امن کا عالمگیر اشاریہ کیا کہہ رہا ہے؟

آپ اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ لوگ امریکا جانے کے لیے بے تاب ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ امریکا میں امن و امان ہے اور لوگ پرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں، تو آپ کی رائے مکمل طور پر غلط ہے۔ اگر امن کی صورت حال کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو امریکا ۱۴۹ میں ۸۵ ویں نمبر پر ہے۔ یہ انکشاف گلوبل پیس انڈیکس کا ہے جو ۲۳ مقداری اور معیاری اشاریوں کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ سیکورٹی کی صورت حال کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کے علاوہ چین، چلی، گھانا، سیرالیون، لیبیا اور کیوبا بھی امریکا سے بہتر ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کی اپنی حدود میں بھی امن ہے اور پڑوس میں بھی امن و امان ہے۔

امن و امان کی بہتر صورت حال کے حوالے سے کینیڈا ۱۴ویں، جرمنی ۱۶ ویں، آسٹریلیا ۱۹ ویں، اسپین ۲۵ ویں، برطانیہ ۳۱ ویں، فرانس ۳۲ ویں اور اٹلی ۴۰ ویں نمبر پر ہے۔

گزشتہ سال کی طرح نیوزی لینڈ امن و امان کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ اس کے بعد آئس لینڈ، جاپان، آسٹریا، ناروے، آئرلینڈ، ڈنمارک، لگزمبرک، فن لینڈ اور سوئیڈن ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے امن عامہ میں خلل ڈالنے والے تشدد پر بہت حد تک قابو پالیا ہے۔

گلوبل پیس انڈیکس نے اپنی رپورٹ میں جنوبی ایشیا کو بد امنی کے حوالے سے سرفہرست خطہ قرار دیا ہے۔ عالمی معاشی بحران کے باعث معاشرتی بے چینی اور جرائم میں غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل پیس انڈیکس کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۷ء سے اب تک جنوبی ایشیا شدید عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب پاک بھارت اور بھارت سری لنکا کشیدگی ہے۔ عالمگیر سطح پر بدامنی کے باعث ایک سال میں سات ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اگر اس رجحان پر قابو پایا جائے تو کئی عالمگیر مسائل تیزی سے حل ہوسکتے ہیں۔ گلوبل پیس انڈیکس کے مطابق عراق، صومالیہ، افغانستان اور سوڈان سب سے خطرناک ممالک ہیں۔ یہ رپورٹ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس نے مرتب کی ہے اور اس میں اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی فراہم کردہ معلومات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ عالمی فوجی اخراجات میں امریکا کا حصہ ۵۴ فیصد ہے۔ پرتگال، آئرلینڈ، اٹلی، یونان اور اسپین میں بدامنی کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔ بدامنی کے حوالے سے گیارہ بدترین ممالک میں عراق، صومالیہ، افغانستان، سوڈان، پاکستان، اسرائیل، روس، جارجیا، چاڈ، کانگو اور شمالی کوریا شامل ہیں۔

گلوبل پیس انڈیکس کے بانی اور آسٹریلوی مخیر شخصیت اسٹیون کلیلی کا کہنا ہے کہ انڈیکس میں امن کی پیمائش کا معیار تشدد کا نہ ہونا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گلوبل پیس انڈیکس کا بنیادی مقصد صرف صورت حال کی عکاسی ہے، کوئی اخلاقی فیصلہ صادر کرنا نہیں۔ اسٹیون کلیلی امن پر مبنی معیشت کے حق میں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امن خاصی سستی چیز ہے۔ اگر دنیا بھر میں امن کو اپنانے کی روش پر گامزن ہونے کی کوشش کی جائے تو خرابیاں دور کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ کلیلی کہتے ہیں کہ امن کا تصور ہر دور میں تبدیل ہوتا رہا ہے اور دنیا میں امن کی معیشت کا تصور نیا ہے۔ لوگ اب تک اسے قبول نہیں کر پائے ہیں۔ بہت سے ممالک میں یہ بات کسی کے حلق سے اتر ہی نہیں رہی کہ ہر طرح پرامن رہتے ہوئے بھی معیشت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی قیمت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکا میں سیکورٹی پر جو کچھ خرچ کرنا پڑرہا ہے اس کے بارے میں سوچیے تو خرابی کا اندازہ بہتر طور پر ہوسکے گا۔ امریکی ایئر پورٹس پر سیکورٹی کے نام پر اب بھی کروڑوں ڈالر ضائع کیے جارہے ہیں اور مسافروں کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ عراق پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ امریکی قوم کے اربوں ڈالر اب بھی تلف ہو رہے ہیں۔

دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بنیاد پر پرامن حالت کا تعین خاصا مشکل کام ہے۔ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ۶ ماہرین کے بورڈ نے ان حالات کا تعین کیا جن میں امن کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ جیل کے قیدیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ معاشرتی اضطراب کا بھی جائزہ لیا گیا تاکہ ممکنہ تشدد کی بھی پیمائش ہوسکے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی معاشرے میں چھوٹے ہتھیاروں تک عوام کی رسائی کس حد تک ہے۔ سیاسی عمل، جمہوری اقدار اور دیگر سیاسی امور کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا تاکہ کسی بھی معاشرے میں امن پسندی کی حقیقی سطح تک پہنچنا ناممکن نہ رہے۔

اسٹیون کلیلی نے انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس بھی قائم کیا ہے۔ یہ تھنک ٹینک معاشی ترقی، کاروبار اور امن کے درمیان تعلق کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے صدر کلائڈ مک کونیگی کہتے ہیں کہ امن کے ذریعے معاشی ارتقا کو فروغ دینا ایک منفرد تصور ہے۔ دنیا بھر میں محققین، حکومتیں اور مخیر حضرات اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ پرامن معاشروں میں تیز رفتار ترقی کو یقینی بنانا ایک ایسا مشن ہے جس میں بہت سے محققین شامل ہوکر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ دستیاب مواد کو عمدگی سے استعمال کرنے کے حق میں ہیں۔

(بشکریہ: ’’واشنگٹن ٹائمز ‘‘۔ ۸جون ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*