نیٹو: مستقبل کے چیلنج

اٹلانٹک کے ارد گرد پھیلے ملکوں کا اتحادایک بار پھر اپنا ’’یوم پیدائش‘‘ـ منا رہا ہے سرد جنگ سے لے کر آج تک ان چالیس سالوں میں اس اتحاد نے یورپ میں امن کو یقینی بنایا ہے اور سکیولرازم کو تحفظ فراہم کیا ہے سویت یونین جب بکھر رہا تھا اس وقت نیٹو اتحاد نے ہی یورپ کو مستحکم رکھتے ہوئے بے مثال خوشحالی اور امن کو یقینی بنایا۔ سرآدم تھامس کے مطابق یہ اتحاد ایک پر عزم و مستحکم ارادے کو ظاہر کرتا ہے اٹلانٹک ملکوں کا یہ اتحاد یورپ میں بے مثال امن و استحکام کی وجہ سے مطمئن اور خوش ہے، یورپی ممالک امن و خوشحالی کے لیے نیٹو کے کردار کو اہم گردانتے ہیں نیٹو کے سابق برطانوی ایمبیسٹر، لندن تھنک ٹینک اور یورپین لیڈر شپ نیٹورک کے موجودہ ممبر سر آدم تھامس مزید کہتے ہیں کہ نیٹو کو اک نعمت کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔

یہ اتحاد اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہے بہت جلد نیٹو کے ۳۰ ارکان ہوں گے اور یہ ۹۳۰ ملین لوگوں کی سرحدی حفاظت کا ذمہ دار ہوگا۔ نیٹو ممالک کے پاس دنیا کی نصف جی ڈی پی ہے جبکہ ان کے دفاعی اخراجات ۵۵فیصد ہیں۔پچھلے سال کانفرنس میں نیٹو ممالک کے پاس کرنے کے کام کی ایک لمبی لسٹ موجود تھی اور یہ اتحاد نئے مراکز کھولنے کے لیے بھی پرجوش ہے۔

نیٹو کے حوالے سے ایک اہم رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ نیٹو ممالک کا یہ اتحاد تاریخی طور پر سخت مشکلات کے دور سے گزر رہاہے۔ نیٹو کے سابق امریکن ایمبسٹرڈوگلاسلیوٹ اور نکولس برنس کے مطابق صدر ٹرمپ نے اس اتحاد کی پریشانیوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ ہاورڈکنڈے اسکول بلفر سینٹر نے نیٹو کی ستر سالہ جدوجہد کا جائزہ لیا اس جائزے کے مطابق نیٹو نے بہت سی مشکلات اور مسائل کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے سب سے بڑا مسئلہ نیٹو کی پشت پر امریکی صدر ٹرمپ کی حمایت کی غیر موجودگی ہے۔

صدر ٹرمپ کچھ معاملات میں نیٹو کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ اتحاد ابھی باقی رہے اور اپنے دفاع کے لیے متحرک رہے صدر ٹرمپ کے پاس نیٹو ہی اک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں وہ جرمنی کا مسئلہ اٹھا سکتے ہیں لارڈ اسمے کے تازہ ترین بیان کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ نیٹو اب جرمنی کو آگے لانے میں مدد کرے۔

صدر ٹرمپ نیٹو کی خوشی میں رکاوٹ بھی ہیں وہ یورپ کے ملکوں کو اس بات پر اکساتے بھی ہیں کہ نیٹو کے قیام کے بنیادی مقاصد کا اک بار پھر جائزہ لیا جانا چاہیے وہ کانگریس کو اپنے دفاع کے لیے آگے آنے کی تجویز دیتے ہیں اور وزیروں کو ’’دنیاکے لیے اب ابھی ضروری ہے‘‘ کہ موضوع پراداریہ لکھنے کا مشورہ دیتے ہیں صدرٹرمپ یورپ کے مستقبل کے بارے میں اب فکر مند نہیں ہوتے بلکہ اگر کوئی نیٹو اتحاد کی مزید موجودگی یا ضرورت پر حیرت کا اظہار کرے تو صدر ٹرمپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کی بات کو توجہ دی جاتی رہے۔

