اسرائیل اور ایران کے درمیان ممکنہ جنگ کے حوالے سے اخبارات و جرائد میں مضامین کی اشاعت اور الیکٹرانک میڈیا پر تجزیے بہت دلچسپ ہیں۔ بیشتر مضامین اور تجزیوں میں جنگ کے ممکنہ منظرنامے اور ٹائمنگ بھی دی گئی ہے اور دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ ان تجزیوں اور مضامین کی بنیاد سرکاری بیانات اور خفیہ اداروں کی رپورٹس ہیں۔ یہ مضامین اور تجزیے پڑھ اور سُن کر تو ایسا لگتا ہے جیسے جنگ بس ہوا ہی چاہتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے تجزیوں کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا انتہائی دشوار ہے کہ جنگ واقعی ممکن بھی ہے یا نہیں۔ اسرائیل اور ایران دونوں ہی کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ اگر ان کے درمیان کوئی جنگ چھڑ گئی تو دونوں کے لیے اس کے کیا اثرات اور نتائج ہوں گے۔
بیشتر تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل اور ایران کے لیے جنگ انتہائی تباہ کن ہوگی اور کچھ بھی نہیں بچے گا مگر کوئی بھی یہ نہیں بتاتا کہ ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ کیوں ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایسا کون سا تنازع ہے جو جنگ میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ان کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں کیونکہ سرحدیں نہیں ملتیں۔ کسی نے کسی کے علاقے پر قبضہ نہیں کیا۔ کوئی آبی تنازع بھی نہیں۔ کسی ملک کے شہری دوسرے کے ہاں بڑی تعداد میں آباد بھی نہیں ہوئے، یعنی تارکینِ وطن کا مسئلہ بھی نہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ایسے کسی بھی تنازع کا سُراغ لگانا انتہائی دشوار ہے جو معاملات کو جنگ تک لے جانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازعات کی فہرست مرتب کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ میڈیا کے تجزیوں میں تو جنگ کا خطرہ موجود ہے مگر در حقیقت ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا کوئی حقیقی خطرہ موجود نہیں۔ ہاں، کسی اور نوعیت کی تفہیم کی ضرورت ضرور پیش آئے گی۔
ایران اور اسرائیل جنگ تو خیر نہیں چاہتے مگر اس کے امکان کو ایک دوسرے کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ پیدا کرنے کے لیے ضرور استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں حکومتیں اپنے اپنے عوام کو جنگ کے امکان سے ڈراکر زیادہ سے زیادہ دفاعی اخراجات اور سخت پالیسیوں کا جواز پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ جنگ کے امکان کا ذکر کرکے ایرانی حکومت روس سے اور اسرائیلی حکومت امریکا سے زیادہ سے زیادہ امداد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ جنگ کا خطرہ در اصل خطے میں چل رہی بڑی اور وسیع جدوجہد کا حصہ ہے۔ شام، لبنان، مصر، عراق اور فلسطین کے حوالے سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی چلی آ رہی ہے۔ خطے سے باہر کے کئی ممالک بھی علاقائی مفادات کے حوالے سے اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان مخاصمت اور جنگ کے امکان کو در اصل ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ خطے کے ممالک طے کرلیں کہ انہیں کس کے ساتھ چلنا ہے۔ جن ممالک کے لیے کسی ایک فریق کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرنا انتہائی دشوار ہے ان میں ترکی سب سے نمایاں ہے۔ اب تک ترکی کی کوشش یہ رہی ہے کہ کسی ایک ملک کا ہر معاملے میں غیر مشروط ساتھ دینے کے بجائے متوازن پالیسی اپنائی جائے۔ وہ شام، سعودی عرب، لبنان، اسرائیل، روس اور امریکا سے اپنے تعلقات کو متوازن اور معتدل رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ مگر اب ترکی کو ایک طرف ہونا پڑے گا کیونکہ اس حوالے سے اس پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت اور کشیدگی سے خطے میں مزید خون خرابہ ہی ہوگا۔ اور یہ کہنا بھی انتہائی دشوار ہے کہ خون خرابے کے بعد کس کا پلڑا بھاری رہے گا۔ قتل و غارت کی راہ مسدود کرنے کے لیے خطے میں نئی اسٹریٹجک شراکت داری کا قیام ناگزیر ہے۔
عالمی سیاست کو چلانے سے متعلق کسی نئے نظام پر اتفاق امریکا اور روس کے درمیان اتفاق رائے پر منحصر ہے۔ شام کے معاملے پر دونوں بڑی طاقتوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل سے متعلق کسی بھی بین الاقوامی سیٹ اَپ کے تعین کے لیے امریکا اور روس کا ایک مرکز پر آنا لازم ہے۔ دونوں میں بات چیت کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ ایسے میں انتظار کرنے اور معاملات کو زیادہ خراب کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ علاقے کے ممالک مل کر کوئی میکینزم تیار کریں اور تزویراتی بنیاد پر استحکام پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
مصر نے حال ہی میں علاقائی بنیاد پر استحکام پیدا کرنے کے لیے کوششیں تیز کی ہیں۔ ایک تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ مصر، سعودی عرب، ترکی اور ایران مل کر شام کا بحران عمدگی سے ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ خطے سے باہر کے ممالک کو مداخلت کا موقع نہ ملے۔ امید کی جانی چاہیے کہ یہ تجویز کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔
(“War Scenarios between Iran & Israel” “Todays Zaman” Istanbul. Sept. 7th, 2012)
Leave a Reply