افراد اور قوموں کی اپنی کوئی نہ کوئی تہذیب ہوتی ہے جس سے ان کی بہت گہری وابستگی ہوتی ہے۔ تہذیبوں کا مذہب یا اجتماعی نظام سے بھی بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے کہیں کہیں تہذیب سے مذہب سے بھی بڑھ کر جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ اس وقت مغربی تہذیب کی یہی مثال ہے۔ اس نے مذہب کی جگہ لے لی ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک مذہب سے کہیں زیادہ اپنی تہذیب کے بارے میں حساس ہیں۔ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام اس تہذیب کی دو بڑی علامتیں ہیں۔ جمہوریت کا بہت پرچار کرتے ہیں لیکن اس کو خالص شکل سے اسلامی قوتوں کا مستفید ہونا انہیں گوارا نہیں ہے۔ ۱۹۹۲ء میں الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ، ۲۰۰۶ء میں فلسطین میں حماس اور ۲۰۱۲ء میں مصر کے اندر اخوان المسلمون جمہوریت کے راستے اقتدار میں پہنچنے والے تھے یا پہنچ گئے تھے تو وہاں امریکا اور مغربی ممالک نے عرب بادشاہتوں، شیخوں اور امیروں کے تعاون سے فوجی عناصر کے ہاتھوں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی تھی۔ ہم ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ والے نظریے کو مانیں یا نہ مانیں لیکن اہلِ مغرب ہماری اسلامی تہذیب اور اقدار و روایات سے خائف ہیں۔ ’’خوف‘‘ مزاحمت میں شدت کی ایک وجہ بن جاتا ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ ہماری تہذیب کا سرچشمہ ہمارا دین اسلام ہے۔ اس لیے ان کی توپوں کا رُخ ہمارے دین کی طرف ہے۔
ہمیں اس تصادم کی کیفیت میں ایک چیز کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاتھ میں قرآن مجید اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت کی شکل میں خیر اور انسانیت کی بھلائی کا جو سرمایہ ہے، وہ ہمیں اپنے مخالفین کو حریف کے طور پر سامنے رکھ کر چیلنج کرنے سے روکتا ہے۔ ہم دعوت الیٰ اللہ کے مشن کے امین ہیں، ہمیں ان کو باور کرانے کی آخری حد تک کوشش کرنی ہے کہ ہم ان کے بدخواہ نہیں بلکہ خیر خواہ ہیں۔
افغانستان میں روس اور امریکا کے خلاف افغانوں کی سرفروشانہ جدوجہد اور ان دونوں عالمی طاقتوں کی ذلت آمیز شکست سے ہمارے اندر یہ جارحانہ نفسیات کچھ زیادہ پختہ ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد قیامت تک کبھی ختم اور معطل نہ ہونے والا فریضہ ہے۔ جہاد کے لیے موجودہ دور کے جدید ترین اسلحہ کا استعارہ یہ ہے کہ ’’اپنے گھوڑے تیار رکھو‘‘ اور ہمہ وقت تیار رہو۔ لیکن جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم ساری غیر مسلم دنیا کو فتح کرنے کے لیے دعوت مبارزت دیتے رہیں۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی صفوں کودرست کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں دو بڑے اہتمام لازم کرنے ہیں۔ پہلے تونازک حالات کے تقاضے کے مطابق بحیثیت امت اپنی صفوں کی ترتیب درست کرنی ہے۔ ہم اس وقت ایک امت واحدہ نہیں بلکہ قومی ریاستوں میں بٹے ہوئے ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان ہیں جن پر وہ طبقے حاکم ہیں جن کی وفاداری اپنی قوم اور ملک سے بھی بڑھ کر امریکا اور مغرب کے ساتھ ہے۔ ہمارے ملکوں میں فیصلہ کن درجہ رکھنے والے یہ صاحبانِ اقتدار، ہمارے فوجی جرنیل اورہماری اشرافیہ میں مغرب اورامریکا سے فدویت کارشتہ پرانا ہے۔ ان کے ہمارے اندر سے پیدا ہونے والے لبرل اور سیکولر امیر طبقے ہیں، جو عیش پسند بھی ہیں اور بزدل بھی۔ ہمارے حکمران، ہمارے جرنیل، ہماری اشرافیہ اور ہمارے لبرل اور سیکولر سارے کے سارے مغربی تہذیب پرفریفتہ ہیں۔ یوں وہ بھی ہمارے حریف بن جاتے ہیں۔
ہمارے اندر کے یہ تین چار طبقات اور خود امریکا کی قیادت میں ساری غیرمسلم دنیا اسلام سے جس وجہ سے خائف ہے اس نفسیات کو قرآن حکیم نے فرعون اور آل فرعون کے قصے میں سورہ طٰحٰہ کی آیت ۶۳۔۶۴ کے آئینے میں کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ ’’یہ دونوں (موسیٰ اور ہارون) تومحض جادوگر ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے (دعوت کے اثر سے) تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کردیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کردیں۔ اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کر لو اور ایکا کرکے میدان میں آؤ، بس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا‘‘۔
موجودہ دور میں مغربی تہذیب ہی کو ’مثالی طریقِ زندگی‘ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور مسلمانوں سے خوف یہ ہے کہ یہ ان کے مثالی طریقِ زندگی یا ان کی اس جدید مادی تہذیب کا خاتمہ کردیں گے۔ مغرب کی تہذیبی چکاچوند کے علاوہ یہودی اور ہندو ذہنیت اپنی اعتقادی بنیادوں کے بارے میں خوف زدہ ہے۔ خوف کی نفسیات کا اظہار اقدام اور پیش قدمی کرکے ظلم و بربریت کے ذریعہ مدمقابل کو مٹا ڈالنے یااسے اَدھ موا کردینے سے بھی ہوتا ہے۔ فلسطین، بھارت اور برما میں یہودی،ہندو اور بدھ مت کے پیروکار اپنے خوف کا علاج مسلمانوں کو بُری طرح ظلم کا نشانہ بنا کر کر رہے ہیں۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم داعی ہیں، ہمیں انفعالیت کی لپیٹ میں آنے کے بجائے ان سارے حالات کا گہرائی میں تجزیہ کرکے ان سے عہدہ برآ ہونے کی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادتیں نہ ایسی بابصیرت ہیں اور نہ اتنی دلیر ہیں کہ وہ ظلم و جبر کی قوتوں سے ٹکرا جائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خلیجی ریاستوں، مصر اور دیگر عرب ممالک کے بااثر و باثروت سربراہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے صہیونی اور برہمنی اقتدار سے بندگانہ تعلق استوار کیے ہوئے ہیں۔ ساری امت کی سوچ سکڑ کر، سب سے پہلے پاکستان، سب سے پہلے مصر، اور سب سے پہلے سعودیہ و امارات وغیرہ میں ڈھل گئی ہے اور اس نے انہی قوتوں کے سائے میں پناہ ڈھونڈنی شروع کر دی ہے، جو مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہیں۔ ان حالات میں صالح فکری عناصر پر دہری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو جذباتیت اور ہیجانیت کی لہروں کے سپرد کرنے اور کھوکھلے نعروں کے بجائے بصیرت و دانش کو بروئے کار لائیں۔ ہمیں نہ یہ تاثر دیناہے کہ ہم ٹکرانے سے گھبراتے اور ڈرتے ہیں اور نہ آنکھیں بند کرکے ٹکرا کر اپنے آپ کو پاش پاش کر لینا ہے۔ ہمیں ویلنٹائن ڈے اور اسی طرح کے وقتی اور مقامی ایشوز پر اپنی توانائیاں صَرف کرنے کے بجائے سنجیدہ غور و فکر کے ساتھ پوری امت کی سطح پر حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔
ہم اس وقت فکری زوال اور علمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ہمیں ساری توجہ اپنے افکار اور نقطہ نظر کے ابلاغ پر مرکوز کرنی ہے۔ نہ بے وقت اور غیر ضروری جارحانہ طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے اور نہ بزدلی اور معذرت خواہی کو اپنے اوپر غالب آنے دینا چاہیے۔ اپنے معتقدات، افکار و نظریات، اصول و آدرش اور اخلاقی اقدار کو بہت اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے۔ جن میدانوں میں اسلام اور اسلامی تہذیب کے مخالفین کوہم پر سبقت ہے پہلے ان میدانوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنی چاہیے۔ یہ تاثر عملی طور پر رفع کرنا ہوگا کہ اسلام جدید علوم کا مخالف ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی طورپر بھی ہمیں ہرمفید کا اخذ واکتساب کرنا چاہیے اور ہر مضر سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے اپنے ملک و ماحول اور معاشروں کو اپنی تہذیب کا نمونہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اخلاقی طور پر ایسی بلندی اختیار کرنی چاہیے جسے ہمارے دشمن بھی مانیں۔
میں نے عافیہ صدیقی کی امریکی جج کے ہاتھوں ہونے والی طویل سزاکو وحشیانہ لکھا تھااور اس کے اندھا دھند وحشیانہ ہونے میں کوئی شک نہیں، لیکن ہمیں اس پر ندامت محسوس کرنی چاہیے کہ مسلمان ممالک میں مخالفین تو درکنار اپنے مسلمان شہریوں کے لیے بھی حکومتی، سماجی اور عدالتی دنیا میں عدل و انصاف کی ایسی مثالیں نہیں ملتی ہیں جن کو ہم فخر سے دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ ہمیں اپنے قول اور فعل میں بھی عدل پسند نہیں ہے۔ خالص اسلام کے بجائے حزبیت، فرقہ پرستی، لسانیت، نسلیت، صوبائیت و علاقائیت ہماری پہچان ہے۔ اس وقت مسلمان امت کو بہت بڑے حریفوں کا سامنا ہے، لیکن ہم خود بھی اپنے اصل حریف ہیں۔
{}{}{}
پر مغز تجزیئے پر مبنی یہ مضمون مسقبل کی حکمت عملی کے لیے فکری غذا فراہم کرتا ہے