یہ تو ہم کو بچپن ہی میں پڑھایا جاتا ہے کہ دنیا کے کُل رقبے کا ۳۰ فیصد حصہ زمین اور ۷۰ فیصد پانی پر مشتمل ہے۔ پانی جیسی نعمت کو اللہ تعالیٰ نے بڑی مقدار میں زمین پر اتارا ہے۔ اگر دنیا کو چند کلومیٹر کی بلندی سے دیکھا جائے تو وہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے سبز، صحرائی یا نیلی نظر آئے گی، لیکن اگر کرۂ ارض سے باہر جاکر دنیا کو دیکھا جائے تو اس پر نیلا رنگ غالب نظر آئے گا۔
دنیا کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ۱۹۵میں سے ۴۴ ملک ایسے ہیں جن کے پاس سمندر نہیں ہے جبکہ، ۱۴۵ملکوں کے پاس خوبصورت ساحل اور بندرگاہیں ہیں۔ اس وقت دنیا کی آبادی کے لحاظ سے ۳ میں سے ایک فرد ساحلی شہر میں رہتا ہے۔
ویسے تو بلیو اکانومی کے حوالے سے دنیا بھر میں متعدد کنونشن اور معاہدے موجود ہیں، لیکن ان میں سے ۲ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا ’بارسلونا کنونشن سسٹم‘ جبکہ دوسرا ’انجمن اقتصادی تعاون و ترقی‘ (او ای سی ڈ ی) کے تحت کام کر رہا ہے۔ بارسلونا کنونشن میں ماہی گیری، ماہی پروری، سیاحت، شِپنگ اور ساحلی شہروں کو آباد کرنے کے حوالے سے جامع دستاویزات تیار کی گئی ہیں۔ ان کا مرکزی خیال قدرتی ماحول اور سمندری ایکو-سسٹم کو متاثر کیے بغیر انسانی ترقی کو پروان چڑھانا ہے۔
بلیو اکانومی کے ۳ بڑے حصے ہیں، جس میں اوشین انڈسٹری، ایسوسی ایٹڈ انڈسٹری اور ایمرجنگ انڈسٹری شامل ہیں۔
بلیو اکانومی کے لحاظ سے صنعتوں کا جائزہ لیا جائے تو ماہی گیری، سمندری خوراک کی پروسیسنگ، شِپنگ، بندرگاہیں، جہاز سازی اور مرمت، آف شور آئل اینڈ گیس کی تلاش، سمندری اور ساحلی تفریح اور سیاحت، میرین بزنس سروسز، تحقیق و ترقی، ڈریجنگ کی صنعتیں تو قائم ہوچکی ہیں، اور بڑی حد تک دنیا میں مستحکم بھی ہیں، لیکن اب دنیا اس سے آگے بڑھتے ہوئے میرین ایکوا کلچر، گہرے اور انتہائی گہرے سمندر میں تیل و گیس کی تلاش، آف شور ونڈ انرجی، سمندر میں معدنیات کی تلاش، سمندری لہروں سے بجلی کا حصول، میرین سیفٹی اور نگرانی، میرین بایو ٹیکنالوجی، جیسے دیگر شعبوں میں نئی نئی جہتیں قائم کر رہی ہیں۔
پاکستان بہترین سمندری وسائل سے مالامال ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی سر کریک سے لے کر جیوانی تک ایک ہزار کلو میٹر طویل ہے، اس ساحلی پٹی کے علاوہ خصوصی معاشی زون ۲ لاکھ ۴۰ ہزار اسکوائر کلومیٹر ہے۔ اس کے ساتھ ۵۰ ہزار اسکوائر کلومیٹر کا کانٹینٹل شیلف بھی دستیاب ہے۔ ان تمام وسائل کے علاوہ اگر تھوڑا مزید غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں تو میرین صنعت کے حوالے سے ابھی ابتدائی کام بھی نہیں ہوا ہے۔
جہاز رانی
پاکستان میں جہاز رانی کے حوالے سے نیشنل شِپنگ کارپوریشن قائم ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اس کے بحری جہازوں میں اضافہ کیا گیا ہے مگر تاحال بعض شپس ایسے ہیں جو پاکستان آ ہی نہیں سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس محض ۹ تجارتی شپس ہیں، جن میں سے کوئی بھی کنٹینر کیریئر نہیں ہے۔
