مشرق وسطیٰ کی سیاست میں شام مرکزی کھلاڑی رہا ہے۔ شامی حکومت پر مختلف حوالوں سے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ ایران کی مدد سے خطے کی سیاست کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ جب تیونس، مصر، لیبیا، بحرین اور یمن میں عوامی انقلاب کی لہر اٹھی تو شام کی حکومت نے پوری قوت سے اسے کچلنے کی کوشش کی۔ اب بھی طاقت بھرپور طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ شام کے کئی شہروں میں مظاہرے خطرناک شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ حکومت نے کسی نہ کسی طور دارالحکومت دمشق کو بچالیا ہے تاہم دوسرے شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے میں کامیابی نہیں ہو پارہی۔
اگر بشارالاسد کی حکومت عوامی جذبات کے سامنے ٹک نہ سکی یا بے حد کمزور ہوگئی تو خطے کی سیاست پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ ایرانی حکومت، لبنان میں حزب اللہ ملیشیا اور غزہ میں حماس کی حکومت۔۔ سبھی پر اس صورت حال کا دباؤ پڑے گا۔ ایسی کوئی بھی صورت حال اسرائیل کے لیے بہت خوشگوار نتائج کی حامل ہوگی۔ اسے سکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔ ایران، شام، حزب اللہ اور حماس کے اتحاد سے اسرائیل کو ہمیشہ پریشانی لاحق رہی ہے۔ ایران اور شام کا گٹھ جوڑ اسرائیل کے لیے علاقائی برتری کی راہ میں رکاوٹ رہا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اسرائیل یہ سوچ کر بھی پریشان ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بشارالاسد کی برطرفی کے بعد شام میں کوئی سخت گیر اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔
بشارالاسد نے اب تک عوامی لہر کے دباؤ میں جو اقدامات کیے ہیں وہ ناکافی ہیں۔ انہوں نے ایمرجنسی ہٹانے کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے ایمرجنسی ہٹا تو دی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے سیکورٹی فورسز کو طاقت کے استعمال سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ محاصرے کیے جارہے ہیں، لوگوں کو احتجاج سے روکا جارہا ہے۔ جنازے کے جلوسوں پر بھی فائرنگ سے دریغ نہیں کیا جارہا۔ اب تک کی کارروائیوں میں حکومت کے ۳۰۰ سے زائد مخالفین ہلاک کیے جاچکے ہیں۔
بشارالاسد اور ان کے رفقاء نے طے کرلیا ہے کہ اسلام پسندوں کے خلاف کسی بھی ممکن اقدام سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ احتجاج کرنے والوں کا موقف سننے کے بجائے انہیں سختی سے کچلنے کی روش پر گامزن رہنا بہتر سمجھا گیا ہے۔ بشارالاسد کے بھائی اور ری پبلکن گارڈز کے کمانڈر مہرالاسد اور ان کے کزن رامی مخلوف کے خلاف بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ رامی مخلوف کے پاس بے حساب دولت ہے جس کا بڑا حصہ کرپشن کا نتیجہ ہے۔ اب سوال صرف حکمرانی کے طریقوں کی تبدیلی کا نہیں بلکہ خود حکمرانوں کی تبدیلی کا بھی ہے۔ حکومت اور نظام حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ چند ایک نیم دلانہ اقدامات سے بشارالاسد نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ صورت حال بدلی ضرور ہے تاہم ایسی بھی نہیں کہ کسی بہتری کی امید رکھی جاسکے۔ (ایمرجنسی اٹھائے جانے کے باوجود) طاقت کے استعمال کو اولین ترجیح کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ مظاہرین کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ حکمراں بعث پارٹی کی تمام معاملات میں اجارہ داری ختم کی جائے۔ اس مطالبے پر خاطر خواہ توجہ دینے کے بجائے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماری جارہی ہیں۔ شام کے لیے بہتر تو یہ تھا کہ ترکی کی طرز پر ایسی جمہوریت اپنائی جائے جس میں سب کو قبول کرنے کی صلاحیت ہو اور کسی بھی خرابی کو مرحلہ وار دور کیا جائے۔ بشارالاسد کے دوست رجب طیب اردگان نے بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ ترکی کا ماڈل اپنایا جائے مگر بشارالاسد نے اس مشورے پر عمل کرنا مناسب نہ جانا۔
شام کے معاملات میں بھی ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہے۔ اگر بشارالاسد نے ساتھیوں اور دوستوں کا مشورہ مان لیا ہوتا تو آج ان کے لیے حالات اس قدر پریشان کن نہ ہوتے۔ چند بروقت اقدامات سے مخالفین کو بہت حد تک رام کیا جاسکتا تھا۔ یہ موقع اب ضائع ہوچکا ہے۔ شام کے ایک درجن شہروں اور قصبوں میں صورت حال اب حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ دمشق میں غیر معمولی سیکورٹی انتظامات کرکے مظاہرین کے سامنے بند باندھ دیا گیا ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب حکومت کے لیے مشکلات ختم ہوگئی ہیں۔ دراعہ، بنیاس اور حمص میں صورت حال سنگین ہے۔ فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے خلاف احتجاج میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔ تشدد کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ حکومت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ قتل عام کے ذریعے احتجاج کرنے والوں آواز دبائی جاسکتی ہے مگر اسے یہ اندازہ نہیں کہ اس کے نتیجے میں مشکلات کس حد تک بڑھیں گی۔ کوئی بھی حکومت مخالفین کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش ضرور کرسکتی ہے مگر اس صورت میں بہت سی خرابیوں کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے اور بالآخر حکمرانوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، ان کی پوزیشن کمزور ہوتی جاری ہے۔ تیونس اور مصر میں یہی ہوا تھا اور اب لیبیا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔
شام کی صورت حال تھوڑی سی مختلف ہے۔ مصر اور اسرائیل نے ۱۹۷۹ء میں دوستی کا معاہدہ کیا تھا۔ ایران کے انقلاب کے بعد ایران کا جھکاؤ شام کی طرف ہوگیا اور دوسری طرف عراق اور لبنان کے خلاف اسرائیل زیادہ قوت کے ساتھ سامنے آیا۔ لبنان میں حزب اللہ ابھری اور فلسطینی علاقوں میں حماس۔ ان دونوں کو ایران کی بھرپور حمایت اور مدد حاصل تھی۔ شام بھی ان تنظیموں کا حامی اور معاون تھا۔
۱۹۷۳ء میں اسرائیل کے خلاف عرب جنگ میں شام اور مصر اتحادی تھے۔ مگر ۱۹۷۹ء میں یہ اتحاد ختم ہوچکا تھا اور مصر نے اسرائیل کو اتحادی کی حیثیت سے گلے لگالیا تھا۔ محمد رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران اور اسرائیل کے تعلقات اچھے تھے۔ مگر جب آیت اللہ خمینی نے انقلاب برپا کیا تو ایران کا جھکاؤ شام کی طرف ہوگیا۔
اگر شام میں حکومت بدل گئی تو خطے میں بہت سے اتحاد داؤ پر لگ جائیں گے۔ حسنی مبارک کے بعد کا مصر اب اسرائیل سے دور ہوتا جائے گا۔ اور یقینی طور پر وہ عرب کیمپ کی طرف واپس آئے گا۔ دوسری طرف دمشق میں حکومت کی تبدیلی سے شام کا ایران سے اتحاد ختم ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی شام کی سنی اکثریت اپنے ملک کے معاملات میں ایران کی مداخلت سے نالاں ہے۔
شام میں جو صورت حال ابھر رہی ہے وہ ترکی کے لیے خاصی موافق ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ ثالث کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خطے میں معاشی سرگرمیوں کا جاری رکھنے میں مدد بھی دے سکتا ہے۔ تجارت کو رواں دواں رکھنے میں ترکی کا ممکنہ کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس خطے میں ایران کے اثرات کم ہونے سے معاشی سرگرمیوں کو بھرپور طور پر بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسری طرف عراق بھی تباہی کے بعد تیزی سے ابھر سکتا ہے۔ امریکی افواج عراق سے نکل چکی ہیں۔ پچاس ہزار فوجی رہ گئے ہیں جو رفتہ رفتہ چلے جائیں گے۔ عراق میں ایرانی اثر و نفوذ تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔
شام کی صورت حال ان تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتی دکھائی دے رہی ہے جو تیس سال میں کبھی دکھائی نہیں دیں۔ ایران کو عراق میں شیعہ قیادت کے ابھرنے سے خاصی تقویت مل سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایران اور عراق مل کر نیا پاور بلاک بنالیں۔ عراق میں امریکا نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ سب کچھ داؤ پر بھی لگ سکتا ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی یقیناً نہیں چاہیں گے کہ عراق پر جو محنت انہوں نے ایک عشرے تک کی ہے وہ ضائع ہو جائے۔ عراق میں ایران کی ممکنہ مداخلت نئے مناقشوں کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ عرب دنیا میں ترکی کی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے شام میں دوست حکومت کا ہونا ناگزیر ہے۔ ایران کے بعد اب ترکی تجارت کے حوالے سے شام کے سب سے زیادہ قریب آسکتا ہے۔
شام نہیں چاہے گا کہ لبنان میں اس کا اثر کم ہو۔ شامی حکومت لبنان میں مخاصمت رکھنے والی حکومت کا ابھرنا گوارا نہیں کرے گا۔ شام کی کوشش ہوگی کہ لبنان اور اسرائیل سے بہتر تعلقات استوار رکھے جائیں۔ شام کی سلامتی کا مدار ان دونوں ممالک سے بہتر تعلقات پر ہے۔
عرب دنیا میں عوامی انقلاب کی لہر نے عرب اسرائیل تنازع کو ثانوی حیثیت دے دی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب اسے نظر انداز کردیا جائے۔ پورے خطے میں حقیقی امن اور استحکام اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب عرب اسرائیل تنازع بہتر اور قابل قبول انداز سے حل کیا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’گارجین‘‘ برطانیہ۔ ۱۶؍ اپریل ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply