بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا میں مسلمانوں کی آواز سنی جاتی ہے یا نہیں، یہ ظاہر اور ثابت کرنے کے لیے ایوان میں مسلمانوں کی نمائندگی کا گراف دیکھنا ہوگا۔ اگر مسلمان اپنے مسائل بیان کرنا اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا چاہتے ہیں تو ایک ضروری شرط، جو بہرحال کافی نہیں ہے، یہ ہے کہ لوک سبھا میں ان کی کماحقہٗ نمائندگی ہو۔
بھارت کے مسلمان دو مختلف، بلکہ متضاد رجحانات کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو اُن کی آبادی بڑھ کر ۱۴ فیصد سے بھی زائد ہوگئی ہے اور دوسری طرف پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا میں اُن کی نمائندگی کا گراف نچلی ترین سطح پر ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب تو یہ ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمانوں کو دو فیصد سے بھی کم انتخابی ٹکٹ دیے اور اِن میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکا۔
کیا یہ معاملہ تشویش کا باعث ہے؟ اس سوال کے جواب کا مدار اس بات پر ہے کہ کسی بھی کمیونٹی کے لیے اپنی مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کرنے کی خاطر پارلیمان میں نمائندگی کا حصول لازم ہے کہ نہیں۔ اس معاملے کا جائزہ لینے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں سے متعلق پارلیمان کے ارکان کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالوں پر نظر دوڑائی جائے۔ ہم نے بیس برس کے دوران بھارتی پارلیمان میں مسلمانوں سے متعلق اٹھائے جانے والے ۱۸۰۰ سے زائد سوالوں کا جائزہ لیا ہے۔
بھارتی مسلمانوں کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالوں کا بڑا حصہ مسلم ارکان کی طرف سے ہے۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ انہوں نے پارلیمان میں اپنے شیئر سے بڑھ کر سوال پوچھے ہیں۔ غیر مسلم ارکان کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالوں کے مقابلے میں مسلم ارکان کے سوالات خاصے مختلف اور منفرد ہوتے ہیں۔ چند ایک ایشوز سبھی کی نظر سے چوک جاتے ہیں۔ مثلاً مسلم خواتین کے مسائل کو پارلیمان کے مسلم اور غیر مسلم ارکان یکساں طور پر نظر انداز کرتے ہیں۔
۱۹۹۹ء سے ۲۰۱۷ء تک پارلیمان میں وقفہ سوالات کے دوران پیش کیے جانے والے ۱۸۷۵ سوالوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ ان میں سے ۲۲ فیصد سوالات مسلم ارکان نے کیے جبکہ لوک سبھا میں مسلم ارکان کا تناسب کبھی ۶ سے زائد نہیں رہا۔
لوک سبھا میں حج سے متعلق سوالات بھی بڑی تعداد میں کیے جاتے ہیں جبکہ مسلمانوں پر تشدد اور جیلوں میں بند مسلمانوں کی بہبود سے متعلق سوالات کا حصہ بہت کم، بلکہ برائے نام ہے۔ مسلم اور غیر مسلم ارکان کے درمیان سوالات کے حوالے سے سب سے بڑا فرق تشدد سے متعلق سوالات پر دکھائی دیا۔ لوک سبھا میں مسلم شدت پسندی کے حوالے سے ۹۷ فیصد سوالات غیر مسلم ارکان نے کیے جبکہ حج سے متعلق بھی بیشتر سوالات غیر مسلم ارکان ہی نے کیے۔
مسلمانوں سے متعلق پوچھے جانے والے سوالات میں سب سے بڑا حصہ مسلم ارکان کا ہے۔ تو کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی سے متعلق سوالات اٹھانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں؟ اعداد و شمار جو کہانی سناتے ہیں وہ اِس کے برعکس ہے۔
مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے کسی ایشو پر سوال اٹھانے اور انہیں انصاف فراہم کرنے میں بہت فرق ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعلیم سے متعلق (مسلم اور غیر مسلم ارکان کی جانب سے) اٹھائے جانے والے سوالوں میں سے ۴۴ فیصد کا تعلق دینی مدارس سے پایا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک بھر میں (نیشنل کاؤنسل فار اپلائیڈ اکنامک ریسرچ کے مطابق) صرف ۴ فیصد مسلم طلبہ دینی مدارس میں انرولمنٹ رکھتے ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے کی جانے والی مداخلت کسی بھی کمیونٹی کے بنیادی مسائل کو لازمی طور پر نہ تو سامنے لاتی ہے اور نہ ہی اُن کے حل کیے جانے کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
دل خراش حقیقت یہ ہے کہ جن معاملات کا بھارتی مسلمانوں کے حالات سے بہت گہرا تعلق ہے، اُن پر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں شاذ و نادر ہی بات ہو پاتی ہے۔ ۲۰۱۷ء کے ایک گیلپ سروے کے مطابق بھارت بھر کے ۸۵ فیصد سے زائد مسلمانوں نے کہا کہ وہ تعلیم اور روزگار کے حوالے سے صِنفی مساوات کے قائل ہیں، یعنی یہ کہ لڑکیوں کو عمومی اور رسمی نوعیت کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور اِس سے ایک قدم آگے جاکر انہیں معاشی جدوجہد بھی کرنی چاہیے تاکہ حالات بہتر بنائے جاسکیں مگر اس حوالے سے پارلیمنٹ میں کم ہی آواز اٹھائی جاتی ہے۔ مسلم خواتین کے بنیادی مسائل کو پارلیمان کے وقفہ ہائے سوالات میں بہت حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بھارتی پارلیمان میں مسلمانوں سے متعلق پوچھے جانے والے سوالات میں سے صرف ڈیڑھ فیصد کا تعلق خواتین کی تعلیم اور مجموعی بہبود سے متعلق ہوتے ہیں۔ بیورو آف ریسرچ آن انڈسٹری اینڈ اکنامک فنڈامینٹلز (بی آر آئی ای ایف) کے ایک سروے میں ۱۳ فیصد رائے دہندگان نے سیکورٹی (تحفظ) کو بھارتی مسلمانوں کا ایک بنیادی مسئلہ قرار دیا مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے مسائل سے متعلق پوچھے جانے والے سوالات میں صرف تین فیصد کا تعلق تحفظ کے معاملے سے ہوتا ہے۔
کلیدی سوال یہ ہے کہ لوک سبھا میں مسلمانوں کے لیے آواز کون اٹھاتا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم یکساں طور پر سوالات اٹھاتے ہیں مگر لوک سبھا میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی نمائندگی انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی ارکان بھارتی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، دل خراش حقیقت یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے بیشتر بنیادی اور پیچیدہ مسائل کا تذکرہ تک نہیں ہو پاتا۔
(سلونی بھوگلے بھارت کی اشوکا یونیورسٹی کے تریویدی سینٹر فار پولیٹیکل ڈیٹا کی ریسرچ فیلو ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Who speaks for Muslims in Lok Sabha?” (“Hindustan Times”. March 26, 2019)
👍