کینیڈا کے وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں ایک ڈرامائی بیان دیا۔ انہوں نے کینیڈا کے مقامی باشندوں سے ان زیادتیوں اور بے انصافیوں پر معذرت طلب کی جو یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں ان کے ساتھ کرتی رہیں۔ کینیڈا کے سفید فام اس طرح ان مقامی باشندوں کے ساتھ قیام امن کی کاوشیں کرتے ہیں جن کے آباء کی سرزمین کو اول الذکر نے فتح کیا اور پھر حاکموں نے محکوموں کی ثقافت کو مٹا دینے کی سنجیدہ کوششیں کیں۔
ماضی کی غلطیوں پر معافی چاہنا جدید سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ کام کبھی اس قدر سہل نہیں رہا۔ ممکن ہے خود پسندی کا شکار اور بلاوجہ دوسروں کی نیتوں پر شک کا اظہار کرنے والے لوگ کہتے ہوں کہ ’’چھوڑیں جی! اس کا کوئی فائدہ نہیں، محض الفاظ ہی تو ہیں‘‘ اور الفاظ بہرحال ایک سستی جنس ہیں۔ لیکن درحقیقت اس نوعیت کے اقدام کی اچھی خاصی اہمیت ہوتی ہے۔ کسی بھی فرد حتیٰ کہ کسی قوم کے لیے اپنے غیر مساویانہ رویوں اور زیادتیوں کو تسلیم کرلینا آسان کام نہیں۔ اس کا مطلب تاریخی واقعات کے اس تسلسل کو ازسرنو ضبط تحریر میں لانا ہے جن پر قومی یکجہتی، ہم آہنگی اور یگانگت کی عمارت ایستادہ ہوتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب اور قومی سوچ میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ عام طور پر حکومتیں اس چیز کو نا پسند کرتی ہیں اور اس ناپسندیدگی کے پس منظر میں قوم پرستی پر مبنی نظریہ پرستی اور نفرتوں کے بیوپاریوں کی کار گزاریاں کار فرما ہوتی ہیں۔ یہ (امراض) کم و بیش ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔
فرانس کے صدر نے فرانسیسی عوام کی طرف سے یہودیوں سے وشی دور کی زیادتیوں اور مظالم پر معذرت طلب کی ہے، کیونکہ اسی دور میں یہودیوں کو قاتل نازیوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ ادھر چیکوسلواکیہ کی حکومت نے جرمنوں سے معافی مانگی ہے کہ اس کی ایک پیش رو حکومت نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر انہیں کثیر تعداد میں ملک بدر کر دیا تھا اور بلا شبہ جرمنی نے یہودیوں سے ’’ہولو کاسٹ‘‘ کے مظالم اور جرائم پر معذرت طلب کی ہے اور ابھی کل کی بات ہے، جب آسٹریلیا کی حکومت نے مقامی اور قدیمی آسٹریلوی باشندوں سے معافی مانگی ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل میں ایہود اولمرٹ نے بھی مشرقی یہودیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ایک کمزور سی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ آخر الذکر کئی سال امتیازی سلوک کا شکار ہوتے رہے۔
لیکن ہمیں اس وقت کئی گنا دشوار اور پیچیدہ مسئلہ درپیش ہے۔ یہ مسئلہ اسرائیل میں ہمارے قومی وجود سے متعلقہ ہے۔
میرے خیال میں ہمارے اور فلسطینیوں کے درمیان امن، حقیقی امن، حقیقی مصالحت پر مبنی امن کا آغاز ایک عدد ’’معذرت‘‘ سے ہو گا۔ میں اپنی چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ اسرائیل کا صدر یا وزیراعظم کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کے ایک خصوصی اور غیر معمولی اجلاس سے مندرجہ ذیل خطوط پر ایک تاریخی خطاب کر رہا ہے:
