امریکا نے بیک وقت تین محاذوں پر جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ایک طرف وہ مشرق وسطیٰ میں شام، لبنان اور ایران سے بر سر پیکار ہے، دوسری طرف اس نے مشرق بعید میں چین کے خلاف محاذ آرائی سے گریز نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اور تیسری طرف وہ روس سے بھی نبرد آزما ہے۔
روس میں حکومت کا تختہ الٹنے کی امریکی کوششیں اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکی کانگریس اور خفیہ ادارے مل کر روس میں کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کے درپے ہیں جو امریکی مفادات کی نگراں اور ضامن ہو۔ روس اب بھی رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کا ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ اس قدر بڑا ہے کہ وہ امریکا کی جانب سے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مصر میں حال ہی میں غیر سرکاری تنظیموں کو لگام دینے کی کوشش کی گئی تاکہ جمہوریت کے خلاف کسی بھی سازش کو ناکام بنایا جاسکے۔ روس کی پارلیمنٹ ڈوما نے بھی حال ہی میں ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ امداد دینے والے غیر ملکی اداروں کو غیر ملکی ایجنٹس کی حیثیت سے شناخت کیا جائے۔ ایسا ہی قانون امریکا میں بھی بہت پہلے سے نافذ ہے۔
روسی اپوزیشن کے بیشتر ارکان غیر ملکی امداد پانے والے ایجنٹس ہیں۔ اگر قانون نافذ ہوگیا تو ان سب کو روسی وزارتِ قانون کے سامنے تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ امریکا سے امداد پانے والے ایجنٹس ہیں۔ روس کی اتار تاس (Itar-Tass) نیوز ایجنسی نے ۳ جولائی کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ روس کی سیاست میں سرگرم اور بیرونی امداد سے کام کرنے والی تنظیموں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ اگر امریکا میں روسی امداد سے کام کرنے والی ایک ہزار سے زائد تنظیمیں کٹھ پتلی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہوتیں تو؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تنظیموں کو یہودیوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔
انسانی حقوق کی سر بلندی کی آڑ میں روس میں امریکی امداد سے کام کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ روس میں کھلے معاشرے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ امریکی امداد سے کام کرنے والے ان روسی ایجنٹوں کے نزدیک ’’اوپن رشیا‘‘ سے مراد ایسا روس ہے جس میں امریکی پالیسیوں کو اہمیت دی جائے، امریکی مفادات کی نگراں حکومت قائم کی جائے، مغرب کو روسی معیشت پر اثر انداز ہونے اور اسے شدید نقصان پہنچانے کا موقع دیا جائے اور روسی پالیسیوں کو مغربی مفادات کے تابع بنادیا جائے۔
جنہیں ہم ’’غیر سرکاری تنظیمیں‘‘ کہتے ہیں وہ اچھی خاصی سرکاری تنظیمیں ہوتی ہیں۔ امریکا کی امداد سے کام کرنے والی غیر ملکی تنظیموں نے سابق سوویت ریاستوں میں امریکی مفادات کی نگراں کٹھ پتلی حکومتوں کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کو بغاوت کی مشینیں بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اب یہ تنظیمیں وینزویلا میں ہوگو شاویز کے خلاف کام کر رہی ہیں۔
امریکا اس بات پر چراغ پا ہے کہ عسکری طور پر مستحکم روس میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے اور اپنے مفادات کی نگراں پالیسیاں نافذ کرانے سے متعلق اس کی کوششیں روسی حکومت نے عمدگی سے ناکام بنائی ہیں۔ دو عشروں کی محنت رائیگاں ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روسی قیادت جاگ اٹھی ہے اور اب امریکی امداد سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ امریکا میں کام کرنے والی تنظیموں کو اگر بیرون ملک سے فنڈ مل رہے ہوں تو انہیں غیر ملکی ایجنٹس کی حیثیت سے رجسٹر کرانا پڑتا ہے۔ صرف اسرائیل سے ملنے والی فنڈنگ کو رجسٹریشن سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس واضح امتیازی رویے کے باوجود امریکا نے غیر ملکی امداد سے کام کرنے والی تنظیموں کو بیرونی غیر ملکی ایجنٹس کی حیثیت سے رجسٹر کرانے کے قانون کو غیر جمہوری اور پولیس اسٹیٹ کی علامت قرار دینے سے گریز نہیں کیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ امریکا روسی قیادت کو گالیاں دیتا ہے اور مغربی دنیا ان گالیوں اور الزامات کو درست بھی تسلیم کرلیتی ہے۔
