اسلام نواز شدت پسندوں کی طرح سفید فام بالا دستی کے لیے میدان میں نکلنے والے بھی بہت بڑا خطرہ ہیں، مگر دونوں میں بظاہر بہت بڑا فرق رکھا جارہا ہے۔ امریکا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ سفید فام بالا دستی کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں کے بارے میں بھی وہی رویہ رکھے گا، جو اس نے اسلام کے نام پر ہتھیار اٹھانے والوں سے روا رکھا ہے۔
نیوزی لینڈ میں سفید فام بالادستی کے ایک پرستار کے ہاتھوں دو مساجد میں ۵۰ مسلمانوں کی شہادت نے سفید فام نسل کی بالا دستی کے علم برداروں کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کو اُن لوگوں کی دہشت گردی کے مقابل لا کھڑا کیا جو اسلام کے نام پر ایسا کرتے ہیں۔ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ سینیٹر الزابیتھ وارن نے کہا کہ امریکا کو جس طور داعش اور القاعدہ کی دہشت گردی سے خطرات لاحق ہیں بالکل اُسی طور سفید فام دہشت گردی سے بھی خطرات لاحق ہیں۔
یہ بات ایسی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ امریکا میں اب تک معاشرے کی ساخت اور ریاست کے وجود کے لیے جو چند بڑے خطرات ابھرے ہیں، اُن میں سفید فام بالادستی کے نام پر کی جانے والی انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی بھی شامل ہے۔ اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی گزشتہ دس برس کے دوران دہشت گردی سے متعلق ہلاکتوں میں سے ۷۳ فیصد کی ذمہ دار ہے۔ سینیٹر الزابیتھ وارن کا یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام انتہا پسندی کی مذمت کرنے میں غیر معمولی تساہل کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی نے چند برسوں کے دوران ایسے پروگرامز کی فنڈنگ میں کٹوتی کی ہے جن کا بنیادی مقصد سفید فام نسل کی برتری کے رجحان کی جڑ کاٹنا تھا۔
جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے اس کی روشنی میں یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ واشنگٹن کے پالیسی ساز سفید فام انتہا پسند قوم پرستوں سے بالکل ویسا ہی رویہ رکھیں گے جیسا رویہ انہوں نے اسلام کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والوں سے روا رکھا ہے۔ یہ سوچنا بھی فضول ہے کہ جس طور مسلم انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لیے ڈرون حملے کیے جاتے ہیں بالکل اُسی طور سفید فام انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ امریکا جب چاہتا ہے اعتدال پسند مسلم گروہوں سے بات چیت کرتا ہے مگر ایسی بات چیت سفید فام انتہا پسند قوم پرستوں سے بھی کی جائے اِس کا امکان خاصا کمزور دکھائی دیتا ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مسلم شدت پسندوں اور سفید فام انتہا پسند قوم پرستوں کے طریق کار میں کیا کیا مشترک ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دونوں ہی بے قصور لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ قتل عام کی وارداتوں کے ذریعے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کی توجہ پانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ میں پچاس مسلمانوں کو مساجد میں شہید کرنے والے برینٹن ٹیرنٹ نے اس اندوہناک واقعے کو فیس بک لائیو پر پیش بھی کیا، جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے یہ سب کچھ دیکھا اور بعد میں بھی دیکھتے رہے۔ کچھ کچھ ایسا ہی پیرس میں بھی ہوا، جہاں ایک مسلم انتہا پسند نے ایک پولیس افسر کو اس کے ماتحت سمیت ہلاک کرکے پورا معاملہ سوشل میڈیا پر پیش کیا تھا۔ ہم اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ ہر نسل اور مذہب کے انتہا پسند اس خبط میں مبتلا ہیں کہ وہی متقی ہیں اور باقی سب گناہ گار۔ انتہائی اندوہناک بات یہ ہے کہ بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اِس پر مسرّت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ داعش کے بارے میں لکھی جانے والی کتاب کے مصنف گریم وڈ کہتے ہیں کہ داعش کے انتہا پسندوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی بھی خوب استعمال کی ہے اور میڈیا کو بھی استعمال کرنے کا ہنر وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہی طریق کار دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں نے بھی اختیار کیا ہے۔
چند ایک معاملات میں البتہ فرق بھی پایا جاتا ہے۔ داعش نے چند خاص علاقوں پر کنٹرول بھی حاصل کیا۔ اور یہ بھی کہ اس کے بہت سے ارکان مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ سفید فام قوم پرستوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ امریکا میں جو لوگ سفید فام بالا دستی کے لیے لڑ رہے ہیں وہ امریکا ہی کے ہیں اور اب تک ان کے حصے میں کوئی ایسا علاقہ نہیں آیا جہاں ان کا زور چلتا ہو یعنی وہ کسی بھی سطح کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہوں۔
مسلم شدت پسند بہت حد تک منظم اور مضبوط ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں سفید فام انتہا پسند اب تک قدرے غیر منظم اور کمزور رہے ہیں۔ القاعدہ اور داعش نے میڈیا کو عمدگی سے استعمال کرکے اپنی بات پوری دنیا تک پہنچانے میں نمایاں کامیابی پائی ہے۔ مکمل سفید فام بالا دستی کا خواب دیکھنے والے اب تک ایسا کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ وہ اب تک انٹر نیٹ کے تاریک گوشوں میں بیٹھے ہوئے ملتے ہیں۔ دوسری طرف مسلم شدت پسند کھل کر اپنا ایجنڈا بیان کرتے ہیں۔
امریکا میں سفید فام بالادستی کے لیے کام کرنے والے گروپس کے حوالے سے کام کرنے والے ایف بی آئی کے سابق ایجنٹ مائیکل برینن کہتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کو غیر معمولی جوش و خروش کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اگر مقامی سطح پر معاملات کو زیادہ مہارت اور سختی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے تو اِس لعنت کو روکا جاسکتا ہے۔ امریکا اور یورپ دونوں کو سفید فام انتہا پسندوں کا سامنا ہے۔ نیو نازی کہلانے والے یہ انتہا پسند چاہتے ہیں کہ امریکا اور یورپ دونوں پر صرف گوروں کا راج ہو اور دیگر تمام اقوام اُن کے زیر نگیں ہوکر رہیں۔ امریکی تاریخ کے ایک بڑے حصے میں سفید فام قوم پرستی ریاستی نظریے کا درجہ رکھتی تھی۔ عوامی سطح پر کیے جانے والے احتجاج، سپریم کورٹ کے فیصلوں اور کانگریس کے اقدامات سے یہ ریاستی نظریہ کمزور پڑا۔ محض مذمت کرنے اور میڈیا ٹرائل کو بہت کچھ سمجھ لینے سے معاملات درست نہ ہوں گے۔ تیزی سے ابھرتے سفید فام انتہا پسند گروہوں پر نظر رکھنا لازم ہے۔
ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ اب وہ مرحلہ آچکا ہے کہ صدر ٹرمپ کھل کر کچھ کہیں۔ انہیں سامنے آکر کہنا ہوگا کہ امریکی سیاست میں سفید فام انتہا پسندوں کے لیے بھی پنپنے کی گنجائش نہیں۔ جب تک وہ ایسا نہیں کریں گے تب تک سفید فام انتہا پسند قوم پرستی کے پنپنے کا خدشہ برقرار رہے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“White nationalists & jihadis are both tech-savvy killers, but they’re far from same”. (“theprint.in”. March 22, 2019)
Leave a Reply