’’میڈم اسپیکر اور معزز ارکان کنیسٹ ! میں اسرائیلی ریاست اور اس کے شہریوں کی طرف سے آج فلسطینیوں کے بیٹوں اور بیٹیوں سے خطاب کر رہا ہوں۔ وہ اس وقت، اس لمحے جہاں بھی ہیں، میرے مخاطب وہی ہیں۔
ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم آپ کے خلاف ایک تاریخی بے انصافی کے مرتکب ہوئے۔ ہم بڑے عجز اور انکسار کے ساتھ آپ سے معافی کے خواستگار ہیں۔
جس سرزمین کو ہم اسرائیل اور آپ فلسطین کہتے ہیں۔ صیہونی تحریک نے جب اس ملک کے اندر ایک مادر وطن کے قیام کا فیصلہ کیا تو اس کا ارادہ یہ ہر گز نہیں تھا کہ کسی اور قوم یا کسی اور عوام کے ملبے اور کھنڈرات پر اس ریاست کو قائم کیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۸۹۷ء میں جب اس ملک میں صیہونی کانگریس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا اس سے قبل صیہونی تحریک سے وابستہ کوئی فرد اس ملک میں نہیں آیا تھا اور نہ ہی کسی کو یہاں کی صورتحال کا اندازہ تھا۔
مشرقی یورپ میں ایک خونچکاں نسل کش قتل عام معمول بن چکا تھا۔ اس عمل کے اثرات پورے یورپ پر مرتب ہو رہے تھے اور ایسی علامتیں نظر آنا شروع ہو گئی تھیں جو ہولناک ’’ہولوکاسٹ‘‘ پر منتج ہوئیں۔ وہ ’’ہولو کاسٹ‘‘ جس کی زد میں آکر ۶۰ لاکھ یہودی صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
اس بنیادی مقصد نے کئی نسلوں تک خود کو ایک ایسے ملک کے ساتھ یہودیوں کی گہری وابستگی سے منسلک رکھا جس کے
اندر بائبل کا متن ضبط تحریر میں لایا گیا۔ وہ متن اور وہ اقتباسات جو یہودیوں کی حدود و قیود کی خاکہ بندی کرتے ہیں انہوں نے اپنا رخ یروشلم شہر کی سمت کر لیا، جس کے حصول کی دعائیں وہ ہزاروں سال سے کر رہے تھے۔
صیہونی مملکت کے جو بانیان اس ملک میں آئے، ان کے دل اعلیٰ و ارفع نظریات سے سرشار تھے۔ وہ قومی آزادی، انصاف اور مساوات پر یقین رکھتے تھے۔ ہمیں ان پر فخر ہے۔ انہوں نے یقینا ایسی بے انصافیوں کے ارتکاب کا خواب تک نہیں دیکھا ہو گا جو تاریخ کی کئی جہتوں کی تخلیق کا باعث بن گئیں۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا، محولہ بالا واقعات کو اس کا جواز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس ملک کے اندر یہودیوں کی مادر وطن کی تخلیق کے دوران آپ کے ساتھ بے تحاشا بے انصافیاں کی گئیں، حالانکہ آپ یہاں کئی نسلوں سے قیام پذیر تھے۔
ہم اس حقیقت کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ۱۹۴۸ء کی جنگ آزادی کے دوران کم و بیش ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھر بار اور زمینوں سے بے دخل ہو جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ بلاشبہ وہ جنگ ہمارے لیے یعنی یہودیوں کے لیے جنگ آزادی تھی۔ میں اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کو تجویز پیش کرتا ہوں کہ وہ ان المناک حالات کا اختصار یہ مرتب کرنے کے لیے ہر دو فریقین کے نمائندہ ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے۔ حقائق کے سراغ لگائے اور مصالحت کی کمیٹی قائم کرے، وہ کمیٹی جو نتائج اخذ کرے انہیں ہمارے اور آپ کے اسکولوں کی نصابی کتب کا حصہ بنا دیا جائے۔