یورپ کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ نیٹوامریکا کے تحفظات کا خیال بھی رکھتا ہے نیٹو کے خیر خواہ ٹرمپ کی نیٹو سے متعلق اختلاف کوغلط خیال کرتے ہیں مسٹربرنس یہ رائے دیتے ہیں کہ امریکا کے اتحادیوں کو امریکا کے لیے مزید کام کرنا چاہیے اس وقت بھی امریکا اپنے اتحادیوں کی وجہ سے طاقت،عسکری قوت اور اپنے فوجیوں کے لیے دنیابھر میں مرکزی جگہیں حاصل کرنے میں کامیاب رہاہے ان کی نظر میں امریکا کا نیٹو کو چھوڑنا بے وقوفی ہے کیوں کہ نیٹو میں امریکا کے کئی اتحادی موجود ہیں جبکہ چین اور روس کے پاس نہیں ہیں اور یہی خوبی امریکا کو چین اور روس سے ممتاز کرتی ہے۔.

نیٹو کی حمایت کے لیے ٹرمپ کے پاس بس اک یہی وجہ رہ گئی ہے لیکن ٹرمپ کی عرصہ صدارت میں آتے طوفان کسی بھی سیاسی وقت حالات کو تبدیل کر سکتے ہیں اگر نیٹو پہلے کی طرح مضبوط رہنا چاہتاہے تواسے بھر پور تیاری کرنی چاہیے اور نئے طریقے اپنانے ہوں گے تین اطراف میں اسے مزید محنت کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے رابطوں کی رفتار بڑھانی ہوگی اس سے پہلے کے مزید مشکلات کھڑی ہوں نیٹو کو تیزی سے تیس ملکوں کو اپنے ساتھ رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے اور یہ کام نیٹو اتحاد اپنی بیورو کریسی کو فروغ دے کر کرسکتا ہے لیکن صرف اتناہی کافی نہیں ہے ان خیالات کا اظہار جیمس اسٹیورڈس نے کیا جو کہ اس عظیم اتحاد کے سپریم کمانڈر رہ چکے ہیں انھوں نے مزید کہا کہ اگر ان کے پاس جادوکی چھڑی ہوتی تو وہ اس کے ذریعے شمالی اٹلانٹک کونسل کی پچھتر فیصد حمایت اور ووٹ حاصل کرلینے بجائے اس کے سو فیصد حمایت کے لیے انتظار کیا جائے، مناسب حالات اور سو فیصد حمایت کا انتظار رفتار کو بہت سست کردے گا۔ شمالی اٹلانٹک کونسل کی اکثریت کی حمایت کے لیے محض تین گھنٹوں کی ضرورت ہے جو نیٹو اور شمالی اٹلانٹک کونسل کو یکجا کر سکتے ہیں۔

دوسرے مرحلے میں نیٹو کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگافوری طور پر اپنے دفاع کو مزید مضبوط بناتے ہوئے مسئلوں سے نمٹنے کے لیے بہترین منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ مسائل مختلف سمتوں سے نظر آرہے ہیں اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے مختلف طریقوں سے نیٹو ارکان کی تعداد بڑھانی چاہیے جلد یا بدیر انہیں سخت نوعیت کے فیصلے کرنے ہوں گے کون سا طریقہ مسئلوں کو کم کرسکا ہے؟ اہم طریقوں پر کتنی توجہ درکار ہے جیسے کہ آرکٹک؟ کیا ممبر شپ اسی طرح سے جاری رہنی چاہیے اور کیا ممبر شپ سے عملی ہدف حاصل ہوسکتا ہے؟ یہ تمام فیصلے انہیں جلد کرنے ہوں گے۔

