جہاں تک سائنس اور اخلاقی اقدار کے باہمی تعلق کا سوال ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی چیز جو حقیقتِ مطلقہ کے عرفان کا اہم ذریعہ ہو، اسے لازماً اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حصول کا ذریعہ بھی ہونا چاہیے۔ لیکن حادثہ یہ ہوا کہ مغرب میں نشاۃِ ثانیہ کے دور میں جب مذہب اور سائنس میں جدائی واقع ہوئی تو اہل سائنس نے ردعمل میں جہاں مذہب کو سائنس کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے ہوئے رَد کر دیا، وہاں مذہبی اخلاقی اقدار سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ جب سائنس کا مذہبی اخلاقیات سے کوئی علاقہ نہ رہا، تو ظاہر ہے اس میں وہی اخلاقیات داخل ہونا تھیں جو اس سے متعلق لوگوں کی اخلاقیات تھیں، یعنی غیر مذہبی اور آزادانہ اخلاقیات۔ اب چونکہ سائنس پر غیر مذہبی لوگوں کا قبضہ تھا تو لامحالہ سائنس کو انہی کی اخلاقیات کا حامل ہونا تھا۔ مگر اس سے یہ کیسے طے ہو گیا کہ سائنس فی نفسہٖ غیر مذہبی اخلاقیات کی حامل ہے، جیسا کہ ہمارے سائنس مخالف دانشور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ سائنس میں غیر مذہبی اخلاقی اقدار کے دخول کے اصل ذمہ دار اہل کلیسا ہیں۔ کیا ہمارے سائنس مخالف دانشور بھی انہی کی روش اپنانے کے درپے ہیں۔ اگر اہل مذہب سائنس کی زمامِ کار ملحدِ دین ہی کے ہاتھوں میں دینے پر مصر ہوں تو انہیں کس طرح یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ سائنس اور اہل سائنس کی غیر مذہبی اخلاقیات کی شکایت کریں!
بِلاشبہ عصر حاضر کی ایک نہایت اہم ضرورت سائنس کو مذہب و اخلاق سے مربوط کرنا ہے۔ دورِ جدید کے بڑے بڑے مفکرین اس کا گہرا احساس رکھتے ہیں۔ میں اس ضمن میں یہاں ڈاکٹر رفیع الدین کے توسط سے دو مفکرین کی آرا پیش کروں گا: پروفیسر سوادکن۔ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کا سابق صدر لکھتا ہے: ’’مذہب اور سائنس کا موجودہ تضاد خطرناک ہی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہے۔ اگر خدا اور اخلاقی اقدار کا صحیح تصور میسر آجائے تو اس کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مذہب اور سائنس دونوں ایک ہیں اور ایک ہی مقصد کی پیش برد کے لیے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ یعنی یہ کہ تجربات کی اس قریبی دنیا میں خداے مطلق کی قدرتوں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ انسان کی شرافت اور خدا کی عظمت، دونوں کا اثبات عمل میں آئے‘‘۔ فیلڈ مارشل سمٹس۔فلسفہ کی بلند پایہ کتاب ہولزم (Holism) کا مصنف کہتا ہے: ’’صداقت کی مخلصانہ جستجو اور نظم اور حسن کے ذوق کے اعتبار سے سائنس مذہب اور فن کے اوصاف سے حصہ لیتی ہے… اصل بات یہ ہے کہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ شاید سائنس ہمارے اس عہد کے لیے خدا کی ہستی کی واضح ترین نقاب کشائی ہے… سچی بات تو یہ ہے کہ نوعِ انسانی کو جو کارہائے نمایاں سرانجام دینے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہوگا کہ وہ سائنس کو اخلاقی قدروں کے ساتھ ملحق کرے گی اور اس طرح سے اس بڑے خطرے کا ازالہ کرے گی جو ہمارے مستقبل کو درپیش ہے‘‘۔
راقم کی رائے میں آج کے دور میں سائنس کے مذہب اور اخلاق سے ربط کے سلسلے میں عامۃ الناس کی نفسیات کے تحت، غیر شعوری طور پر ہی سہی، بہت کچھ کام جاری ہے۔ وہ وقت ضرور آئے گا جب سائنس مذہبی اخلاقیات سے مربوط ہو کر کل شی یرجع الی اصلہ کے مصداق اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے گی۔
اگر ہم اپنی عملی زندگی میں سائنس اور سائنسی ایجادات و اکتشافات کے ناقابلِ انکار کردار اور ہمارے ممدوح دانشوروں کے اس سے متعلق عملی رویے کے تناظر میں دیکھیں تو ان کے نقطہ نظر کی غلطی اور سطحیت اور نمایاں ہوتی ہے اور وہ مذاق بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ اپنی تحریروں میں شدومد سے سائنس اور سائنسی مظاہر کی برائیاں گنواتے اور مسلمانوں کو ان سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں، لیکن خود ان میں بُری طرح ملوث ہوتے ہیں۔ کیا یہ تبلیغ و اصلاح کے تناظر میں اتنی سی بات سے بھی ناواقف ہیں کہ مبلغ کو پہلے خود اپنی دعوت پر عمل کرکے دکھانا چاہیے۔ یہ موبائل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ کو اہلِ اسلام کے لیے زہر قاتل بتاتے اور ان کے استعمال کو مغرب کی مادّی تہذیب و اقدار کے فروغ میں حصہ ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہیں، لیکن خود ان چیزوں کو اس طرح بے دریغ استعمال کرتے ہیں، جیسے انہیں اس معاملے میں کوئی خصوصی استثنا حاصل ہے۔ بندہ پوچھے یہ پریس، یہ چھاپہ خانے، یہ کمپیوٹر اور اس کے ذریعے اپنے مافی الضمیر کی نشر و اشاعت، یہ بڑی بڑی عمارتیں اور ٹاور، یہ یونیورسٹیاں اور ان کے اداروں میں خدمات، یہ کانفرنسیں اور ان کے لوازمات، یہ ایئرکنڈیشنڈ آفس، یہ کاروں اور ہوائی جہازوں کے سفر و علی ہذا القیاس اس ’’منحوس‘‘ سائنس کی کوئی ایک چیز بھی ہے جس سے جناب بے نیاز ہوں! ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے یہ ممدوح سائنس اور اس کے مظاہر کی برائیاں سائنس اور اس کے مظاہر ہی کے ذریعہ بیان کرتے ہیں، لیکن پھر بھی انہیں بُرا کہتے ہیں۔ کیا ان احباب نے کبھی غور کیا کہ موبائل انٹرنیٹ اور ٹی وی وغیرہ چیزیں فی نفسہٖ بُری ہیں تو ان کا انہی اشیا کو استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف واویلا کیسے نیکی و بھلائی قرار پاتا ہے۔ انہیں دو میں سے ایک بات ماننی ہوگی، یا یہ کہ یہ چیزیں نفس الامر میں بُری نہیں، اور یا یہ کہ ان چیزوں کو استعمال کر کے وہ بھی دوسروں کی طرح برائی کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ (بلکہ ان کا جرم اس وجہ سے شدید تر ہو جاتا ہے کہ دوسرے ان کو برائی سمجھ کر استعمال نہیں کر رہے جبکہ یہ انہیں برائی یقین کرکے استعمال کر رہے ہیں) اور وہ جس بات کو بھی مانیں گے، ان کا مقدمہ باطل ہو جائے گا۔
تاریخ، فطرت اور عقل بطور ماخذ اخلاق
تاریخ، فطرت اور عقل سے متعلق زیر نظر دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ یہ اخلاقیات کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ ان میں سے کسی میں بھی یہ اہلیت نہیں کہ وہ یہ بتا سکے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا؟ حق کس چیز کا نام ہے اور باطل کس چیز کا؟ کون سا کام آدمی کو کرنا چاہیے اور کون سا نہیں کرنا چاہیے؟ ایسا ثابت کرنے کی کوشش کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ ان تمام چیزوں کو اخلاقیات کی بنیاد اہل مغرب اور ان سے متاثر مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن نہ یہ مفروضہ کُلّی طور پر صحیح ہے اور نہ اس کی بنیاد پر حاصل کردہ مذکورہ نتیجہ، ہاں اس میں جزوی صداقت موجود ہے۔ مفروضہ میں جزوی صداقت یہ ہے کہ عقل و فطرت وغیرہ سے درس اخلاق کے دہریہ اور مذہب بیزار اہل مغرب اور مغرب سے مرعوب مسلمان بھی قائل ہیں۔ لیکن اس میں غلطی یہ تسلیم نہ کرنا ہے کہ ان سے اخلاقی اسباق کے صرف یہی لوگ قائل نہیں بلکہ مذہبی لوگ حتیٰ کہ خود مذہب بھی اس کا قائل ہے اور نتیجے میں جزوی صداقت یہ ہے کہ مذکورہ اشیا یا ان میں سے بعض اخلاقیات کی تنہا بنیاد نہیں۔ لیکن اس میں غلطی یہ خیال کرنا ہے کہ ان میں سے کسی کا اخلاق سے کچھ علاقہ ہی نہیں۔ یہ حقیقت درج ذیل نکات سے نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی:
تاریخ اور اخلاق
ہمارے ان دوستوں کا کہنا ہے کہ تاریخ انسان کو اخلاقی سبق سکھانے سے قاصر ہے۔ تاریخی عمل سے نتائج اخذ کرنے کا کوئی منہج متعین کرنا ناممکن ہے۔ مختلف فلسفی مطالعۂ تاریخ سے مختلف نتائج اخذ کرتے ہیں۔ لیکن یہ نتیجہ بھی مذہباً اور عقلاً ہر دو لحاظ سے نادرست ہے۔ مذہب بار بار مطالعۂ تاریخ اور اس سے اخلاقی نتائج اخذ کرنے پر زور دیتا ہے۔ قرآن کی بیسیوں آیات اس پر شاہد ہیں۔ تذکیر بایام اللہ قرآن کا ایک نہایت اہم مضمون ہے۔ ارشاد ہے: وَذَکِّرْہُمْ بِاَیَّامِ اﷲِ (ابراہیم:۵) ’’اور انہیں اللہ کے ایام یاد کرائو‘‘۔ اور یہ اقوامِ سابقہ کے حشر کے مطالعے اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب ہی تو ہے۔ قرآن حکیم نے جس واحد تاریخی واقعہ کو سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ ایک ہی جگہ بیان کیا ہے، وہ قصۂ یوسف علیہ السلام ہے۔ لیکن اس سے اس کا جو مقصود ہے وہ سورہ یوسف کی آخری آیت کہ ان الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ (یوسف:۱۱۱) ’’ان کے قصے میں اہلِ عقل کے لیے (سامانِ) عبرت ہے‘‘۔ زمین میں چل پھر کر سابقین کے انجام سے سبق سیکھنے کی تاکید اتنی زیادہ آیات میں کی گئی ہے کہ ان کا استقصا اس مضمون کی بساط سے باہر ہے۔ چند آیات دیکھ لیجیے:
’’کہو: زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ پہلے لوگوں کا کیا انجام ہوا‘‘۔ (الروم:۴۲)
’’تم سے پہلے لوگوں کے طور طریقے گزر چکے ہیں، سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا‘‘۔ (آل عمران:۱۳۷)
’’کیا یہ اس چیز کے انتظار میں ہیں کہ ان کے ساتھ وہی کیا جائے جو سابقین کے معاملے میں کیا گیا؟ سو تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے، اور اس کی سنت کو بدلتا نہ دیکھو گے۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ دیکھتے، اُن لوگوں کا کیا انجام ہوا، جو اِن سے پہلے تھے! حالانکہ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے، اللہ ایسا نہیں کہ زمین و آسمان کی کوئی چیز اسے عاجز کر سکے۔ وہ علم والا، قدرت والا ہے‘‘۔ (الفاطر:۴۳۔۴۴)
مطالعۂ تاریخ ہی آپ کو بتاتا ہے کہ مذہب کی فراہم کردہ اخلاقیات کا نتیجہ (Out-put) کیا رہا۔ اسی سے آپ غیر مذہبی اقدار پر مذہبی اقدار کو فوقیت ثابت کرتے ہیں۔ قرآن واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ جھوٹ، فریب اور دغا چھوڑ دو، اس لیے کہ اس کا نتیجہ تباہی ہے اور یہ نتیجہ قرطاسِ تاریخ پر رقم ہے۔ کیا اس میں کوئی ابہام ہے کہ قرآن کے نزدیک نہ صرف تاریخ سے اخلاقی سبق حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس سے اخلاقی سبق کا حصول قرآن کا نہایت اہم تقاضا ہے۔ آخر قرآن نے یہ کہنا کیوں کافی نہیں سمجھا کہ جھوٹ اور بداخلاقی اس لیے چھوڑ دو کہ اللہ نے اسے چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور اس کے نتیجے میں تمہیں جنت حاصل ہوگی۔ اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ یوں کہنا اہل ایمان ہی کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کو کچھ نفع حاصل نہیں ہوسکتا جو ذاتِ باری کو جانتے اور مانتے ہی نہیں۔ انہیں تو آپ کو انہی چیزوں سے اخلاقیات نکال کر دکھانی پڑے گی جنہیں وہ جانتے اور مانتے ہیں، اور ان میں سے ایک نہایت اہم چیز تاریخ ہے۔
فطرت اور اخلاقیات
ہمارے ممدوح اسکالر یہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ فطرت بھی اخلاق کا ماخذ نہیں بن سکتی۔ دلیل وہی تاریخ والی دلیل جیسی ہے کہ یہ متعین ہی نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی فطرت کیا ہے۔ مختلف ادوار اور حالات سے گزرنے والے انسانوں کی فطرت مختلف ہوتی اور مختلف نتائج دیتی ہے۔ لیکن یہ نظریہ بھی مذہب و اخلاق کی کسوٹی پر پرکھنے سے باطل قرار پاتا ہے۔ اولاً اس لیے کہ قرآن میں فطرت کے خیر و شر معلوم کرنے کا پیمانہ ہونے کے واضح شواہد ہیں۔ ارشاد ہے: ’’پس اپنا رُخ پورے طور پر دینِ حنیف کی طرف رکھیے۔ خدا کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، یہی صحیح دین ہے‘‘ (الروم:۳۰)۔ ایک اور جگہ فرمایا: ’’اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کی تکمیل کی۔ پھر اس کی نیکی و بدی سمجھا دی‘‘ (الشمس:۸)۔ حدیث میں بھی واضح طور پر کہا گیا کہ: ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔ان نصوص سے اس دعوے کی واضح تردید ہو رہی ہے کہ انسان کی ’اصلی حالت‘ کے تعین کا کوئی پیمانہ نہیں اور اس حقیقت کو واشگاف کر رہے ہیں کہ انسان کی حالت کا مسئلہ محض فلاسفہ اور مغربی مفکرین کا ڈھکوسلہ نہیں بلکہ خالص مذہبی تصور ہے۔ مذکورہ نصوص کی شرح میں بہت سے شارحین نے لکھا ہے کہ اگر آدمی کو اس کی اصلی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ مشرک و کافر نہیں بلکہ موحد ہوگا جبکہ ہمارے دانشور انسان کو سوسائٹی سے کاٹ کر دیکھنے کو سیکولر مفکرین کی ’’لامتصور شے کو متصور کرنے کی لاحاصل کوشش‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
اگر ہمارے ممدوح دانشوروں کو فطرت سے اس لیے بیر ہے کہ مختلف ماحول کے لوگوں کی فطرتیں مختلف ہوتی ہیں اور انسان کی فطرت مسخ ہوسکتی ہے، تو ہم ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی چیز بتایئے جو مختلف فیہ نہ ہو اور مسخ نہ ہوسکتی ہو۔ مسخ کرنے پر آئیں تو سیکولر و لبرل ہی نہیں، خود اہل مذہب اللہ کی آخری کتاب کو اس کی تعبیر و تشریح کے نام پر مسخ کر ڈالیں۔ اقبال نے اس کا جگہ جگہ رونا رویا ہے۔ کہیں وہ کہتے ہیں:
احکام ترے حق ہیں، مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
کہیں شکوہ سنج ہیں:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اور کہیں نوحہ کناں ہیں:
زمن برصوفی و مُلا سلامے
کہ پیغامِ خدا گفتند مارا
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت,br>خدا و جبرائیل و مصطفی را
پھر قرآن نے بار بار تاکید کی کہ معروف کو اختیار کرو اور منکر سے بچو۔ نیز اس نے انبیا کو حکم دیا اور داعیانِ حق کا فریضہ ٹھہرایا کہ وہ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں۔ یہ معروف و منکر کیا ہے؟ کوئی بھی معتبر لغت اور شرحِ الفاظِ ربانی اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو نظر آئے گا کہ معروف سے قرآن کی مراد جانی بوجھی ہوئی اچھائی ہے۔ یعنی معروف وہ ہے جس کو فطرت اچھا قرار دے۔ اسی طرح منکر جانی بوجھی ہوئی برائی ہے،جسے فطرت بُرا ٹھہراتی ہے۔ مزید برآں قرآن نے متعدد جگہ مختلف قانونی امور کو عرف کے مطابق طے کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے مراد متعلقہ مہذب معاشرے کے شرفا کا دستور ہوتا ہے۔ یہ دستور بھلائی کی فطری قوتِ تمیز ہی سے ترکیب پاتا ہے۔ اگر فطرت برائی بھلائی میں تمیز کی اہل نہ ہوتی تو قرآن اس کی بنیاد پر وجود پذیر ہونے والے دستور پر اعتماد نہ کرتا۔
اخلاقیات اور عقل
ہمارے ان اسکالرز کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ عقل بھی اخلاق کا ماخذ نہیں۔ لیکن یہ دعویٰ اس قدر بودا ہے کہ عقل پر تنقید کرنے والوں کے سارے دلائل، تنقیدات اور داخلی محاکموں کو مہمل بنا دیتا ہے۔ ان سے اگر کوئی یہ کہے کہ جناب ہم آپ کی تمام تر تنقیدات کو من و عن مان لیتے ہیں، آپ صرف اتنا بتا دیجیے کہ کس بنیاد پر؟ تو ان کے پاس صرف ایک جواب ہوگا کہ عقلی دلائل کی بنیاد پر، اس لیے کہ نہ یہ وحی سے جواب دینے کے دعویدار ہیں اور نہ اُن لوگوں کو وحی سے جواب دیا جاسکتا ہے جن کے افکار کا یہ محاکمہ کر رہے ہیں اور یہ جواب ان کے سارے دلائل کا قاتل ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز آپ کے نزدیک معتبر ہی نہیں اس سے آپ کسی چیز کو غیر معتبر کیسے ٹھہرا سکتے ہیں! گویا:
میرؔ کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
تاہم وحی کی بنیاد پر عقل کو نامعتبر ٹھہرانا بھی کچھ کم قابلِ گرفت نہیں، خاص طور پر وحیٔ قرآنی کی بنیاد پر۔ قرآن سے عقل کے حجت ہونے کے جواز پر دلائل لانا کیا معنی، وہ تو عقل و فکر سے کام لینے کی جگہ جگہ ترغیب دیتا ہے۔ اس قبیل کی سیکڑوں آیات میں سے چند دیکھیے:
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور رات دن کی تبدیلی اور ان کشتیوں میں، جو لوگوں کے فائدے کی چیزوں کے ساتھ دریا میں چلتی ہیں اور آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو، اس کی موت کے بعد، زندہ کرنے اور اس میں ہر طرح کے جانور پھیلانے اور ہوائوں کے چلنے اور بادلوں کے آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہنے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔ (البقرۃ:۱۶۳)
’’اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کیا اور ستارے (بھی) اس کے حکم سے مسخر ہیں۔ بِلاشبہ اس میں عقل سے کام لینے والوں کے لیے (بہت سی) نشانیاں ہیں‘‘۔ (النحل:۱۲)
’’اور زمین میں بھی نشانیاں ہیں، یقین کرنے والوں کے لیے اور تمہاری اپنی ذات میں بھی، تو کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا‘‘۔ (الذٰریات:۲۰۔۲۱)
’’کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پر، اور ان اشیا پر جو اللہ نے بنائیں، نگاہ نہیں ڈالی‘‘۔ (الاعراف:۱۸۵)
’’آپ فرمائیے! زمین میں چل پھر کر دیکھو۔ اللہ کیونکر خلق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اسے دوسری اٹھان اٹھاتا ہے‘‘۔ (العنکبوت:۲۰)
’’توکیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ (محمد:۲۴)
قرآن کے نزدیک صاحبان ایمان و تقویٰ کی نمایاں علامت یہ ہے کہ: ’’جب انہیں ان کے رب کی آیات سے نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے‘‘ (الفرقان:۷۳)۔ یہی نہیں بلکہ قرآن کے مطابق عقل سے کام نہ لینے والے بدترین خلائق ہیں۔ اسی پر بس نہیں قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عقل و فکر سے کام نہ لینے والوں پر گندگی ڈال دیتا ہے۔
ہمارے دانشور کہتے ہیں کہ عقل میں خیر و شر میں تمیز کی اہلیت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر خالق کائنات نے اس کے ذریعہ حقیقتِ کبریٰ تک رسائل حاصل کرنے پر اتنی زیادہ آیات میں اس غیر معمولی انداز سے زور کیوں دیا ہے؟ اس نے کیوں صرف اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیا کہ جب میں اور میرے نبی کہہ رہے ہیں کہ اللہ ہے، اس نے تمہیں ایک خاص مدت تک کے لیے دنیا میں بھیجا ہے، تمہیں ایک روز اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے تو بس اور کیا دلیل چاہتے ہو، سر تسلیم خم کر دو۔ کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ اللہ اپنے سیکڑوں ارشادات میں نہایت غیر مبہم طریق سے عقل کو خیر و شر ہی نہیں، خود خالق خیر و شر کی پہچان کا ذریعہ بتا رہا ہے اور ہم اسی کے نام پر یہ باور کرانے پر زور لگا رہے ہیں کہ خوب و زشت کی معرفت عقل کا وظیفہ ہی نہیں۔
عقل کے خلاف آپ کی ساری سرپھٹول اس بنا پر ہے کہ ہمیں ایک ایسی چیز میسر ہے جو عقل سے بہت اعلیٰ درجے کی ہے اور ہمیں ان امور سے متعلق خبر دیتی ہے جن کا ادراک عقل کی مجال نہیں۔ یہ چیز ایمان ہے۔ لیکن آپ نے کبھی غور فرمایا کہ یہ ایمان کہاں سے آیا ہے؟ ایک آدمی ہے جس پر نہ وحی آتی ہے اور نہ وہ وجودِ باری اور وحی و نبوت کا قائل ہے، آپ اس کو کیسے سمجھائیں گے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے، اس نے وحی و نبوت کا سلسلہ قائم فرمایا اور انسانوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ وحی و نبوت اور اس کے پیش کردہ عقائد و تصورات پر ایمان لائیں۔ عقل کے سوا اس کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔ ہمارے دانشوروں کو خبر ہو نہ ہو، اللہ علیم و خبیر ہے، اسے تو پتا ہے کہ بے ایمان عقل ہی کی بنیاد پر ایمان لاسکتا ہے، سو اس نے اپنی آخری کتاب میں اسی کے ذریعے ایمان لانے پر زور دیا۔ اوپر درج اور ان کی قبیل کی سیکڑوں دیگر آیات اس حقیقت کی ناطق شہادتیں ہیں۔ اب ذرا ارشاداتِ باری اور ان کے بدیہی نتائج اور ہمارے عقل مخالفین کے نظریے کو ملا کر دیکھیے: عقل اللہ کو پاسکتی ہے لیکن خیر و شر کو نہیں!
ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیے
خامہ انگشت بدنداں ہے، اسے کیا لکھیے
بِلاشبہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایمان عقل کا رہبر ہے۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہم ایمان کے اعتماد پر مان لیتے ہیں، حالانکہ وہ ہماری عقل میں نہیں آتیں۔ لیکن ایمان کو عقل کی رہبری کا اختیار بھی تو عقل ہی نے دیا ہے۔ بِنابریں ایمان کے حاصلات فی الاصل عقل کے حاصلات ہیں۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ایمان اور عقل میں باہم کوئی تسابق و تصادم نہیں، سمجھوتا و موافقت اور اپنائیت ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ عقل عاشق ہے اور ایمان محبوب۔ ایمان جن چیزوں پر اعتقاد کا کہتا ہے عقل اس لیے مان لیتی ہے کہ وہ اس کے محبوب کی پسند ہیں۔ ایمان بھی اس کو دھوکا نہیں دیتا اور اپنے سارے معاملات اس کو اعتماد میں لے کر طے کرتا ہے۔ اگر کہیں اختلاف ہو جائے تو ڈائیلاگ ہوتا ہے، اور بالآخر دونوں ایک متفقہ نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ اختلاف برقرار رہے، تاہم اختلاف باقی رہے تو امرِ فیصل، جیسا کہ محبوب و محب کے معاملے کا عام دستور ہے، محبوب ہی کا ہوتا ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ عقل ایمان کے فیصلے کو مان لیتی ہے۔ نہ مانے تو جیسے معاملہ عشق میں عاشق عاشق نہیں رہتا اور محبوب محبوب نہیں، عقل عقل نہیں رہتی اور ایمان ایمان نہیں رہتا۔
اس میں شبہ نہیں کہ مغرب کو معیارِ حق ٹھہراتے ہوئے دینی عقائد و نظریات کو کھینچ تان کر اس سے موافق کرنے کا رویہ گمراہی ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی دلیل علم و ہدایت نہیں کہ مغرب کو معیارِ باطل سمجھتے ہوئے اس سے متعلق یا منسوب ہر چیز کو جہالت اور دین و مذہب اور اس کے پیروکاروں کے لیے زہر قاتل قرار دیا جائے اور اس میں یہاں تک غلو ہو کہ شریعت کے بہت سے واضح نصوص کا انکار لازم آئے یا ان کی دورازکار تاویلات کرنا پڑیں۔مغرب معیارِ حق نہیں تو معیارِ باطل بھی نہیں۔ اسلام میں حق و باطل کو مشرق و مغرب کے خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ حق مغرب کے اپنا لینے سے باطل ہو جاتا ہے، نہ باطل مشرق کے اختیار کرلینے سے حق۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ۔ مارچ ۲۰۱۴)
Leave a Reply