوں سے دوستی کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور تنقید اُسی وقت کرتے ہیں جب اُنہیں یقین ہو جائے کہ دوست نے مشکل میں ساتھ نہیں دیا۔
امریکا کی نظر میں شام کا بحران ایسا نہیں جس پر قابو نہ پایا جاسکے۔ مگر یہ بحران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطرناک شکل اختیار کرتا گیا ہے۔ بہتوں کے ذہنوں میں یہ خدشہ پروان چڑھتا جارہا ہے کہ شام کا حال بھی کہیں بوسنیا جیسا نہ ہو جہاں کے مسلمان سیکولر ذہن کے تھے۔ مگر جب ان پر ظلم کی انتہا کردی گئی تو باہر سے عسکریت پسند آئے اور انہوں نے سیکولر ذہن کے بوسنیائی مسلمانوں کو قائل کیا کہ ہتھیار اٹھائے بغیر ان کی بقا ممکن نہ ہوگی۔ امریکی قیادت کو یقین ہے کہ شام کے معاملات میں مداخلت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، اپوزیشن گروپ خود ہی معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر بشارالاسد انتظامیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔
حال ہی میں شامی فورسز نے ترک علاقوں پر جو شیلنگ کی ہے، اس سے ترکی کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ اب کسی کی مدد کا انتظار کرنا بے سود ہے۔ فرقہ وارانہ بنیاد پر بھی ترکی کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد شامی باشندوں نے ترکی میں پناہ لی ہے۔ ان میں اکثریت سُنّیوں کی ہے۔ ترکی کے لیے علیحدگی پسند کردستان ورکرز پارٹی بھی پریشانی کا باعث ہے۔ بشار انتظامیہ نے ترکی کے خلاف ردِ جارحیت کے طور پر کردستان ورکرز پارٹی کو شام کی حدود میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
شام کا بحران جس قدر طول پکڑے گا، اردغان کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ اندرون ملک یہ تاثر پروان چڑھے گا کہ انہوں نے ایک علاقائی بحران سے نمٹنے میں بہتر کردار ادا نہیں کیا۔ ترکی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ یہ سب کچھ ہوتا دیکھے اور شام کے بحران میں غرق ہو۔ چند ہفتوں کے دوران انقرہ کی جانب سے واشنگٹن پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ بشارالاسد انتظامیہ کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے مزید اقدامات کرے اور شام میں پناہ گزینوں کے لیے محفوظ علاقے قائم کرنے میں مدد دے۔ واشنگٹن کی جانب سے شام میں حکومت کے خاتمے سے متعلق کسی فوری اور فیصلہ کن کارروائی کا امکان نہیں۔ شام کے حوالے سے پالیسی اختلافات کے باوجود اس بات کا امکان نہیں کہ ترک امریکا تعلقات کو شدید دھچکا لگے گا۔ ترکی بہت سے معاملات میں امریکا سے دوستی کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ محض شام کے معاملے میں اختلافات کو بنیاد بناکر اُن تمام فوائد سے محروم ہونا پسند نہیں کرے گا۔
خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے ایران جو کچھ کر رہا ہے اس سے ترکی بہت پریشان ہے۔ ترکی اچھی طرح جانتا ہے کہ شام میں بشارالاسد انتظامیہ کو ایران کی بھرپور حمایت اور مدد حاصل ہے۔ عراق کے شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی کو بھی ایرانی قیادت کی بھرپور حمایت اور مدد حاصل ہے۔ نوری المالکی کو ترکی پسند نہیں کرتا۔ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر نے ترکی کو اپنی پالیسیوں میں اہم تبدیلیوں پر مجبور کردیا ہے۔ اب ترکی نے ایران کے عزائم سے پریشان ہوکر نیٹو سے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ نیٹو کو اپنے ہاں میزائل ڈیفنس سسٹم لگانے دے گا۔ یہ سسٹم کسی بھی خطرناک صورت حال میں ایران پر حملے کے لیے استعمال ہوگا۔ اس حوالے سے ستمبر ۲۰۱۱ء میں ہونے والا معاہدہ، روس اور چین سے بھی مخالفت مول لینے کے مترادف ہے۔ اوباما اور اردغان کی پالیسیوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ اب بھی ختم نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اختلاف دو طرفہ تعلقات پر کسی حد تک اثر انداز ہو۔
(“US-Turkey Ties in Jeopardy”… “Gulf News”, Dubai. Oct. 6th, 2012)
Leave a Reply