اک بنیادی تبدیلی

تیسراسب سے اہم کام کرنے کا یہ ہے کہ نیٹو کو چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ مطابقت پیدا کرنی ہوگی امریکا جب اپنی اسٹریٹجک ترجیحات کے ساتھ پسیفک علاقے میں آگے بڑھے گا تو اس کہ ٹرانسلانٹک اتحادپرکیا اثرات ہوں گے؟ یورپ کے اتحادی اس بات سے آگاہ رہنا چاہتے ہیں کہ چین اور امریکا کی رقابت میں چینی ۵جی ٹیلی کامس ٹیکنالوجی پر کیا اثرات ہوں گے یعنی صدر زی چنگ کے بیلٹ روڈتعمیری منصوبے کی سرمایہ کاری پر کیا اثرات پڑیں گے ضروری نہیں یورپ کا ہر ملک یہی چاہتا ہو لیکن اس منصوبے کی مستقبل میں بہت اہمیت ہے۔

نیٹو کو ابتدائی مرحلے میں چین کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیے اور پسیفک خطے سمیت جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ دوستی کا پرچم لہرانا چاہیے یورپی اتحاد میں شامل وہ ممالک جو عالمی سوچ رکھتے ہیں جیسے فرانس اور برطانیہ ایسے ممالک پیسیفک خطے میں اور دیگرراستوں پرنقل وحمل اور آمدورفت میں سہولت اور آزادی چاہتے ہیں۔

ہاورڈ کندے اسکول کے اسٹیفن والٹ کا کہنا ہے کہ امریکا اور یورپ کے درمیان مزدوروں کے فرق کو سمجھنا ہوگا،یورپی اتحاد اور امریکا کے درمیان ایک نیا ٹرانسلانٹک معاہدہ ہوسکتا ہے۔امریکا یورپ میں مزید قیام کرسکتاہے مگر اسے اپنا کام کا دائرہ کار محدود کرنا ہوگا۔یورپ اپنے خطے میں رہتے ہوئے امریکا کے چین کی تجارتی اور دانشورانہ ملکیت پر تحفظات کی حمایت کرتا ہے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکا اور یورپ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے معاہدہ طے کریں ان معاملات میں عالمی نکتہ نظر قیاس کرنا قبل از وقت ہوگا۔امریکا اور ایران بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں ٹرمپ کی نظر میں یورپ امریکا کا تجارتی دشمن ہے جبکہ یورپ امریکا کی عالمی اجارہ داری اور ایران پر امریکا کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے۔

وہ قیادت کہاں سے آئے گی جو مزدوروں کی نئی تقسیم کے لیے پر عزم ہو۔نیٹو کے تمام کھلاڑی اس وقت مشکل میں ہیں امریکا کو ٹرمپ نے مشکل سے دوچار کیا ہے،برطانیہ بریگزٹ کے ہاتھوں پریشان ہے،فرانس میں احتجاج ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے،جرمنی میں مارکل کا وقت اب تمام ہوا چاہتا ہے جبکہ ترکی اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے یورپ سے دور ہورہا ہے ایسے میں نیٹو اتحاد کا قائم اور متحرک رہنا اگر مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں ہے۔

ان تمام حقیقتوں کے باوجود نیٹو کی خود کو دوبارہ طاقتور بنانے کی اہلیت کو کم سمجھنا بے وقوفی ہے نیٹو اپنی اہلیت کو بہت پہلے ثابت کرچکاہے۔اگر نیٹو اتحاد نے اپنی خواہش کے مطابق اسی طرح ۱۰۰ سال گزار لیے تو یہ ۷۰ سال اس کے بچپنے میں شمار ہوں گے کیونکہ سو سال کی عمر کے بعد نیٹو اتحاد اک بھرپور طاقت کے ساتھ عالمی نقشے پر ابھرے گا۔

(ترجمہ: سمیہ اختر)

“What NATO needs to do to live to its 100th birthday”. (“The Economist”. March 14, 2019)

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*