امریکی صدر ٹرمپ کی مشرق وسطی کی سفارتی ٹیم بہت تیزی سے خطے کے دورے کر رہی ہے۔اور یہ ٹیم اپنے ہر دورے کے اختتا م پر حتمی نتائج کے اعلان سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور اہم مشیر جیرڈ کشنر،جن کو پچھلے سال یہ ذمے داری سونپی گئی تھی کہ وہ مشرق وسطیٰ امن مزاکرات میں تعطل کا خاتمہ کریں،اور مشرق وسطیٰ کے سفیر Jason Greenblatt نے خطے کے اہم ممالک کے ایک اور دورے کا آغاز کیا۔ان ممالک میں اردن، مصر، قطر، اسرائیل اور سعودی عرب شامل ہیں۔
اگرچہ امریکی انتظامیہ اس بات پر زور دے رہی ہے کہ وہ نتائج کے حصول کے قریب پہنچ گئے ہیں،لیکن ان کی ٹیم کے وقتاًفوقتاً مشرق وسطی کے دورے اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ منصوبے کے اعلان کے لیے مطلوب تعاون حاصل نہیں کر پا رہے۔جیرڈ کشنر اور گرین بلیٹس کے تازہ ترین دورے کا مقصد بھی امن معاہدے کے لیے سیاسی و مالی تعاون کو یقینی بنانا تھا۔لیکن کسی بھی امن منصوبہ کا اعلان نہ ہونا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ یہی وجہ ہے امریکی انتظامیہ ان فریقین پر دباؤ بڑھا رہی جو اس منصوبے کے مخالفت کر رہے ہیں،ان میں خاص طور پر اردن اور فلسطینی اتھارٹی شامل ہیں۔
اردن اور فلسطینی اتھارٹی ان مذاکرات کے آغاز ہی سے اس امن منصوبے کی شدید مخالفت کر رہی ہے اور اس کی معقول وجوہات بھی ہیں۔حتمی منصوبے کے حوالے سے جو معلومات آئی ہیں ان کے مطابق اس ’’معاہدے‘‘کے تحت یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کیا جائے،اسرائیلی ’’سیٹلرز‘‘کو مغربی کنارے سے واپس نہیں بھیجا جائے گااور نہ ہی فلسطینی مہاجرین کو ان کی سرزمین پر واپس بھیجا جائے گا اور اس معاہدے کے تحت اردن کے سرحدی علاقے کا کنٹرول اسرائیل کے پا س ہی رہے گا۔اور فلسطینیوں کو اس کے بدلے غزہ کی تعمیر و ترقی کے لیے مالی امداد دی جائے گی، خاص کر بجلی کی بحالی کے لیے اور انسانی بحران ختم کرنے کے لیے۔
فلسطینی اتھارٹی کے لیے یہ امن منصوبہ قابل قبول نہیں۔ فلسطین کی حالیہ تاریخ میں محمود عباس جتنے مذاکرات کے حامی صدرکوئی نہیں آئے،لیکن بہترین سیاسی اپرووچ کے باوجود وہ اس منصوبے کو نہ صرف سختی سے مسترد کر رہے ہیں بلکہ ثالثین کو قبول کرنے سے بھی انکاری ہیں۔
جب ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے اور یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیاتو فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’اب ٹرمپ انتظامیہ کا کردار اس تنازعے میں ثالث کی حیثیت سے بھی قبول نہیں کیا جائے گا‘‘۔اس کے ساتھ ہی فلسطینی اتھارٹی نے وائٹ ہاؤس سے تمام سفارتی تعلقات ختم کرنے اور واشنگٹن سے اپنا سفیر وا پس بلانے کا اعلان کر دیا۔
اس سارے کھیل میں فوجی اعتبار سے فلسطینی سب سے کمزور دکھائی دیتے ہیں،لیکن کسی بھی حتمی معاہدے تک پہنچنا ان کی مرضی کے بغیر ممکن بھی نہیں۔اگرچہ ان کے پاس فوجی طاقت نہیں لیکن صرف وہ ہی معاہدے کو قانونی حیثیت دے سکتے ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے، اسی لیے وہ فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ ڈال کر اور کبھی کبھی دھمکیاں دے کر اپنی بات منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔
PLO کے سیکرٹری جنرل صائب عریقات نے حال ہی میں امریکی انتظامیہ کی طرف سے پڑنے والے دباؤ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ کشنر اور گرین بلیٹس فلسطینی قیادت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کشنر نے ’’القدس‘‘اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر عباس مذاکرات کے عمل میں شامل ہونے کے لیے رضامند نہیں ہوں گے تو ہم ان کے بغیر ہی مذکرات کو آگے لے کر چلیں گے‘‘۔
اسی طرح اردن کے شاہ عبداللہ پر بھی امریکا اور اسرائیل کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اس معاہدے کو قبول کریں۔ کشنر کے دورہ عمان کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی شاہ عبداللہ سے ملاقات کر کے اس معاہدے پر ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔ خاص طور پر انھوں نے شاہ عبداللہ کو اس بات کا یقین دلا یا کہ اس معاہدے کے تحت یروشلم کے مقدس مقامات کا ’’متولی‘‘ اردن کا شاہی خاندان ہی رہے گا۔
اسرائیل اکثر عمان کو اس بات پر دھمکاتا رہا ہے کہ ان مقدس مقامات کی نگہبانی کا منصب اردن کے شاہی خاندان سے لے کر اپنے قریب ہوتے اتحادی ’’سعودی عرب‘‘ کو بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ لیبر پارٹی کی طرف سے اسرائیلی پارلیمان کے رکن Isaac Herzog نے سعودی تعاون سے چلنے والی ایک ویب گاہ Elaph کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’مذاکرات کے دوران جب یروشلم اور وہاں کے مقدس مقامات جیسا کہ مسجد اقصی کے حوالے سے بات ہو رہی تھی تو میں نے یہ سوچا ان مقدس مقامات کی نگرانی میں سعودی کردار بھی لازمی ہو نا چاہیے‘‘۔
مزید یہ کہ اردن میں معاشی حالات کی خرابی پر احتجاج جاری ہے (حال ہی میں IMF کے کہنے پر یہاں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی نئی ٹیکس اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں)۔ امداد پر انحصار کرنے والی معیشت کے حامل ملک اردن کواس وقت مالی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ایسے وقت میں امریکا اور اسرائیل، اردن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس موقع کو استعمال کر سکتے ہیں۔
تاہم ابھی تک تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاہ عبداللہ امریکا اور اسرائیل کے دباؤ میں نہیں آئے ہیں۔البتہ شاہ عبداللہ کے دورۂ واشنگٹن کا اعلان کر دیا گیا ہے جہاں وہ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران مختلف معاملات پر تبادلہ خیال کریں گے،جن میں اسرائیل، فلسطین امن مذاکرات پر بھی بات چیت ہو گی۔
کیاٹرمپ کی مذاکراتی ٹیم خلیجی ریاستوں سے مالی امداد کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں؟اس بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔لیکن حتمی معاہدے کے اعلان کے لیے مالی تعاون کا حصول اتنا اہم نہیں جتنا کہ سیاسی تعاون کاحصول ضروری ہے۔ سعودی عرب متعدد بار ٹرمپ انتظامیہ کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کروا چکا ہے اس لیے اس بات کاقوی امکان ہے کہ جب بھی وقت آئے گا تو سعودی عرب امریکی انتظامیہ کی پشت پر ہو گا۔
اور ویسے بھی مالی امداد غزہ میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر میں لگائی جائے گی، اس لیے سعودی عرب کے پاس ایک اچھی وجہ ہو گی کہ عوام کو یہ بتائے کہ اس نے فلسطینی مسئلے پر سودے بازی نہیں کی ہے۔ ٹرمپ کی سفارتی ٹیم مستقبل قریب میں شاید مالی تعاون کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے، لیکن اردن اور فلسطینی اتھارٹی سے سیاسی حمایت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
موجودہ فلسطینی قیادت کا تختہ الٹنا بھی شاید سود مند ثابت نہ ہو،کیوں کے ہو سکتا ہے نئی آنے والی قیادت محمود عباس سے زیادہ سخت موقف اپنائے۔اب بھی PLO اور فلسطینی اتھارٹی کے بیشتر ادارے محمود عباس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سخت فیصلے کریں،جیسا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیں اور اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی کے معاملا ت میں جاری تعاون ختم کر دیں۔ اسی طرح اردن کو راضی کرنا بھی ایک مشکل کام ہے۔وہاں کی قیادت کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں،کیوں کہ وہاں کی عوام ایسے کسی بھی معاہدے کو یکسر مسترد کر چکی ہے۔چاہے اس کے بدلے میں انھیں واشنگٹن کی طرف سے دھمکیاں ملیں یا مالی امداد۔
عمان کے لیے ایسے حالات میں اسرائیل اور فلسطین کے معاملے پر عوام کی مرضی کو نظرانداز کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا جب وہاں کے عوام نے حال ہی میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے حکومت کو گھر جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ تمام واقعات اور حالات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں اس ڈیل کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔بدقسمتی سے اس سارے عمل کے دوران مستقبل میں ہونے والے کسی قانونی معاہدے کو بھی شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
(مصنف دوحہ انسٹی ٹیوٹ،قطر میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)
“What is behind Jared Kushner’s latest Middle East tour?” (“aljazeera.com”. June 25, 2018)
Leave a Reply