گوئبلز (Goebbels) ہٹلر کا پروپیگنڈا وزیر تھا، اس کا قول مشہور ہے کہ ’’جھوٹ بولو، اسے اتنا پھیلاؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں‘‘۔
دَور حاضر میں لفظ ’’کرپشن‘‘ کی جو بے تحاشا تکرار ہوئی اس پر اسی گوئبلی فلسفے کا اثر ہے۔ خود ہمارے ملک میں کچھ سیاسی عناصر کی کرپشن کے بارے میں اسی گوئبلی فلسفے کا آغاز کرنے سے پہلے ۲۰۱۱ء موجودہ برسراقتدار گروہ کے سرخیلِ اول کا ایک جملہ جسے اس وقت سیاسی لطیفہ سمجھ کر نظرانداز کیا گیا، وہ ہوسِ اقتدار کی ایک خاص ذہنیت کی عکاسی کر رہا تھا۔ شاید پروپیگنڈے کی دھول میں دب کر بہت سے لوگوں کی سوحِ یاد پر نہ رہا ہو، جملہ کچھ یوں تھا: ’’میاں صاحب جانڑ دیو، ہُن ساڈی باری آنڑ دیو‘‘۔ پنجابی کے اس جملے کا مخاطب ۲۰۱۳ء میں تیسری بار وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف تھے جنہیں کہا جارہا تھا کہ اقتدار میں اب ہمیں باری دیں۔ جب یہ بات کی گئی تھی اس وقت یہ علامات ظاہر تھیں کہ جس سے باری مانگی جارہی ہے، وہ اپنے کندھے سے اسٹیبلشمنٹ کا جُوا اتار پھینکنے اور سیاست کو ترکی کی طرز پر فوجی مداخلت سے پاک کرنے کے موڈ میں ہے اور دوسری طرف جو باری مانگ رہا ہے وہ ’امپائر‘ کی مدد سے اقتدار کا ’میچ‘ جیتنے کا تہیہ کر چکا ہے۔ ۲۰۱۴ء کے شہرہ آفاق دھرنے کے وقت اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے سودا کیا جاچکا تھا۔ اس وقت منصوبے میں شامل سب عناصر نے طے کر لیا تھا کہ کرپشن کو بیانیہ بنا کر جن سے باری مانگی جارہی ہے ان کے دامن پر ہر طرف سے بدنامی کے چھینٹے اڑائے جائیں۔ کرپشن کے غبارے میں گوئبل کے فلسفے کے مطابق پروپیگنڈے کی اتنی ہوا بھری جائے اور اسے اتنا اونچا اٹھایا جائے کہ لوگ جدھر سے نگاہ ڈالیں انہیں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی کرپشن کے اشتہار والا یہ غبارہ نظر آئے۔
کرپشن کا داغ لگا کر مخالفین کو راستے سے ہٹانے کا یہ تجربہ دیگر کئی ملکوں میں بھی کیا گیا۔ اس گوئبلی تجربے کے لیے سفاک فسطائی مزاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا ضروری کام یہ کرنا ہوتا ہے کہ لفظ کرپشن کو اس کے وسیع ترین مفہوم سے ہٹا کر صرف مالی بدعنوانی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ فاشسٹ طبقے کو یہ ہوتا ہے کہ اس کی بداخلاقی، ظلم و جبر، جھوٹ اور فریب پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔ پھر اس لفظ کرپشن کو اخلاق، انسانیت و شرافت سے کاٹ دیاجائے تو نسل پرستی، اندھی نفرت اور سفّاک تعصب جیسے بہت سے دوسرے غیر انسانی رویے بروئے کار لانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ چین سے لے کر امریکا تک اور یورپ سے لے کر روس اور وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے لے کر مشرقِ بعید تک اور افریقا سے لے کر ہمارے ملک سمیت جنوبی ایشیا تک کون سی جگہ ہے جہاں لفظ ’کرپشن‘ کی گونج ہے لیکن کہیں بھی اسے وسیع تناظر اور اس کے انتہائی اہم اخلاقی پہلوؤں کی روشنی میں نہیں دیکھا جاتا ہے۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مالی بدعنوانی کرپشن نہیں یا یہ معمولی جرم ہے۔ کرپشن کی یہ صورت موجود ہی ہے اور ناقابل برداشت ہے۔ خود ہمارے ملک میں سیاست دان، فوجی، اعلیٰ اور ادنیٰ فوجی افسر، بیورو کریٹ، جرنیل، جرنلسٹ، بڑی کاروباری شخصیات، چھوٹے بڑے سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین، کہیں زیادہ اور کہیں کم، اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن جس حوالے سے میں کرپشن کا ذکر کر رہا ہوں وہ کچھ اور ہے۔ کرپشن کا الزام اپنے ذاتی یا پارٹی، یا گروہی و نسلی مقاصد حاصل کرنے، کسی حکومت کو گرانے، کسی کو اقتدار میں لانے، کسی کو فنا کے گھاٹ اتارنے اور کسی کو بقا بخشنے، مخالفین کو ذلیل و خوار بلکہ ملیا میٹ کرنے کا بڑا موثر حیلہ و ہتھیار بن گیا ہے۔ چین کا صدر سیاست دانوں اور کمیونسٹ پارٹی کے اندر اپنے حریفوں کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ جن کو اپنا مخالف سمجھتا ہے، ان کے گلے میں کرپٹ کا ٹیگ ڈال کر گولی یا پھانسی سے انجام تک پہنچا دیتا ہے۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان سے باہر بہت مالدار شخصیات اور گھرانے موجود ہیں، جن کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے اربوں کے حساب سے مال بنانے میں کوئی بدعنوانی نہیں کی ہوگی۔ لیکن چونکہ وہ سعودی بادشاہ اور ولی عہد کے وفادار ہیں، اس لیے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ ولی عہد نے خاندان میں اپنے سارے حریف اور حاسد شہزادوں پر کرپشن کا الزام لگایا، کئی روز تک انہیں ایک رٹز جیسے ڈیلکس ہوٹل میں محبوس رکھا، ان کی ساری دولت نکلوا کر ان کے اثر و رسوخ کی ساری بِس نکال دی۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخصیت یا پارٹی جتنی طاقتور اور بااختیار ہوتی ہے، اس کے مزاج میں اسی قدر فسطائیت بھی پروان چڑھتی جاتی ہے۔ فسطائیت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ بے رحم ہوتی ہے، وہ مخالفت کو گوارا نہیں کرتی۔ وہ اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے ہر مکروہ تدبیر کرتی ہے اور کچلنے کے عمل کا جواز نکالنے کے لیے آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ اُن پر کرپشن کا الزام لگا دیا جائے۔ فسطائیت ہٹلر اور مسولینی پر ختم نہیں ہو گئی، یہ ایک نظریہ ہے، ایک مزاج اور فطرت ہے، جو ہر دور میں نئے عنوان کے ساتھ اپنا وجود منواتی ہے۔ نیتن یاہو کی صہیونی سوچ میں فلسطینی اور حماس ’شر‘ کی علامت ہیں، اس شَر کو جڑ سے اکھاڑ ڈالنا اس کے صہیونی ایجنڈے کا اولین تقاضا ہے۔ مصر کے فوجی آمر نے ملکی معیشت کو اسی سطح پر پہنچا دیا ہے، جس سطح پر ہماری معیشت کو عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت نے پہنچا دیا، مگر عبدالفتح السیسی کی فسطائی سوچ میں اخوان المسلمون کا خاتمہ کیے بغیر اس کے جابرانہ اور سفاکانہ اقتدار کی بقا ممکن نہیں، اس لیے اس کے نزدیک اخوان کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنا لازم ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی کرپٹ ذہنیت نے اقتدار تک پہنچنے کے لیے اپنا ایک نسل پرستانہ بیانیہ متعارف کرایا۔ اس نے صدارتی انتخابی مہم میں امریکا کی اصل گوری نسل کے نوجوان طبقے کے ذہنوں میں یہ تاثر بٹھایا کہ ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ اسپینیوں، مسلمانوں اور دنیا بھر سے آکر امریکا میں بس جانے والے بلیک اور براؤن باشندوں نے حصہ دار بن کر اصل امریکیوں کو معاشی، سماجی اور تہذیبی و ثقافتی طور پر پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ان اقلیتوں کو ٹھکانے لگائے بغیر گوری امریکی نسل کے مفادات کا تحفظ ممکن نہیں۔
بھارت میں آر ایس ایس کی کرپٹ ذہنیت کا اپنا نسل پرستانہ فلسفہ ہے۔ اس کے مطابق بھارت کی دھرتی برہمن ہندوؤں کی ’ماتا‘ ہے۔ مسلمان اس دھرتی پر ’گھس بیٹھیے‘ ہیں۔ وہ اس دھرتی کو اپوتر یعنی ناپاک کر رہے ہیں۔ ان کا استتوہ سماپت کرنا اوشیک ہے، یعنی ان کا مٹانا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو اس دھرتی پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، اگر رہیں تو پھر ہندو ہو کر رہیں۔