پاکستان سالانہ ۴ سے ۵؍ارب ڈالر محض فریٹ کی مد میں ادا کرتا ہے، کیونکہ پاکستانی پرچم بردار جہاز محض مجموعی کارگو کا ۱۶ فیصد ہی لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ۲۰۲۰ء تک کراچی اور پورٹ بن قاسم کی بندرگاہ سے تجارت ۱۰۰؍ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ چین کی برآمدات ۳ ہزار ۵۰۰ ارب ڈالر ہیں۔ اگر سی پیک کے لیے محض ۱۰ فیصد تجارت بھی پاکستان کو منتقل ہوجائے تو ۳۵۰؍ارب ڈالر کی تجارت پاکستان منتقل ہوسکتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان وسطی ایشیا اور افغانستان کے ملکوں کو بھی تجارتی سہولت فراہم کرسکتا ہے۔
اگر دنیا میں موجود بحری جہازوں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جنوری ۲۰۱۸ء میں جنرل کارگو شپس کی تعداد ۱۷ ہزار ۶۴۷، بلک کارگو شپس ۷ ہزار ۱۵۶، کروڈ آئل کے ۸ ہزار ۶۹۳ جہاز، کیمیکل ٹینکرز ایک ہزار ۳۴۵ (مگر مسلسل کمی ہو رہی ہے) کنٹینرز شپس ۴ ہزار ۲۵۹، مسافر بردار شپس ۴ ہزار ۱۳۵جبکہ لِکوئیڈ نیچرل گیس کیریئر ایک ہزار ۳۱۸ ہیں۔ دنیا میں شِپنگ انڈسٹری تبدیل ہورہی ہے اور بحری جہازوں کی تعداد کے بجائے ان کے حجم میں اضافہ ہورہا ہے۔
بندرگاہیں
پاکستان میں ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہونے کے باوجود صرف ۳ بندرگاہیں ہیں، جن میں سے ۲ بندرگاہیں کراچی کے ساحل پر ہیں جبکہ ایک گوادر میں ہے، جس کو ہم تو نہ چلا سکے لہٰذا اب چینیوں کے حوالے کی ہے۔
پاکستان کے ساحل پر ’کے ٹی بندر‘، ’گڈانی‘، ’سونمیانی‘، ’اورماڑہ‘، ’پسنی‘ اور ’جیوانی‘ کے ساحلوں پر قدرتی طور پر بندرگاہ کی تعمیر کے مواقع موجود ہیں۔ مگر صرف کے ٹی بندر پر چین کے تعاون سے جدید پورٹ قائم کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی پر کراچی کے علاوہ آبادی نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا ان تمام علاقوں میں بندرگاہیں بنا کر وہاں کی معاشی ترقی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں کئی ہزار بندرگاہیں موجود ہیں۔ امریکا میں بندرگاہوں کی تعداد ۵۲۲، آسٹریلیا میں ۱۰۶، چین میں ۱۷۲، کینیڈا میں ۲۳۹، ڈنمارک میں ۱۵۹، فرانس میں ۲۶۸، اٹلی میں ۳۱۱، یونان میں ۱۰۳؍اور انڈونیشیا میں یہ تعداد ۱۵۴ہے، جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں ۷۶ چھوٹی بڑی بندرگاہیں موجود ہیں۔
دنیا بھر میں بندرگاہوں سے متعلق رجحان میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے، اب بندرگاہیں محض سامان کی نقل و حرکت کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ایک جدید صنعتی زون کو سپورٹ کرتی ہیں۔ اس کی مثال بھارت میں قائم ’کاندلا پورٹ کمپلیکس‘ ہے، جہاں خام تیل کو ان لوڈ، ذخیرہ اور صاف کرنے کے بعد دوبارہ برآمد کردیا جاتا ہے۔ اس پورٹ سے بھارت سالانہ ۲۶؍ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے جو کہ بھارت کی مجموعی برآمدات کا ۶ء۱۰فیصد ہے۔
پاکستان میں کراچی کی بندرگاہ کے قریب جہاں صنعتی علاقہ بنایا جاسکتا تھا وہاں پر اب کچی آبادیاں قائم ہیں جبکہ پورٹ بن قاسم کے صنعتی علاقے میں زیادہ تر درآمدی صنعتیں قائم کی گئی ہیں۔ پاک بحریہ کے سابق کمانڈر فلیٹ عارف اللہ حسینی کا کہنا تھا کہ اگر سی پیک سے فائدہ اْٹھانا ہے تو کراچی کی بندرگاہ کے اطراف موجود کچی آبادیوں کو دیگر جگہوں پر منتقل کرکے وہاں اسٹوریج، ڈمپنگ اور ایسوسی ایٹڈ صنعت قائم کرنی ہوگی۔
ماہی گیری اور سمندری خوراک کی پروسیسنگ
انسانی خوراک کی فراہمی چین میں زمینی خوراک کے علاوہ پانی میں پائی جانے والی خوراک اور نباتات بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں زمینی خوراک پر دباؤ بڑھنے کے ساتھ ساتھ پانی کی خصوصاً سمندری خوراک پر رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ سمندر میں پائے جانے والے جانور سفید گوشت فراہم کرتے ہیں جو صحت کے لحاظ سے زمینی جانوروں کے سرخ گوشت کے مقابلے زیادہ غذائیت اور صحت افزا ہوتا ہے، اسی لیے عالمی خوراک کی تجارت میں پانی سے حاصل ہونے والی خوراک کی بڑے پیمانے پر تجارت کی جاتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے خوراک و زراعت کے مطابق سال ۲۰۱۳میں عالمی سطح پر مچھلی اور سمندری خوراک کی تجارت ۷۴۱؍ارب ڈالر کے لگ بھک رہی۔
عالمی تناظر میں دیکھیں تو ماہی گیر خوشحال زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ماہی گیری کی صنعت نہایت جدید بھی ہوگئی ہے۔ اس صنعت سے وابستہ افراد کی تعداد ۵ کروڑ سے زائد ہے، جس میں سے ایک کروڑ ۸۸ لاکھ ایکوا کلچر سے وابستہ ہیں اور مچھلی کے شکار سے وابستہ افراد کی تعداد ۳ کروڑ ۷۹ لاکھ ہے۔
سمندر کنارے آباد پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے، لیکن اس کی معیشت اور ترقی میں اہم کردار یہاں کی بندر گاہوں کا ہے۔ یہاں آباد ہونے والوں کی اکثریت مچھلی کو بطور بنیادی غذا استعمال نہیں کرتی، اسی لیے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں آباد ماہی گیر غربت اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں حکومتی اور سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مچھلی کے شکار اور مارکیٹ کا انفرا اسٹرکچر بہت ہی کمزور ہے۔ جن کشتیوں پر ملاح شکار کے لیے جاتے ہیں، وہ بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ اکثر کشتیاں پرانی بوسیدہ اور ٹوٹی پھوٹی ہیں، جن کی وجہ سے اکثر حادثات بھی ہوتے ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے اکثر پابندیوں کی وجہ سے اس شعبے میں سرمایہ کاری بھی مناسب سطح پر دستیاب نہیں ہے۔
پاکستان دنیا میں مچھلی پکڑنے والے ۳۰ بڑے ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جس میں سے صرف ۱۰ فیصد مچھلی ہی برآمد ہوپاتی ہے۔ پاکستان سالانہ ایک ارب ڈالر مالیت کی مچھلی برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ مالی سال ۱۷۔۲۰۱۶ء میں محض ۳۰ کروڑ ڈالر مالیت کی سمندری خوراک برآمد کی گئی۔
پاکستان کے مقابلے میں خطے کے دیگر ملکوں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ چین ۲۰؍ارب ڈالر، تھائی لینڈ ۱۲؍ ارب ڈالر، بھارت ۳؍ارب ڈالر کی مچھلی اور دیگر سمندری خوراک برآمد کرتا ہے۔
اس شعبے کو فروغ دینے کے لیے ایکوا کلچر، فشنگ کو جدید بنانے، تجارتی ماحول، پیکجنگ اور پروسیسنگ، اور دیگر انفرا اسٹرکچر میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
جہاز سازی اور مرمت
ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے چین، جاپان اور جنوبی کوریا نے معاشی ترقی کے لیے جہاز سازی کی صنعت کو فروغ دیا۔ کوریا کی ۲ کمپنیاں ہنڈائی ۲۵؍ارب ڈالر اور ڈیوؤ ۲۰؍ارب ڈالر سالانہ جہاز سازی سے کماتی ہیں، جبکہ چین کی کمپنی کے سالانہ آرڈر کی مالیت ۱۵؍ارب ڈالر ہے۔ جہاز سازی کی صنعت میں سال ۲۰۱۶ء میں ۷۵ء۷۹؍ارب ڈالر کے آرڈر بک ہوئے، جس میں سے ۵۴؍ارب ڈالر کے آرڈر صرف جنوبی کوریا کے پاس ہیں۔
جہاں بھارت میں ۴۶؍ اور بنگلادیش میں ۲۳ شپ یارڈ ہیں وہیں پاکستان میں صرف ایک شپ یارڈ موجود ہے۔ وزیراعظم نے گوادر میں شپ یارڈ قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اب اس پر کب تک عمل ہوگا یہ دیکھنا باقی ہے۔
جہاز سازی کی صنعت سے ڈاؤن اسٹریم صنعت بھی فائدہ اٹھاتی ہے، جس میں ہائی ٹیک، میڈیم ٹیک اور لو ٹیک صنعتیں شامل ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ایک جہاز سازی کا کارخانہ ہونے کے باوجود کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئیرنگ ورکس مقامی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ برآمدات بھی کرتا ہے۔
ساحلی تفریح اور سیاحت
دنیا بھر میں ۸۰ فیصد سیاحت سمندر پر ہوتی ہے۔ عالمی جی ڈی پی کا ۵ فیصد اور ملازمت کے مواقع کا ۷ فیصد سیاحت سے وابستہ ہے۔ دنیا کے ۱۵۰ ملکوں کی سب سے بڑی آمدنی سیاحت سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں کوسٹل اور میرین ٹورازم کے حوالے سے کوئی اسٹڈی اور اعداد و شمار کو بھی اکھٹا نہیں کیا گیا ہے۔ کراچی کے ساحل کے علاوہ پاکستان کی کوسٹ لائن کا بڑا حصہ آلودگی سے پاک ہے اور وہاں بہترین ماحول میں تفریح کی جاسکتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ساحلی تفریح کا کوئی خاص انفرا اسٹرکچر موجود نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ساحلوں پر تفریح کے لیے متعدد اقدامات کیے جاتے ہیں، جن میں سب سے اہم سیفٹی ہے۔ مگر پاکستان میں اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔ کراچی کے ساحل پر ہر سال اوسطاً ۱۰؍افراد ڈوب کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’ڈان‘‘ میں ایک تحریر پہلے ہی شائع ہوچکی ہے۔
مگر کچھ لوگ ذاتی سطح پر یہ اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ اس میں بعض کمپنیاں ایسی قائم ہیں جو سمندر میں تفریح سے متعلق سیاحتی ٹؤرز کا اہتمام کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں ۲ ہزار روپے سے لے کر ۱۰ ہزار روپے فی فرد کے حساب سے تفریح کا بندوبست کرتی ہیں۔ کراچی میں چرنا آئی لینڈ پر تفریح کا تجربہ میں خود بھی کرچکا ہوں، نوجوانوں کے لیے یہ ایک بہترین جگہ ہے۔ اس سیاحتی تفریح میں سب سے اہم بات مقامی ماہی گیر آبادی کو روزگار ملنا ہے۔
وہاں میری ملاقات مبارک ویلیج کے جمیل صاحب سے ہوئی جو خود بھی ماہر ماہی گیر، بہترین تیراک اور انتہائی ہنس مکھ انسان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چرنا آئی لینڈ پر سیاحت شروع ہونے سے انہیں بہت فائدہ ہورہا ہے۔ پورا ہفتہ مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور ہفتہ اتوار کو لوگوں کو چرنا کی سیر کراتے ہیں۔ مگر یہ کاروبار ہفتے کے مخصوص دنوں اور سال کے مخصوص مہینوں میں ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ مئی، جون، جولائی، اگست اور ستمبر میں سمندر میں طغیانی اور لہروں کی اونچائی کی وجہ سے تفریح کیا ماہی گیری بھی مشکل ہوجاتی ہے۔
اسی طرح اگر آپ سی فوڈ کے شوقین ہیں تو بوٹ بیسن کیماڑی سے ایک کشتی بک کرائیں جو آپ کو کیماڑی کے چینل میں لے جائے گی، وہاں تازہ فرائی مچھلی، چھینگے کی بریانی اور کیکڑے سے آپ کی تواضع کی جائے گی۔ مگر کراچی کی بندرگاہ خصوصاً کیماڑی بوٹ بیسن پر بڑھتی ہوئی آلودگی اور سخت سیکیورٹی کی وجہ سے یہ کاروبار بھی متاثر ہورہا ہے۔
ساحلی تفریح میں مچھلی کا شکار، سمندر میں محفوظ تیراکی، اسکوبا ڈائیونگ، سی سرفنگ، سمندر کی سفاری اور دیگر کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں، جس کے لیے لوگ پیسے بھی خرچ کرنے کو تیار ہوجائیں گے۔ مگر اس کے لیے مضبوط انفرااسٹرکچر، حفاظتی انتظامات اور مناسب کاروباری ماحول کو مرتب کرنا ضروری ہے۔
ڈی سیلینشین
پاکستان دنیا کے ان خطوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ اس حوالے سے سمندر کے بڑے ذخیرے کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ڈی سیلینشن کی صنعت کو فروغ دینا ہوگا، یوں ساحل کے قریبی علاقوں کو کھارا پانی قابلِ استعمال بنا کر فراہم کیا جاسکتا ہے۔
آف شور رینو ایبل انرجی
دنیا بھر میں سمندر سے بجلی پیدا کرنے پر تحقیق کی جارہی ہے اور اس تحقیق کی وجہ سے متبادل توانائی میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ میری ٹائم ونڈ پاور تیزی سے ترقی کررہی ہے اور ۲۰۵۰ء تک ونڈ پاور کا تیسرا حصہ میری ٹائم ونڈ پاور سے دستیاب ہوگا۔ اس کے علاوہ سمندر کی لہروں سے توانائی حاصل کر رہی ہے۔
پاکستان میں ساحلی ونڈ ملز سے ۴۰ ہزار میگا واٹ اور لہروں سے ۱۱۰۰؍میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو اپنانے سے گرین گروتھ کرنی ہوگی اور ماحول کو محفوظ کرتے ہوئے اس ترقی کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکے گا۔
تیل، گیس اور معدنیات
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ پاکستان کے ساحل، معاشی زون اور کانٹیننٹل شیلف کا رقبہ کس قدر وسیع ہے اور اس میں بڑے پیمانے پر معدنیات اور ہائیڈرو کاربن بھی دستیاب ہوتے ہیں۔
پاکستان کے خصوصی معاشی زون اور کانٹیننٹل شیلف میں کس قدر ہائیڈرو کاربن موجود ہیں؟ اس حوالے سے کوئی سائنسی تحقیق یا سروے نہیں کیا گیا ہے۔ مکران کی کوسٹل بیلٹ میں اس حوالے سے ایک سروے چینی حکومت کے تعاون سے فروری میں کیا گیا تھا، جس کی رپورٹ بیجنگ میں جاری کی گئی۔ اس رپورٹ میں مکران کی کوسٹل بیلٹ پر موجود سمندری حیات کے علاوہ وہاں موجود معدنیات اور ہائیڈرو کاربن کا اندازہ لگایا جانا تھا۔
اس وقت دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ایک مرتبہ پھر بلندی کی طرف گامزن ہیں اور اگر عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت ۶۰ ڈالر فی بیرل سے زیادہ رہتی ہے تو پاکستان میں آف شور ڈرلنگ کے امکانات معاشی طور پر روشن ہوسکتے ہیں مگر اس کے لیے مکمل ڈیٹا اور سروے کرنا ضروری ہے۔
کاربن کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان سمندر سے ایک لاکھ ٹن سے زائد میگنیشم، ۸؍ارب ٹن سے زائد تانبا اور نکل کے ذخائر حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ساحل کے قریب بھی متعدد معدنیات پائی جاتی ہیں۔
پاکستان میں بلیو اکانومی کے لیے بہت سے مواقع موجود ہیں مگر اس کے لیے حکومت اور فیصلہ سازوں کو سمندر کی طرف دیکھنے اور اس کے معاشی فوائد کو پہچاننے کی ضرورت ہے، کیونکہ سمندر پاکستان کی خوشحالی میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
(بحوالہ: ’’ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی‘‘۔ ۱۳؍مارچ ۲۰۱۸ء)
Nice informations thank you