کرد امریکا اتحاد ناقابل قبول ہے!

ترک وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو کا کہنا ہے کہ شمال مغربی شام میں کرد ملیشیا کی قیادت میں سرحدی محافظوں کی فورس قائم کرنے کا امریکی منصوبہ ترکی کے ساتھ اس کے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بات انھوں نے ۱۶ جنوری کو وینکوور میں اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن سے ہونے والی ملاقات میں کہی۔

ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا امریکا کی طرف سے YPG کی امداد اور ترکی کی طرف سے امریکا میں موجود فتح اللہ گولن کی حوالگی کی درخواست جیسے معاملات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو پہلے ہی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ ’’میں نے دوٹوک الفاظ میں ٹیلرسن سے کہا کہ معاملہ (کرد سرحدی محافظ دستہ)بہت سنجیدہ ہے۔ میں نے کہا کہ یہ دو معاملات ہمارے دوطرفہ تعلقات کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں، اور ہمیں ناقابل ِواپسی راستے پر لے جاسکتے ہیں‘‘۔

چاووش اوغلو نے یہ بھی واضح کیا کہ شام میں موجود کرد فورسز کے خلاف ترکی کی احتیاطی تدابیرصرف شمال مغربی شہر عفرین تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ منبج شہر اور دریائے فرات کے مغرب تک پھیل سکتی ہیں۔

’’ہم نے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ ہم ادلب میں موجود اپنے فوجیوں اور FSA (فری سیرین آرمی) پر YPG\PKK کے حملوں کا جواب دیں گے، کسی کو ہمارے خلاف نہیں آنا چاہیے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ پینٹاگون، امریکی سینٹرل کمانڈ اور دیگر اہم امریکی اداروں اور وزارتوں کے درمیان YPG اور SDF کی مدد کرنے کے معاملے پر اختلافِ رائے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔

ماضی میں منبج اور رقہ میں داعش کے خلاف SDF کی امریکی امداد کا ذکر کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا کو’’اپنے وعدے پورے کرنے چاہییں‘‘۔

واشنگٹن کی جانب سے کیے گئے اس وعدے کہ’’ شہروں کو داعش سے آزاد کروانے کے بعد YPG کی جگہ مقامی کونسل شہروں کا نظام چلائیں گی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’منبج اور رقہ کے بارے میں کیے گئے وعدوں کا پاس نہیں رکھا گیا‘‘۔

’’امریکا کا ماضی میں کہنا تھا کہ PYD\PKK اس کے اتحادی نہیں ہیں اور وہ صرف داعش کو شکست دینے کے لیے ساتھ کام کر رہے ہیں‘‘ یہ بات انہوں نے امریکا پر زور دیتے ہوئے کہی کہ و ہ اس گروپ کی حمایت بند کرے اور وعدے کے مطابق انہیں غیرمسلح کرے۔

انہوں نے مزید کہا ’’جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں ہمارے پاس شک کرنے اور اپنی احتیاطی تدابیر کرنے کی کئی وجوہات ہیں‘‘۔

دریں اثنا امریکی قیادت میں داعش کے خلاف بننے والے اتحاد Combined Joint Task Force-Operation Inherent Resolve (OIR) کے ترجمان Ryan Dillon نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ عفرین اس اتحاد کی عمل داری میں نہیں آتا۔

ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کو بھیجے گئے تحریری بیان میں Ryan نے کہا ’’اتحاد کا مقصد عراق اور شام کے مقررہ علاقوں میں داعش کو شکست دینا اور خطّے کے استحکام کے لیے حالات سازگار بنانا ہے ‘‘۔

اسی روز پینٹاگون کی طرف سے کہا گیا کہ امریکا عفرین میںPYDکی حمایت نہیں کرتا اور اس کو داعش کے خلاف لڑائی کا حصہ نہیں سمجھتا۔ پینٹاگون کے ترجمان میجر Adrain نے انادولو کو بتایا ’’ہم اُنہیں داعش کے خلاف کارروائیوں کاحصہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔

اس سے قبل پینٹاگون نے کہا کہ امریکا شام میں سرحد کی حفاظت کے متعلق ترکی کے خدشات کو تسلیم کرتا ہے اور آئندہ ترکی کے ساتھ قریبی رابطے رکھے گا۔

۱۶ جنوری کو ہونے والی ملاقات میں ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ ’’انہوں نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل پر واضح کردیا کہ ترکی شام میں SDF کی قیادت میں کوئی فوج برداشت نہیں کرے گا‘‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ شام میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کے تناظر میں ترکی اپنی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گا۔نیٹو کے سیکٹری جنرل نے کہا کہ ترکی نیٹو کا ۶۵ سال پرانا رکن اور ایک اہم ملک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرحدی فورس کے امریکی منصوبے کے حوالے سے نیٹو سے مشورہ نہیں کیا گیا۔

(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)

“US’ YPG army plan ‘irreversibly’ harms ties with Turkey”.(“hurriyetdailynews.com”. January 17 2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*