بادی النظر میں کورونا ویکسین اور افغانستان سے امریکی انخلا میں کوئی مماثلت نہیں، کوئی مطابقت نہیں مگر غور کیجیے تو بہت کچھ ہے جو بہت واضح ہے، مگر ہم دیکھ نہیں رہے۔ انسان مزاجاً خود غرض واقع ہوا ہے۔ جو مزاج انسان یعنی فردِ واحد کا ہے وہی معاشروں اور اقوام کا بھی ہے اور کیوں نہ ہو کہ معاشرے اور اقوام بھی تو افراد ہی کے مجموعے کا نام ہے۔ جب بھی کوئی بحرانی کیفیت نمودار ہوتی ہے تو بڑی طاقتوں کے تمام وعدے اور دعوے ایک طرف رہ جاتے ہیں، بڑے بڑے آدرش بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں اور ہر طرف ’’می فرسٹ‘‘ (سب سے پہلے میں) کی صدا سنائی دینے لگتی ہے۔ ریاستیں اپنے قومی مفادات پر انسانیت کو قربان کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ دوسروں کے بارے میں سوچنے سے گریز کے معاملے میں انفرادی اور اجتماعی سوچ ایک پیج پر ہے۔
یہ کوئی بریکنگ نیوز نہیں۔ ہر ریاست اپنے شہریوں کے مفاد کو ہر حال میں اولیت دیتی ہے اور دوسروں کو قربان کرنے میں تساہل سے کام لیتی ہے نہ تاخیر سے۔ بین الاقوامی تعلقات میں یہ کوئی انوکھی حقیقت نہیں۔ بنیادی حقوق کی پاسداری کے نام پر کی جانے والی مداخلت کا بنیادی مقصد متاثرین کی مدد کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ بہتر انداز سے جینے کے قابل ہوسکیں۔ انہیں جمہوری اقدار سے بہرہ مند کرنا بھی ایک بڑا مقصد ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ عملی سطح پر دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا جتنی سکڑتی جارہی ہے اتنی ہی پیچیدہ بھی ہوتی جارہی ہے۔ انحصارِ باہمی کا سلسلہ پنپ رہا ہے مگر اس کے نتیجے میں کچھ ایسا حاصل نہیں ہو رہا جسے مثالی قرار دیا جاسکے۔ ہم کاسمو پولیٹن زبان بولتے ہیں یعنی پوری دنیا کی بات کرتے ہیں اور عالم گیریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے مگر جب سر پر پڑتی ہے تو صرف اور صرف قومی مفاد یاد رہتا ہے۔
کورونا کی وبا نے بہت کچھ سکھایا ہے، بہت کچھ بے نقاب کیا ہے۔ جب کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین تیار ہوئی تو طاقتور اور امیر ممالک سب سے آگے کھڑے ہوگئے۔ انہیں اپنے باشندوں کو محفوظ رکھنے سے غرض تھی۔ افریقا اور دیگر پس ماندہ خطوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ شمالی امریکا اور یورپ نے یہ تاثر دیا کہ صرف ان کے باشندوں کو زندہ رہنے کا حق ہے، باقی سب مرتے ہیں تو مریں۔ اس معاملے میں شرم ناک حد تک manipulation کی گئی۔ تھوڑی بہت کوشش کی گئی کہ غریبوں کو بھی ویکیسن لگوانے کا موقع ملے مگر مجموعی طور پر یہ معاملہ طاقتور ترین ممالک کے ہاتھ میں رہا۔ امریکا، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ خطوں نے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی اربوں خوراکیں تیار کرکے اپنے ہاں محفوظ کرلیں۔ غریب ممالک اور پس ماندہ خطے محض تماشائی بنے یہ سب کچھ بے بسی سے دیکھتے رہے۔ بہت سے ممالک کو سفارتی تعلقات بہتر بنانے اور چند ایک معاملات میں ایڈوانٹیج لینے کے لیے کورونا ویکسین ترجیحی بنیاد پر فراہم کی گئی۔ ۱۵؍جولائی ۲۰۲۱ء تک افریقا کی ایک ارب ۳۰ کروڑ کی آبادی میں صرف ایک فیصد کو ویکسین لگائی جاسکی تھی۔ یہ سب کچھ اس قدر شرم ناک تھا کہ عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریسیس متمول ممالک پر شدید تنقید کیے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے متعدد بیانات کے ذریعے متمول ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے پس ماندہ ممالک کے عوام کو بھی کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے میں مدد دیں مگر کسی کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔ گیبریسیس نے اِسے شدید نوعیت کا اخلاقی بحران قرار دیا۔ رواں سال موسمِ گرما کے وسط تک ترقی یافتہ اور متمول دنیا میں ۸۰ فیصد لوگوں کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جاچکی تھی۔ انتہائی پس ماندہ ممالک کے لوگ بے چارے باقی دنیا کا منہ ہی تکتے رہ گئے۔ عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ نے ترقی یافتہ دنیا پر شدید تنقید کرتے ہوئے کئی بار کہا کہ یہ سب انتہائی شرم ناک ہے۔ پس ماندہ ممالک کو بھی علاج کی بہترین سہولتیں، ویکسین اور ٹیسٹنگ کٹس دی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس امتیازی کیفیت سے دو رخا بحران جنم لے رہا ہے … ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک میں سب کچھ کُھلتا جارہا ہے جبکہ پس ماندہ معاشرے اب تک لاک ڈاؤن کی زد میں ہیں۔ متمول ممالک نے کورونا ویکسین کی رسد کا غالب حصہ اپنے کنٹرول میں لے کر باقی دنیا کو صحتِ عامہ کے حوالے سے شدید ترین خطرات کی نذر کردیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ بھی تو یہی تھا۔ امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر باقی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ جنگ جمہوریت اور لبرل طرزِ زندگی کی بقا اور مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کی خاطر لڑی جارہی ہے۔ پوری دنیا کو ایک بڑے آدرش کے ساتھ بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی گئی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ پورا کا پورا معاملہ قومی مفاد کا تھا۔ دو عشروں تک افغانستان پر ایک لاحاصل اور انتہائی غیر ضروری جنگ مسلط رکھی گئی اور اب انتہائی شرم ناک انداز سے، عجلت میں انخلا کیا گیا ہے۔ افغان شہریوں کو سنہرے خواب دکھاکر ایک بار پھر غیر یقینی کیفیت میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ جن افغان باشندوں نے امریکا اور یورپ کا ساتھ دیا وہ اب بے یار و مددگار ہیں۔ امریکا اور یورپ کے فوجی اور شہری بھی، جو افغانستان میں مقامی باشندوں کے ساتھ مل کر قومی تعمیر کے کام میں کسی نہ کسی طور مصروف رہے، اب تنہا رہ جانے والے افغان باشندوں کے لیے غیر معمولی ہمدردی محسوس کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ افغان باشندوں اور فوجیوں سے غداری کی گئی ہے، انہیں دھوکا دیا گیا ہے۔ میں امریکا کے پالیسی ساز عملے کا بھی حصہ رہا ہوں، اخلاقی ذمہ داری کا سوال وہاں بھی اٹھتا تھا۔
نائن الیون کے بعد امریکی قیادت نے جو بڑھکیں ماری تھیں اور جمہوریت، بنیادی حقوق اور دیگر متعلقہ معاملات میں جو بڑے بڑے دعوے کیے تھے، وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ افغانستان کو جدید ترین جمہوری ریاست بنانے کی بات کی گئی۔ امریکا کے پاس وسائل کی کمی نہ تھی مگر غیر معمولی دعووں کے باوجود کچھ بھی ڈلیور نہ کیا جاسکا۔ اس کا ایک بنیادی سبب تو یہ تھا کہ افغانستان کی انتظامی یا حکومتی مشینری میں بدعنوانی کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ کچھ پاکستان کا دو رخا پن بھی تھا اور کچھ یہ بات بھی تھی کہ ہم افغان معاشرے سے ناواقف تھے۔ افغانستان کے جنگجو سرداروں کا بھی کچھ ٹھکانہ نہ تھا۔ پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا تھا کہ کون کہاں پلٹ جائے، دغا دے جائے۔ ایک المناک حقیقت یہ بھی تھی کہ ہمیں سوشل انجینئرنگ کے حوالے سے اپنی مہارت کا کچھ زیادہ ہی زعم تھا اور دوسروں کی اصلاح کا ضبط ہمارے دماغوں پر سوار تھا۔
محکمۂ خارجہ کے افسر کی حیثیت سے میں نے امریکا افغان انٹر ایجنسی آپریشنز گروپ کے کئی اجلاسوں میں شرکت کی۔ ان اجلاسوں میں بڑی بڑی باتیں ہوتی تھیں۔ کلینکس قائم کرنے اور پولیس کو تربیت دینے کے حوالے سے بہت کچھ بیان کیا جاتا تھا مگر کبھی یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی تھی کہ جو کلینکس قائم کیے گئے ہیں اُن سے عوام کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے اور جن پولیس اہلکاروں کو تربیت فراہم کی گئی ہے وہ قانون کا احترام بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے تعمیرِ نو افغانستان نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکا نے ادارے بنانے کا جو طریق اختیار کیا وہ زیادہ قابلِ ستائش نہ تھا۔ بہت بڑے پیمانے پر وسائل ضایع کیے گئے۔
۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۶ء تک کابل میں امریکی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے پی مائیکل میکنلے نے کہا ہے کہ ہم سب مل کر افغانستان ہار گئے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان ہمارا تھا کب۔ صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ہم نے افغانستان میں دو عشروں تک جو جنگ لڑی وہ غیر نتیجہ خیز رہی یعنی یہ جنگ لڑنے کی کچھ خاص ضرورت نہ تھی۔ ’’فائنانشل ٹائمز‘‘ میں گیڈین ریچ مین نے لکھا ہے کہ یہ درست ہے کہ جو بائیڈن کو اوّلاً امریکیوں کے مفاد کا تحفظ یقینی بنانا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ افغان باشندوں کے مفاد کا خیال رکھنے کی اخلاقی ذمہ داری بھی امریکا پر عائد ہوتی ہے۔ جو افغان باشندے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے اُنہیں وہاں سے نکالنا بھی امریکا ہی کی ذمہ داری ہے۔ دنیا اس بات کو یقینی بنائے کہ طالبان بنیادی حقوق کا خیال رکھیں۔ اقوام متحدہ اس بات کویقینی بنائے کہ افغان عوام کو ریلیف ملے۔
کورونا ویکسین اور افغانستان سے انخلا کے معاملات میں بڑی طاقتوں کی صریح منافقت کھل کر سامنے آئی ہے۔ اور ایک بار پھر اُن کی یہ سوچ بے نقاب ہوگئی ہے کہ صرف اپنا مفاد عزیز رہنا چاہیے، دوسرے برباد ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“When the chips are down, it’s a ‘Me First’ world”.(“worldpoliticsreview.com”. Aug. 30, 2021)
Leave a Reply