آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے سُن زو (Sun Tzu) اور کلازوز (Clausewitz) کے مطالعے یا سخت ترین موسمی حالات کے تحت حاصل کی جانے والی تربیت سے جو کچھ سیکھا تھا اسے بروئے کار لاتے ہوئے آج کل نقشے تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
پارلیمان نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے نیٹو کو غیر عسکری رسد پاکستان کے راستے افغانستان پہنچانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس قرارداد کی منظوری سے حمید گل کا کام بڑھ گیا ہے۔
دفاع پاکستان کونسل درجنوں مذہبی گروپوں کا مجموعہ ہے جس کے قیام کا بنیادی مقصد حکومت پر امریکا سے تعلقات ختم کرنے اور بالخصوص نیٹو رسد بحال نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔ دفاع پاکستان کونسل کے قیام کی پشت پر جہادیوں کی بھرپور حمایت موجود ہے مگر اس کے بیشتر مرکزی امور حمید گل کے ہاتھ میں ہیں۔ اب وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی رسد کا راستہ روکنے کے لیے ہزاروں نوجوانوں اور سابق جہادیوں کو بروئے کار لانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل نے صاف کہہ دیا ہے کہ پارلیمان کی قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں اور نیٹو رسد کو ہر مقام پر روکا جائے گا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پارلیمانی قرارداد کی حمایت کی تو ہے مگر ساتھ ہی انہوں نے نیٹو رسد بحالی کی مخالفت کا اعلان بھی کیا ہے تاکہ اپنے حلقے کے لوگوں کی ناراضی سے بچا جاسکے۔
دفاع پاکستان کونسل کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی سے چمن اور طورخم تک مختلف چیک پوائنٹس کا نقشہ تیار کرلیا گیا ہے جہاں نیٹو رسد کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
حمید گل کے منصوبے کے مطابق ہزاروں نوجوان صرف نیٹو رسد کے کنٹینروں کا راستہ روکیں گے۔ کراچی سے طورخم تک کا راستہ اڑتالیس گھنٹے کا ہے لیکن اگر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو ایک کنٹینر کو طورخم تک پہنچنے میں ایک ماہ لگ سکتا ہے۔ اِس تاخیر سے رسد کا مقصد فوت ہوسکتا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل نے نوجوانوں کو کنٹینروں کو نذر آتش کرنے کا حکم نہیں دیا مگر جب کہیں درجنوں کنٹینر پارک کیے جائیں گے تو شرپسند عناصر کے ہاتھوں انہیں آگ لگائے جانے اور لوٹے جانے کا امکان موجود رہے گا۔ عسکری امور کے ماہر بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر کہتے ہیں۔ ’’نیٹو رسد کی راہ ہموار رکھنا اور کنٹینروں کو تحفظ فراہم کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا امتحان ہے۔ یہ حکومت کے لیے خاصی پریشان کن صورتحال ہے۔ عام طور پر جب کوئی گروپ اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو حکومت کو اپنی عملداری قائم رکھنے کے لیے طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان میں امریکا مخالف جذبات کی لہر کو دیکھتے ہوئے حکومت طاقت استعمال نہیں کرسکتی بلکہ اسے دفاع پاکستان کونسل اور ایسے ہی دیگر گروپوں سے بات کرنا پڑے گی‘‘۔
انصار الامہ (سابق حرکت الانصار) کے سربراہ اور دفاع پاکستان کونسل کے رہنما فضل الرحمٰن خلیل کا کہنا ہے کہ لاکھوں پاکستانی پرامن طریقے سے نیٹو رسد کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا نے ڈرون حملے روکنے سے انکار کردیا ہے مگر اس کے باوجود پارلیمان نے نیٹو رسد بحال کرنے کی قرارداد منظور کرلی جو شرمناک بات ہے۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دفاع پاکستان کونسل کی جانب سے نیٹو رسد کی راہ روکنے کا اعلان زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعلان ایک بڑے برفانی تودے کا محض سِرا ہو۔ دفاع پاکستان کونسل کے ڈانڈے نائن الیون کے بعد تشکیل پانے والی پاک افغان دفاع کونسل سے جا ملتے ہیں۔ بعض علما کے مطابق امریکا کی افغانستان میں مداخلت کے نتیجے میں پاک افغان دفاعی کونسل قائم ہوئی جو دراصل جنرل پرویز مشرف کو امریکا کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت، سلالہ چیک پوسٹ کا سانحہ اور نیٹو رسد کی بندش وہ معاملات تھے جنہوں نے دفاع پاکستان کونسل کو پھر زندگی بخش دی۔ مقصد صرف ایک ہے… ’’امریکا کے مفادات پر ضرب لگائی جائے‘‘۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دفاع پاکستان کونسل کے احیا میں مرکزی کردار حافظ محمد سعید نے ادا کیا جنہوں نے اپنے ایک معتمد یحییٰ مجاہد کو اکوڑہ خٹک بھیج کر مولانا سمیع الحق سے اس سلسلے میں تعاون کی درخواست کی۔ گزشتہ برس جب یحییٰ مجاہد نے مولانا سمیع الحق کے سامنے یہ معاملہ رکھا تو وہ چند ہی لمحات میں رضامند ہوگئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایسے کسی موقع کے منتظر تھے۔
دفاع پاکستان کونسل مختلف اذہان رکھنے والوں کا مجموعہ ہے۔ حافظ سعید اور فضل الرحمٰن خلیل کو سخت گیر تصور کیا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نرم خُو ہیں۔ ایک فرد پر مشتمل شیخ رشید اور اعجازالحق کی جماعتیں بھی اس فورم سے اپنے لیے تھوڑا بہت وقار یقینی بنانا چاہتی ہیں اور پھر حمید گل بھی ہیں۔ ذرائع کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی دفاع پاکستان کونسل کی باضابطہ سرپرستی کرکے اپنے سینے پر ایک اور ’’تمغہ‘‘ سجانے کے لیے تیار نہیں مگر اس کے بعض افسران اس اتحاد کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
فضل الرحمن خلیل کہتے ہیں ’’پاکستان میں جب بھی کچھ ہوتا ہے تو لوگ سازش کا نظریہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ دفاع پاکستان کونسل کی تشکیل میں خفیہ اداروں کا کوئی کردار نہیں۔‘‘ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ دفاع پاکستان کونسل کو اندرون ملک و بیرون ملک خبروں میں بھی جگہ مل رہی ہے۔ میڈیا کی توجہ سے دفاع پاکستان کونسل کی سرگرمیوں کی عمدہ رپورٹنگ بھی ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو امریکا سے معاملات طے کرنے کے معاملے میں بہتر پوزیشن کا حامل بناسکتا ہے۔
۲۰۰۱ء میں پاک افغان دفاعی کونسل کے جانباز نوجوانوں نے علما سے درخواست کی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کردیں۔ اس خطرناک صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل بنائی گئی۔ اس اتحاد کی تشکیل کا بنیادی مقصد غیر معمولی جذبات کی شدت کو قابو میں کرنا اور سیاسی انداز سے استعمال کرنا تھا۔
ملک ایک بار پھر انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ دفاع پاکستان کونسل کے بطن سے مذہبی جماعتوں کا ایک اور اتحاد جنم لے سکتا ہے۔ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس نئے اتحاد کو کون سی اندرونی اور بیرونی قوتیں اپنی حمایت اور تعاون سے نوازیں گی۔ فضل الرحمن خلیل کہتے ہیں ’’اب تک تو دفاع پاکستان کونسل کو انتخابی اتحاد میں تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اگر اتحاد میں شامل چند جماعتیں آپس میں اتحاد قائم کرلیں تو یہ ان کا حق ہے‘‘۔
(“War Mapping”… “Friday Times”….
April 20-26th, 2012)
Leave a Reply