ہم اس حقیقت کو بھی مزید نظر انداز نہیں کر سکتے کہ تصادموں اور جنگوں سے بھرے گزشتہ ۶ عشروں کے دوران آپ کو اپنی قومی ریاست کے اندر اپنے فطری حق آزادی کو حقیقی شکل دینے سے روک دیا گیا، وہ حق آزادی جس کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء ایک قرار داد کے ذریعے توثیق کر دی تھی۔ اسی قرار داد نے اسرائیلی ریاست کے قیام کو قانونی بنیاد فراہم کی۔
اس سارے عمل پر ہم آپ سے معافی کے خواستگار ہیں اور میں دل کی گہرائیوں سے معذرت طلب کر رہاہوں۔
بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ جو اپنے جرائم کو تسلیم کر لے اور ان سے کنارا کش ہو جائے، اس پر رحم کیا جائے گا۔ ظاہر ہے صرف تسلیم کر لینا کافی نہیں ہوتا۔ ہم نے ماضی میں جن غلطیوں کا ارتکاب کیا ان سے دست کش ہونا بھی ضروری ہے۔
تاریخ کے پہیے کا رخ الٹی سمت موڑنا اور ۱۹۴۷ء والی صورتحال کو بحال کرنا تو ممکن نہیں۔ بالکل اس طرح جس طرح کینیڈا اور امریکا ۲۰۰ سال پیچھے نہیں جا سکتے۔ ہمیں چاہیے کہ قابل اندمال زخموں کو مندمل کرنے اور جو مرہم مانگتے ہوں انہیں مرہم فراہم کرنے کی شدید خواہش پر اپنا مشترکہ مستقبل تعمیر کریں اور مشترکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں ۔ نئے زخم نہ لگائیں، نئی بے انصافیوں کا ارتکاب نہ کریں اور نئے انسانی المیوں کی تخلیق سے مکمل اجتناب برتیں۔
میں درخواست کرتا ہوں کہ معذرت جس جذبے کے تحت طلب کی گئی ہے، اسی جذبے کے ساتھ آپ اسے قبول کریں، آئیں ہم مل کر کام کریں۔ اپنے ملک کے ۱۰۰ سال پرانے تنازع
کا کوئی منصفانہ اور قابل عمل حل تلاش کریں۔ ایک ایسا حل جو بے شک ہماری تمام خواہشات کو پورا اور تمام غلطیوں کی تصحیح نہ کر سکے، لیکن وہ ایسا ضرور ہو، جس کی روشنی میں دونوں ملکوں کے عوام آزادی، امن اور خوشحالی کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار سکیں۔
یہ حل اس قدر واضح ہے کہ سب کو نظر آتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے، یہ ہمارے تکلیف دہ تجربات سے اخذ کیا گیا ہے، وہ سبق اس کا ماخذ ہے جو ہمارے مصائب نے ہمیں سکھایا ہے۔ ہمارے اور آپ کے اذہان کی مشقتوں نے اس حل کو شفاف بنا دیا ہے۔
اس حل کے مطالب بہت سادہ ہیں، یعنی جو حقوق ہمارے ہیں، وہی آپ کے ہیں، جو آپ کے حقوق ہیں، وہی ہمارے ہیں۔ ہماری اپنی ریاستوں کے اندر ہمارا حق ہے اپنے اپنے پرچموں تلے اور ان قوانین کے تحت جو ہم نے خود ہی بنائے ہوں، انہی قوانین کے تحت ہم پر حکومت کی جائے، ہماری حکومتیں ہماری اپنی منتخب کردہ ہوں اور توقع کی جائے کہ وہ حکومتیں اچھی ہوں۔
ہم دونوں کے مذاہب میں ایک بنیادی حکم موجود ہے۔ آج سے ۲۰۰۰ سال قبل ربی حلل نے کہا تھا: ’’لوگوں کے ساتھ وہ سلوک مت کرو، جو تم نہ چاہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں‘‘۔
اس کا مطلب ہے کہ عملاً آپ کے لیے ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام فی الفور درکار ہے جو ’’اقتدار اعلیٰ کی مالک ہو، فلسطینی ریاست، جو ان علاقوں پر مشتمل ہو، جن پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیا تھا، جسے اقوام متحدہ ایک مکمل رکن کے طور پر قبول کرے۔
