یومِ فتح بنگلا دیش: مستقبل کا کچھ پتا نہیں!

کسی بھی قوم کے لیے آزادی سے بڑی کوئی نعمت اور اس سے قیمتی کوئی بھی اثاثہ نہیں۔ یوم فتح (۱۶ دسمبر) ہمیں اس جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جو آج کے دن بار آور ثابت ہوئی اور ہم آزاد ہوئے۔ جن لوگوں نے آزادی کے لیے جان قربان کردی آج انہیں یاد کرنا ہے۔ ان کی ارواح ہم سے کہہ رہی ہیں کہ تمہارے کل کے لیے ہم نے اپنا آج قربان کردیا۔

آج حقیقی مسرت محسوس کرنے کا موقع ہے مگر اس سے بڑھ کر ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال بھی تو کرنا ہوگا کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد قائم ہونے والی عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی منتخب حکومتوں نے ملک کے لیے سنجیدگی اور لگن سے کیا کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ یہ کس نوعیت کی حکومت ہے کہ آزادی کے چالیس سال بعد بھی سیکڑوں افراد کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ اخبارات میں بہتوں کے اچانک غائب ہو جانے کی روح فرسا خبریں نمودار ہو رہی ہیں جن سے عوام میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔ کل (۱۵ دسمبر ۲۰۱۱ء) کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ضلع منشی گنج میں گمشدگی اور قتل کی متعدد وارداتیں تواتر سے ہو رہی ہیں۔ آٹھ دنوں میں پولیس نے سات لاشیں برآمد کی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ سادہ کپڑوں میں سرکاری اہلکاروں نے متعدد افراد کو حراست میں لیا۔ یوں پراسرار انداز سے لوگوں کو حراست میں لیے جانے اور بعد میں ان کی لاشوں کے برآمد ہونے سے انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار گروپوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔

گیارہ ماہ کے دوران ۲۲ افراد لاپتا ہوئے ہیں اور ان میں سے صرف ۱۰ کی لاشیں مل سکی ہیں۔ گزشتہ برس (۲۰۱۰ء میں) ۱۸ افراد لاپتا ہوئے تھے۔ اس سے ملک میں انسانی حقوق اور امن و امان کی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ حراست میں لیے جانے کے بعد مقابلے یا آمنے سامنے فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتیں واقع ہونے کے بعد لاشیں ورثا کو مل جاتی تھیں۔ اب لوگوں کے لاپتا ہو جانے کے نتیجے میں آخری رسوم کی انجام دہی بھی ناممکن ہوگئی ہے۔

گمشدگی کے بیشتر واقعات میں یہی جاننے کو ملا ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اہلکار بتایا۔ مغویوں میں چند ایک کی لاشیں مل سکی ہیں۔ لاپتا ہونے والے متعدد افراد کا خاصی مدت گزرنے کے بعد بھی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ لاپتا افراد کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ لاپتا ہونے والے افراد کے متعلقین اب اپنے پیاروں سے دوبارہ مل پانے کی ساری امید کھو بیٹھے ہیں۔ انہیں یقین ہی نہیں کہ وہ اپنے پیاروں کو دفنا بھی سکیں گے۔

اپوزیشن کی مرکزی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی جانب سے پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کے باعث جاتیہ سنگ سَد (قومی اسمبلی) ڈھنگ سے کام نہیں کر پارہی۔ بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء نے ۱۰ دسمبر کو بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے ان کی پارٹی کی جانب سے دیئے جانے والے تین ہزار نوٹسز میں سے ایک بھی وصول اور قبول نہیں کیا۔ بی بی سی نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ عوامی لیگ نے بھی جب وہ اپوزیشن میں تھی پارلیمنٹ کا ایک سال تک بائیکاٹ کیا تھا جو 5 فروری ۲۰۰۶ء کو مکمل ہوا تھا۔

ماضی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مملکت کو چلانے سے متعلق امور سے وابستہ افراد میں غیر معمولی ایمانداری تھی اور وہ اپنے اصولوں پر کچھ ایسی سختی سے کاربند رہتے تھے کہ کرپشن کے بارے میں سوچنا بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ شیر بنگلہ مولانا بھاشانی، حسین شہید سہروردی، شیخ مجیب اور ضیاء الرحمٰن کے کٹّر مخالفین بھی ان کی ایمانداری کے حوالے سے کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں عوامی لیگ نے انتخابی منشور ’’اے چارٹر فار چینج‘‘ کے عنوان سے جاری کیا جس میں کرپشن کے خاتمے اور سیاسی اصلاحات پر زور دیا گیا تھا۔ اب یہ الفاظ سراسر کھوکھلے معلوم ہوتے ہیں۔ موجودہ (عوامی لیگ) حکومت نے نگراں حکومتوں کے نظام کو مسترد کرکے پینڈورا بکس کھول دیا ہے۔ ۱۰ مئی ۲۰۱۱ء کو سپریم کورٹ آف بنگلہ دیش نے آئین کی تیرویں ترمیم کو تبدیل کرکے نگراں حکومتوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تاہم ساتھ ہی ساتھ مزید دو پارلیمانی انتخابات نگراں حکومت کے تحت کرانے کی اجازت بھی دی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے دوسرے حصے کو عوامی لیگ نے پارلیمنٹ میں ختمکردیا۔ یہ اقدام سیدھے لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ شفاف انتخابات کے انعقاد کی راہ مسدود اور شورش کی راہ کھول دی گئی ہے کیونکہ ملک میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو عوامی لیگ کو پسند نہیں کرتے۔

ملک کے قیام کی چالیسویں سالگرہ پر ہمیں عوامی لیگ کی کمزور خارجہ پالیسی، بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ، اسٹاک مارکیٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تیس لاکھ افراد کے معاشی معاملات پر مرتب ہونے والے اثرات، حکومت کے بڑھتے ہوئے اندرونی قرضوں، زر مبادلہ کے تیزی سے سکڑتے ہوئے ذخائر اور معیشت کی مجموعی صورت حال پر شدید تشویش ہے۔ جب تک حکمران درست اور منصفانہ انداز سے کام نہیں کریں گے تب تک ہمیں کسی بھی معاملے میں امید کا دامن تھامنے کی تحریک نہیں ملے گی۔

(اداریہ، ہفت روزہ ’’ہالیڈے‘‘ بنگلہ دیش۔ ۱۶؍دسمبر ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*