اب چین بھی امریکا کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت امریکا کو اپنے وجود اور برتری کے لیے سنگین خطرہ محسوس ہو رہی ہے۔ امریکا کے تجارتی نمائندے دو تین سال سے خفیہ طور پر ٹرانس پیسیفک تجارتی معاہدے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد چین کی فطری معاشی قیادت کی راہ میں دیوار کھڑی کرنا اور چین کے زیر اثر خطے میں اپنی معاشی برتری قائم کرنا ہے۔ معاشی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے امریکا نے ایشیا میں عسکری موجودگی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فلپائن، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، ویت نام، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں نئے فوجی اڈے قائم کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے۔
ویت نام اور فلپائن سے چین کے تنازعات چل رہے ہیں۔ ان میں بھی امریکا کود پڑا ہے۔ اس نے ویت نام سے پرانی مخاصمت بھلاکر چین کے مقابلے میں اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تاکہ اسٹریٹجک سطح پر چین کو زیادہ سے زیادہ دباؤ میں رکھا جاسکے۔ جزائر کے مسئلے پر پائے جانے والے تنازعات کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا پولینڈ اور جرمنی کے درمیان تھا۔ امریکا بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔
چین نے اب تک امریکا سے خاصا دوستانہ اور مثبت رویہ اس لیے روا رکھا ہے کہ اس کی ترقی میں امریکی اداروں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ Offshoring نے چینی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اسے جدید امریکی اور مغربی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں خاصی معاونت کی۔ چین نے جدید ترین رجحانات امریکا اور یورپ سے پائے اور اپنی معیشت کو مستحکم کیا۔ امریکیوں نے یہ سمجھا تھا کہ آؤٹ سورسنگ سے کچھ بچت ہو جائے گی مگر اس کا نقصان بھی انہیں اٹھانا پڑا ہے۔ امریکی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور چین اپنے آپ کو مستحکم تر کرتا جارہا ہے۔
چینی قیادت کو بھی اب احساس ہوچلا ہے کہ امریکا اس کے زیر اثر علاقے میں اپنا اثر قائم کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے اس کی عسکری مہم جوئی کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ واشنگٹن سمجھتا ہے کہ دائرۂ اثر صرف اس کا ہے اور یہ دائرہ پوری دنیا پر محیط ہے۔ یعنی کسی اور کو طاقتور ہونے کا حق حاصل نہیں۔
۱۴؍ جولائی کو چینی خبر رساں ادارے سنہوا (Xinhua) نے کہا کہ امریکا چین کے معاملات میں غیر معمولی حد تک مداخلت کر رہا ہے اور ویت نام اور فلپائن سے اس کے تنازعات کو اس حد تک الجھا رہا ہے کہ اُنہیں سلجھانا ممکن نہ رہے۔
امریکا نے تین محاذوں پر جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ شام، ایران اور لبنان کے ساتھ وہ مشرق وسطیٰ میں الجھا ہوا ہے۔ مشرق بعید میں وہ اس نے چین سے معاملات بگاڑ رکھے ہیں اور یورپ میں وہ روس سے نبرد آزما ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا ۹ سال تک لڑنے کے باوجود عراق کو کنٹرول نہ کرسکا اور گیارہ سال بھی افغانستان میں اپنے سے کہیں کمتر دشمن طالبان کو پچھاڑنے کے قابل نہیں ہوسکا ہے۔ نیٹو میں امریکا کے ہم نوا ممالک اب افغان جنگ سے اُکتا چکے ہیں۔ ان کی معیشتوں کو زوال کا سامنا ہے اور سیاسی سطح پر بھی ان میں اعتماد کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔
(“War on all Fronts”… “Global Research”. July 18th, 2012)
Leave a Reply