حکومتی، انتظامی اور عوامی حلقوں میں مالیاتی بدعنوانی نہ نئی چیز ہے اور نہ ہی کبھی کسی معاشرے نے اسے قانونی اور اخلاقی سندِ جواز بخشی۔ ہر دور میں ہر جگہ کرپٹ افراد کے عمل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ کرپشن کو صحیح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے۔ چھوٹے یا بڑے پیمانے پر مالیاتی ہیر پھیر، Kickbacks، غبن، دھوکا فریب، جھوٹ اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے مال بنانا کرپشن کی معروف صورت ہے۔ کرپشن کا تصور مالی بدعنوانی میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے اخلاقی پہلو کو اہمیت نہیں دی جاتی، انسان کے اندر جلَب زر اور غصب و نہب کا رجحان دراصل ایک فساد زدہ ذہنیت اور پست اخلاقی رویے اور حرص و ہوس کے میلان کا نتیجہ ہوتا ہے۔ فطرت میں بیٹھا ہوا بگاڑ اور فساد حرام خوری ہی نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہولناک حرکات میں مبتلا کر دیتا ہے۔ قوم و ملک سے بے وفائی اور غداری تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ سورۃ اعراف کی ۵۶ ویں آیت ہے کہ ’’زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کے پیغمبروں، مصلحین، داعیانِ حق کی مساعی سے انسانی معاشرت، تمدن اور اخلاق میں جو اچھائی کا شعور اجاگر ہوا ہے اور اصلاح کی صورت پیدا ہوئی ہے اسے پھر بگاڑ کی نذر نہ کردو۔
قرآن پاک کے ڈیڑھ درجن سے زیادہ انگریزی ترجمہ نگاروں میں سے تقریباً نصف نے لَا تُفْسِدُوْا کا ترجمہ do not corrupt, do not spread corruption, cause not corruption, do not corruption کیا ہے۔
ان ترجموں سے مترشح ہوتا ہے کہ معاشرے کی صالح روایات، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور نیکی اور راستی کی روش اور تہذیب و شائستگی کے طرزِ عمل میں بگاڑ پیدا کر دینا کرپشن ہے۔ اصول، قاعدے اور ضابطے سے ہٹ کر کیا جانے والا ہر عمل کرپشن ہے۔ ملکی آئین اور دستور سے ماورا کوئی اقدام خواہ ملک کا صدر اور وزیراعظم کرے، انتظامی مشینری کے چھوٹے بڑے اہلکار کریں، چیف جسٹس کرے یا عسکری اداروں کے سربراہ کریں، یہ کرپشن ہے۔ حکومت کی اہم پوزیشن پر فائز شخصیات کا قواعد و ضوابط توڑ کر اقربا پروری اور دوست نوازی، خاص افراد اور گروہوں کو بے جواز اور ناحق فائدہ پہنچانا کرپشن ہے، قطع نظر اس سے کہ نوازش و عنایت کرنے والی شخصیات میں سے کسی نے خود اس سے فائدہ اٹھایا نہیں۔ سرکاری محکموں کے بعض افسر اگر رشوت خور نہ ہوں مگروقت پر دفتر نہ پہنچیں اور وقت سے پہلے دفتر سے چلے جانے کے عادی ہوں تو ان کا یہ طرزِ عمل کرپشن کی ایک قسم ہے۔ سرکاری دفتروں میں بڑے افسروں کے آنے سے بہت پہلے گرمیوں میں اے سی اور پنکھے چلنے لگیں اور سردیوں میں گیس کے ہیٹر چالو کر دیے جائیں تو یہ اخلاقی اور معاشی پہلو سے کرپشن ہے۔ حج اور عمرہ عبادت ہیں، اگر اعلیٰ آئینی و انتظامی منصب پر فائز شخصیات سرکاری خرچ پر نہ صرف خود حج و عمرہ کریں بلکہ اپنے اہالی و موالی اور اعزہ و اقارب اور دوست احباب کو بھی یہ ’ثواب‘ لوٹنے کے لیے ساتھ لے جائیں تو اسے کرپشن کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
جس نظام میں کرپشن کے خاتمے پر مامور سب سے بڑے احتسابی ادارے کا سربراہ عمر رسیدگی کے باوجود اپنے دفتر میں ایک خاتون کے ساتھ نازیبا اور منافی حیا حرکات کرتا پایا جائے اور اس کی وڈیو چلے اور وہ پھر بھی اپنے منصب پر قائم رہے، وہ نظام کرپٹ ہی نہیں بلکہ اخلاقی فساد کی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ عہد و پیمان کی پاسداری اسلامی اخلاقیات کا بنیادی اصول اور قرآن و حدیث کی زریں تعلیم ہے۔ اگر ریاست، حکومت اور معاشرے میں عہد و پیمان کی پاسداری نہ ہو تو سارا نظام بے اعتبار ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ اخلاقی فساد کی آخری حد نہیں کہ ملک کا آئینی سربراہ رہنے والے ایک شخص کا فلسفہ ہے کہ عہد معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ ان سے پھرا نہ جاسکے۔ اس کرپٹ اور فاسد نظام کا حال یہ ہے کہ دوسروں پر پبلک اور عدالتوں میں کرپشن کا کیس لڑنے والے وزیراعظم کا اپنا نظریہ ہے کہ ’یو ٹرن (U Turn) بڑے لیڈر کا امتیازی نشان ہے اور جو لیڈر یوٹرن نہ لے وہ لیڈر ہی نہیں‘۔ اس شخص کے نظریے کے مطابق اپنے وعدوں سے پھرنا بڑے لیڈر کی امتیازی خصوصیت ہے۔ گورننس کے اعتبار سے ملکی تاریخ میں پست ترین مثال کو ’مدینہ کی ریاست‘ کہنا ایمانی اور اخلاقی اعتبار سے کرپٹ ہونے کی واضح نشانی ہے لیکن چونکہ کرپشن کو نہ عدالتیں اس کے وسیع اور صحیح مفہوم میں لیتی ہیں، نہ پارلیمنٹ اس کی صحیح تعریف کرتی ہے، نہ مذہبی جماتیں اس کا گہرا اور جامع مفہوم بتاتی ہیں اس لیے اپنی بار بار کی کہہ مکرنی اور عہد شکنی پر فخر کرتا ہے تو اس پر کوئی گرفت نہیں ہوتی۔
لفظ فساد کے لیے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ کرپشن کا لفظ ہی آیا ہے۔ جھوٹ، اِفترا، مبالغہ، الزام تراشی، سنی سنائی باتوں کو حقیقت باور کراکے بے بنیاد پروپیگنڈا، مخالفین کے لیے بدزبانی، تضحیک، توہین اور بدتمیزی ایک عام آدمی کی روش ہو تب بھی معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ لیکن اگر ملک کا کوئی بزعمِ خود مقبول لیڈر یہ سارے کام کرے تو اس سے پیدا ہونے والا فساد نظام کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو، الطاف حسین اور عمران خان جیسے تین سیاست دانوں نے اس مکروہ و مذموم روش کو سیاسی کلچر بنا دیا اور اپنی اپنی پارٹی سے وابستہ نوجوانوں کے ذہنوں کو اخلاقی گندگی سے آلودہ کر دیا۔ اس روش نے رواداری، تحمل، برداشت، احترام جیسی اعلیٰ اقدار کو تباہ کر دیا اور ملکی سیاست کو شدید اعصابی تناؤ اور کشیدگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیا اسے کرپشن نہ کہا جائے؟ اہلِ دانش و فکر، علما اور سیاسی مدبروں پر لازم ہے کہ کرپشن کا جامع اور شامل مفہوم متعین کریں۔ قلب وذہن ایمان کی روشنی، خدا خوفی کے احساس اور اخلاقی تصور سے عاری ہو تو کسی سے دیانت و امانت کی توقع عبث ہے۔ دلوں میں حلال اور حرام میں امتیاز کرنے والا حِسّی اور شعوری ترازو نصب نہ ہو تو حرام سے بچنے کی امید کرنا فریب ہے۔ مجموعی طور پر سارا معاشرہ اخلاقی جوہر سے خالی ہے۔ ایک ریڑھی والے سے لے کر جنرل اسٹور والے تک، فٹ پاتھ پر بیٹھے جوتے گانٹھنے والے سے لے کر صنعتکار تک، ایک مزدور سے لے کر مل اور فیکٹری کے مالک تک، ایک ادنیٰ سول یا سرکاری اہلکار سے لے کر سیکرٹری تک، ہر آدمی مادیت کی دوڑ میں شریک ہو اور معیارِ زندگی کے مقابلے میں شامل ہو تو ہوس کی لگی آگ اداروں سے لے کر قومی وقار تک سب کچھ خاکستر کرکے رہتی ہے۔ مالیاتی بدعنوانی بلاشبہ کرپشن ہے، لیکن یہ زہریلا پھل اس لیے لگا کہ سارے چمن میں زہریلے مادوں والی شجرکاری ہوئی ہے۔
کرپشن کی ٹھیک ٹھیک تعریف متعین کیے بغیر اس کے بارے میں نقطہ نظر اور عملی رویہ نہیں بدلا جاسکتا۔ سو پہلے اس کی ایک جامع تعریف کیجیے۔
Leave a Reply