۴ جون ۱۹۶۷ء کی سرحدیں بحال کر دی جائیں گی۔ میرا خیال ہے کہ آزادانہ مذاکرات کے نتیجے میں ہم دونوں فریق رضامند ہو جائیں گے کہ علاقوں کا تبادلہ کم سے کم ہو اور جو ہو وہ دونوں کے لیے فائدہ بخش ہو۔
یروشلم، جو ہم ہر دو فریقین کو پیارا ہے، وہ ہماری دونوں ریاستوں کا دارالحکومت ہو۔ مغربی دیوار سمیت مغربی یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت بنا دیا جائے۔ مشرقی یروشلم بشمول الحرم الشریف جسے ہم ’’ٹیمپل مائونٹ‘‘ کہتے ہیں، فلسطین کا دارالحکومت بن جائے جو عربوں کا ہے، وہ آپ کا اور جو یہودیوں کا ہے وہ ہمارا ہو گا۔ آئیں ہم مل کر اس شہر کو ایک زندہ حقیقت، کشادہ اور متحد بنا دیں۔
جو اسرائیلی بستیاں آپ کے لیے بے پناہ مصائب اور شدید بے انصافیوں کا باعث بنیں ہم ان سے دستبردار ہو جائیں گے اور جو لوگ وہاں آباد ہیں، انہیں واپس وطن لے آئیں گے، چھوٹے موٹے جن علاقوں کا اسرائیل کے ساتھ الحاق کرنا پڑے، ہم اس کے بدلے میں علاقہ دیں گے۔ بشرطیکہ ان علاقوں پر ہر دو فریقین آزادانہ رضامندی کا اظہار کریں۔ ہم نے قبضے کا تسلسل برقرار کھنے کے لیے فلسطین میں جو کچھ تعمیر کیا، اسے منہدم کر دیں گے۔
ہم معاملات طے کرتے وقت کشادہ دلی، ہمدردی اور معقولیت کا مظاہرہ کریں گے۔ ہم پناہ گزینوں کے خوفناک المیوں کا کوئی قابل عمل اور منصفانہ حل تلاش کریں گے۔ انہیں اور ان کے لواحقین کو اس کرب سے نجات دلائیں گے ۔ ہم ہر پناہ گزین گھرانے کی مرضی کا احترام کریں گے۔ ایک سے زیادہ حل ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ وہ جسے چاہے منتخب کرلیں، اگر ان کی خواہش ہو کہ وہ فلسطینی ریاست میں آباد ہوں تو ان کے ساتھ فیاضانہ تعاون کیا جائے۔ وہ کسی اور ملک کو نقل مکانی کرناچاہیں تو بھی انہیں آزادی ہو گی اگر وہ قابل قبول تعداد میں اسرائیل میں بسنا چاہیں تو بھی ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے۔ پناہ گزین خود بھی ہماری تمام تر کاوشوں میں ہمارا پورا ساتھ دیں گے۔
مجھے بھروسہ ہے کہ اس چھوٹے مگر پیارے سے ملک میں ہماری دو عدد ریاستیں، یعنی اسرائیل اور فلسطین (بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت) زندہ و پائندہ رہیں گی اور انسانی، سماجی، معاشی، تکنیکی اور ثقافتی سطحوں پر بہت جلد ایک دوسرے کے قریب آجائیں گی اور ایک ایسا تعلق قائم کریں گی جو ہماری سلامتی کا ضامن ہی نہیں ہو گابلکہ سب کے لیے تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا باعث بھی بن جائے گا۔
ہم اپنے پورے خطے میں حصول امن اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کریں گے اور اس خطے کے تمام ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات قریبی ہوں گے۔
حصول امن کی کاوشوں میں خلوص ہو گا اور اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کے لیے بہتر اور محفوظ مستقبل کی تعمیر میں ہم کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریں گے۔ جتنے یہودیوں اور عربوں کی جانیں اس تنازع کی نذر ہو گئیں ہم ان کے احترام میں اپنے سر جھکاتے ہیں۔ مرنے والوں میں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں شامل تھے۔ یہ تنازع طویل عرصہ لٹکا رہا اور اس کا حل بروقت تلاش نہ کیا جا سکا‘‘۔
اگر ملک کی تاریخ میں ایک نیا باب کھولنا مقصود ہے تو میرے ذہن کے مطابق اس نوعیت کا خطاب بہت ضروری ہو گا۔
میں کئی عشروں سے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں سے مل رہا ہوں۔ میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عرب اسرائیل تنازع کے جذباتی پہلو کم نہیں، بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ دیگر پہلوئوں کی نسبت جذباتی پہلو زیادہ ہیں۔ سیاسی پہلوئوں کے مقابلے میں جذباتی پہلوئوں کی اہمیت زیادہ ہے۔ تمام فلسطینیوں کی سوچ اور اقدامات میں ان کے ساتھ کی جانے والی بے انصافیوں کی جھلک ملتی ہے، بلکہ یہ احساس ان کے اذہان میں رچ بس چکا ہے کہ وہ سالہا سال سے زیادتیوں اور بے انصافیوں کا شکار ہیں۔ اسرائیلیوں کی روح کو بھی لا شعوری یا نیم شعوری طور پر احساس جرم کچوکے لگا رہا ہے اور انہوں نے اپنی اس سوچ کو پختہ کر لیا ہے کہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ (کیونکہ اسرائیلیوں کو اپنے کرتوتوں کا علم ہے، تبھی تو انہیں یقین نہیں آتا کہ عرب عوام بقائے باہمی کی بنیادوں پر ان کی ہمسائیگی میں زندگی گزار لیں گے)۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس نوعیت کا خطاب کب ہو گا؟ یعنی اس کے لیے کون سا وقت مناسب ہو گا؟ ان پر کئی ایسے محرکات اثر انداز ہوں گے، جن پر غور و فکر بھی ممکن نہیں ہو گا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ بھائو تائو کرنے والے سفارتکاروں کے درمیان ہونے والے معاہدے کافی نہیں ہوں گے۔ اوسلو سمجھوتوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ طوفانی جذبات کے سمندر میں کسی مصنوعی جزیرے کی تعمیر ناممکن ہے۔
شمالی امریکا میں واقع کینیڈا نام کے ملک سے ہم صرف یہی نہیں سیکھ سکتے کہ عوامی سطح پر معذرت کس طرح طلب کی جاتی ہے۔ سیکھنے کو اور بھی بہت کچھ باقی ہے۔
کینیڈا میں انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانیں بولنے والے لوگ مقیم ہیں۔ انگریزی بولنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، جبکہ فرانسیسی بولنے والے باشندے اقلیت میں ہیں۔ ۴۳ برس قبل کینیڈا کی ایک حکومت نے ان دونوں کے درمیان اختلافات ختم کرانے اور قیام امن کے لیے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا تھا۔ ۲۵۰ برس پہلے برطانیہ نے فرانسیسی کینیڈا کو فتح کیا تھا، اس وقت سے لے کر ۴۳ برس پہلے تک محولہ بالا تعلق کسی رستے ہوئے ناسور سے کم نہیں تھا۔ ایک کھلا اور ناقابل اندمال زخم۔ حکومتی سطح پر فیصلہ کر لیا گیا کہ کینیڈا کا قومی پرچم تبدیل کر دیا جائے۔ پہلا پرچم برطانیہ کے ’’یونین جیک‘‘ کی طرز پر تھا۔ اس کو بدل کر بالکل نیا پرچم ڈیزائن کیا گیا۔ جس پر ’’میپل کا پتہ‘‘ بنا ہوا تھا۔
پرچم کی تبدیلی کے موقع پر سینیٹ کے اسپیکر نے کہا: پرچم قوم کے اتحاد کی علامت ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ پرچم نسل، زبان، عقیدے یا رائے سے قطع نظر کینیڈا کے تمام شہریوں کی بلا تخصیص اور بلا امتیاز نمائندگی کرتا ہے۔
ہم اس مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں (اگر سیکھنا چاہیں تو)۔
(بشکریہ: ’’ڈیلی ٹائمز‘‘۔ شمارہ: ۲۲ جون ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply