ستائیس اگست ۲۰۱۰ء کو جس وقت امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن واشنگٹن سے اسرائیل اور عباس اتھارٹی کے مابین بغیر سابق شرائط کے راست مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے کا اعلان کر رہی تھیں اسی وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اپنے وزراء کے ایک گروہ کے سامنے اس بات پر فخر کر رہے تھے کہ آخرکار فلسطینی، عرب اور چار رکنی کمیٹی کے ممبران مکمل طور پر ان کے موقف کے سامنے جھکے اور ان کے الفاظ میں ’’سمجھنے لگے کہ اسرائیل کے بازو کو مروڑنا ممکن نہیں‘‘۔
اس ضمن میں درج ذیل امور کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:
اول: نیتن یاہو عباس اتھارٹی پر اپنا موقف تھوپنے میں مغربی کنارے میں صرف یہودی بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے پر ہی تیار نہیں ہوئے بلکہ اسرائیلی ذمہ داروں کے مطابق تل ابیب اتنے بڑے پیمانے پر ان کی تعمیر کی تیاری کر رہا ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ یہ بات فلسطینی صبح شام صہیونی وزیر خارجہ افیدر لیبرمین اور دو نائب وزیراعظم موشیہ یعلون اور بنی ہیگن سے سنتے رہتے ہیں۔ کلنٹن کے اس اعلان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عباس اتھارٹی اور عرب سرکاریں ہر طرح کا اعتبار و لحاظ کھو چکی ہیں، عباس اتھارٹی میں شعبہ مذاکرات کے ذمہ دار صائب عریقات نے الجزیرہ ٹی وی چینل پر بار بار یقین دلایا تھا کہ مغربی کنارہ اور قدس میں یہودی تعمیرات کے انجماد کی واضح پابندی کے بغیر عباس اتھارٹی مذاکرات میں حصہ نہیں لے گی اور یہی بات عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ بھی بارہا دہرا چکے تھے۔
دوم: اس کے برعکس محمود عباس کسی مرجعیت یا پروگرام کے تعین اور ان کے انجام کو سوچے بغیر دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر راضی ہو گئے۔ دوسری طرف چار رکنی کمیٹی پر نیتن یاہو کا دبائو اور اس کے نتیجے میں وہ اس بات میں کامیاب ہوئے کہ وہ اپنے بیان میں فلسطینی مملکت کے قیام کے لیے متعین مدت کے ذکر کو حذف کرے اور مسئلہ فلسطین سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کا حوالہ بھی نہ دے، اس سے اسرائیل کو لیت و لعل، ٹال مٹول اور اپنے مفادات کے مطابق اپنی مرضی کی تفسیر و تشریح کرنے کی بڑی آزادی ملے گی جب کہ وہ اس وقت تک فلسطینی زمین پر یہودی تعمیرات جاری رکھے گا اور زیربحث مسائل پر اتفاق کے بغیر مذاکرات چلتے رہیں گے۔ اس بات پر محمود عباس راضی ہو ہی چکے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کے بنیادی اجزا پناہ گزینوں اور زمین کے مسائل زیر بحث نہیں آئیں گے، ان کے بدلے حدود اور (اسرائیلی) امن و امان کے مسائل پر غور ہوگا۔
سوم: عباس اتھارٹی کے ساتھ راست مذاکرات کو ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیلی منصوبوں سے علیحدہ کرنا غیر ممکن ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کو ایسا علاقائی ماحول مطلوب ہے جس میں اس کو طویل مدتی اسٹریٹجک تاثیر کی عملیات انجام دینے کا موقع ہو، اس سے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے کہ اسرائیل نے عرب فریقوں کے ساتھ مذاکرات کو اپنے خفیہ منصوبوں کی تنفیذ کا ذریعہ بنایا، چنانچہ سابق اسرائیلی وزیراعظم مناحم بیگن نے ایک ایسے ہی موقع پر ۱۹۸۱ء میں عراقی ری ایکٹروں کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دوسرے سابق وزیراعظم یہود اولمرٹ نے اناپولیس کانفرنس کے فوراً بعد دسمبر ۲۰۰۸ء میں دمشق کے ریسرچ ادارے کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کانفرنس میں وہ محمود عباس اور سابق امریکی صدر جارج بش کے ساتھ شریک ہوا تھا۔
چہارم: اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ عباس اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین راست مذاکرات کے نتیجے میں فتح اور حماس کے درمیان مصالحتی گفتگو کی کوئی امید باقی نہیں بچے گی، یہ بات صحیح ہے کہ مذاکرات سے پہلے بھی مصری مصالحتی فارمولے پر گفتگو کی کامیابی صفر کے درجے میں تھی، اس لیے کہ اس کے خلاف صہیونی ۔ امریکی ویٹو تیار تھا۔
پنجم: عباس اتھارٹی کو اندازہ ہے کہ مذاکرات کے لیے خود اس کی وضع کردہ حد ادنیٰ سے پسپائی اس کو فلسطینی عوام کے نزدیک کمزور کرے گی، اس لیے عباس اور فیاض حکومت کے ارکان نے وہ گھسا پٹا ریکارڈ بجانا شروع کر دیا ہے کہ اتھارٹی بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہے جس کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی خطرے میں ہے اور مذاکرات سے انکار سے یہ بحران مزید گہرا ہوگا، اس لیے کہ یورپی مدد (خیرات) دینے والے تنخواہوں کی ادائیگی روک دیں گے۔
ششم: موجودہ حالات میں عرب مذاکراتی کارواں خاص طور سے دمشق و فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کے حق میں ہیں، فی الوقت اسرائیل کے نزدیک دمشق سے معاملات طے کرنے کو فوقیت حاصل ہے، اس سے پہلے کبھی دمشق کے ساتھ سمجھوتے کے بارے میں اتنی گرمجوشی نہیں دیکھی گئی، تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ دمشق کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے نیتن یاہو پر صہیونی امن وامان کے اداروں کا دبائو ہے تاکہ اس کے ساتھ سیاسی تصفیہ جلد ازجلد طے ہو جائے۔ یہاں تک کہ اندرونی خفیہ ادارہ شاباک کے صدر یوفال ویسکن (جو دمشق کے مسئلے کو اپنے ادارے کے اہتمام سے خارج مانتے ہیں) دمشق کے ساتھ فوری مذاکرات کے لیے نیتن یاہو پر بڑا دبائو ڈال رہے ہیں۔ اسرائیلی امن و امان کے ذمہ داروں کے نزدیک دمشق کے ساتھ تصفیہ کے جوش کے لیے جواز یہ ہے کہ اس طرح کا اقدام اسرائیل کے اسٹریٹجک ماحول میں ایسی تبدیلی ہے جس کا کبھی پہلے موقع نہیں آیا۔ جبکہ موجودہ حالات کو علی حالہٖ طویل مدت کے لیے چھوڑ دینا اپنے پہلو میں اسرائیل کے وجود کے لیے خطرے کا حامل ہے۔ دمشق کے ساتھ تصفیہ حزب اللہ کے مقابلے سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کرنے کی ضمانت رہے گی اور اس کو اسرائیل کے لیے دھمکی بنے رہنے کی صلاحیت سے محروم کر دے گی، اس لیے محمود عباس نے جو تنازعات پیش کیے ہیں وہ دمشق کے ساتھ مذاکرات کے حالات کو بہتر بنائیں گے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ عباس اتھارٹی کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی کا مطلب (دیگر امور کے ساتھ) یہ بھی ہے کہ تنظیم آزادیٔ فلسطین کی تنفیذی کمیٹی اور اس میں شریک گروہوں (جن میں بائیں بازو کے منافقین بھی شامل ہیں) نے اسرائیل کو نیا بلفور وعدہ دیا، لیکن اس مرتبہ وہ فلسطینی وعدہ ہے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘ بیروت۔ ترجمہ: مسعود الرحمن خاں ندوی)
Leave a Reply