امریکا میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں۔ امریکی سیاست اور عوامی زندگی پر ایک پارٹی کا قبضہ ہے جس کا نام ’’ریپبلی کریٹس‘‘ ہے۔ اس پارٹی کے دو سربراہ ہیں۔ تمام بنیادی مسائل پر دونوں بڑی پارٹیوں کی ایک ہی سوچ ہے۔ فرق صرف تکنیکی معاملات ہے۔ مقاصد ایک ہیں، حصول کے ذرائع اور طریقے مختلف ہیں۔ صدر بارک اوباما نے چار برسوں کے دوران ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے پیش رَو سے زیادہ مختلف نہیں۔
امن کا نوبل انعام پانے والے صدر براک اوباما کا جنگوں کا ریکارڈ جارج واکر بش سے زیادہ برا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وہ مین اسٹریٹ کے مقابلے میں وال اسٹریٹ سے زیادہ قریب ہیں۔ ان کے چار برسوں کے دوران شہریوں کے حقوق مزید سکڑ گئے ہیں۔
گلین فورڈ کا کہنا ہے کہ بنیادی ایشوز پر براک اوباما اور مٹ رومنی کی سوچ میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معروضی انداز سے جائزہ لینے والے کسی بھی شخص کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ امریکی معاشرے میں وال اسٹریٹ کا بڑھتا ہوا عمل دخل، جنگ اور امن کے بنیادی سوال اور متعلقہ امور پر امریکی معاشرے میں دو بحثیں چل رہی ہیں۔ اگر عوامی سطح پر مزاحمت کمزور ہو تو حکومت کے پیدا کردہ کسی بھی معاشی بحران کے مقابلے میں ایسا بحران پیدا نہیں کیا جاسکتا جو حکومت کے لیے بحران کی شکل اختیار کرسکتا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب دونوں صدارتی امیدواروں کے لیے کوئی ایسی اہم چیز نہیں جس پر بحث کی جاسکتی ہو۔
امریکا میں انتخابات کے دوران ری پبلکن اور ڈیموکریٹ امیدواروں کے درمیان ہونے والی بحث کی تاریخ بتاتی ہے کہ دیگر امیدواروں کو جان بوجھ کر الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ دی کمیشن آن پریزیڈینشل ڈیبیٹس ایک پرائیویٹ کارپوریشن ہے جس کے سربراہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق صدور ہیں۔ یہ کمیشن دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان بحث کے انتظامات کرتا ہے۔ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ ماڈریٹر کا انتخاب بھی حساب کتاب سے کیا جاتا ہے اور ایشوز بھی سوچ سمجھ کر اٹھائے جاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ بنیادی ایشوز پر امریکیوں کے حق میں اٹھائی جانے والی متبادل آوازیں کسی کو سنائی نہ دیں۔
۲۰۰۸ء میں دونوں بڑے صدارتی امیدواروں نے وال اسٹریٹ کو بیل آؤٹ کرنے پر رضامندی ظاہر کردی جبکہ دیگر تمام امیدوار مالیاتی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈ کا پردہ چاک کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں بڑی جماعتوں نے یہ بات ٹھونس دی کہ بیل آؤٹ صرف ضروری نہ تھا بلکہ قومی مفاد میں بھی تھا۔ متبادل آوازیں دبا دی گئیں۔ یہی حال ری پبلکنز کی متعارف کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہے۔ ڈیموکریٹ صدر براک اوباما نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کی اور وہی کچھ کیا جو جارج واکر بش نے کیا تھا۔ اس جنگ کو انسانیت نواز قرار دینے اور تسلیم کروانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
امریکا کی دونوں بڑی جماعتیں مباحثے کا اہتمام کرکے قوم کو یقین دلاتی ہیں کہ جو کچھ امریکا دنیا بھر میں کر رہا ہے وہ درست ہے۔ کسی بھی غیر ملکی حکومت کو ختم کرنے اور اس کے سربراہ کو خاک چاٹنے پر مجبور کرنے کے لیے اسی کے ملک میں باغیوں کو مسلح کرنا درست ہے۔ یہ سب کچھ امریکی اقدار کو متعارف کرانے کے نام پر کیا جاتا ہے۔
مٹ رومنی اور براک اوباما دونوں ہی نے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ امریکا دنیا کے لیے ناگزیر ہے۔ مٹ رومنی کا کہنا ہے کہ آزادی اور جمہوریت بنیادی اقدار ہیں جن کے تحفظ کے لیے امریکا کچھ بھی کرسکتا ہے۔ جہاں انتخابات ہوں گے وہاں لوگ امن کے لیے ووٹ دیں گے۔ جنگ کے لیے تو کوئی بھی ووٹ نہیں دے گا۔ دوسری طرف براک اوباما کا کہنا ہے کہ مضبوط امریکا عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا تب امریکا جتنا مضبوط تھا اب اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔
مٹ روکنی کہتے ہیں کہ امریکا شام میں حکومت تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ بشار الاسد کے جگہ وہ لوگ حکومت سنبھالیں جو امریکا سے دوستانہ رویہ رکھتے ہوں۔ شام میں حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے اب تک حقیقی معنوں میں متحد نہیں ہوسکے ہیں۔ انہیں متحد ہونے میں مدد دینے کے لیے امریکا اپنا کردار عمدگی سے ادا کرسکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ شام میں مزاحمت کرنے والوں کو ہتھیار ملیں تاکہ وہ بشار انتظامیہ سے نجات پانے کے مشن میں کامیاب ہوں۔
۲۲؍اکتوبر کے مرکزی مباحثے میں صدر اوباما نے کہا کہ گورنر رومنی نے شام کے بارے میں جو کچھ کہا ہمارے بھی کم و بیش وہی خیالات ہیں۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہم شام میں امن اور دوست حکومت چاہتے ہیں۔ ہم ایسی ہی قیادت کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
یہ بات ذہن کو کس قدر صدمہ پہنچانے والی ہے کہ دونوں صدارتی امیدوار طاقت کے ذریعے کسی بھی ملک میں حکومت کی تبدیلی کے معاملے پر متفق ہیں۔ اس کے لیے وہ باغیوں اور دہشت گردوں کو مسلح کرنے سے دریغ کے قائل نہیں۔ بل وان اوکن (Bill Van Auken) کے الفاظ میں مباحثہ غلیظ سیاسی تماشا تھا۔
جو سوالات کئے گئے ان میں اور جو جوابات دیئے گئے ان میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ امریکی استعمار اپنے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک کو تباہی اور انسان کو موت سے دوچار کرنے کا حق رکھتا ہے!
کئی عشروں سے امریکی سرمایہ دارانہ نظام اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے دنیا بھر میں وسیع تباہی کی راہ ہموار کرتا رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے یہ تاثر بھی پروان چڑھایا گیا ہے کہ امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے سے گریز سراسر لاحاصل اور فضول ہے۔
جب دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں تو پھر یہ کیسے سوچ لیا جائے کہ انتخابات میں دھاندلی اور دھوکا دہی کا ارتکاب نہیں کیا جاتا ہوگا؟ اب ایک بار پھر ووٹنگ مشینز کا سوال اٹھایا جارہا ہے۔ سولیمیئر نامی ایکویٹی فنڈ کے ذریعے مٹ رومنی، ان کی اہلیہ، بیٹے اور بھائی کی ایچ آئی جی کیپٹل نامی انویسٹمنٹ فرم میں خاصی وقیع سرمایہ کاری ہے اور یہ سرمایہ کار کمپنی ہارٹ انٹر سوک نامی کمپنی میں غالب حصہ رکھتی ہے۔ انٹر سوک ووٹنگ مشین تیار کرتی ہے۔ یہ کمپنی اوہایو میں کاسٹ کئے جانے والے الیکٹرانک ووٹس کی گنتی کرے گی۔ ہارٹ مشین چند دوسری ریاستوں میں بھی استعمال کی جائے گی۔
مٹ، این، جی اسکاٹ اور ٹیگ رومنی، رومنی کا ’’چھٹا بیٹا‘‘ اور انتخابی مہم کے مالیاتی امور کا سربراہ ایک خفیہ پرائیویٹ ایکویٹی سولیمیئر کیپٹل پارٹنرز کے مالک ہیں۔ رومنی کی انتخابی مہم سے اس فرم کے روابط اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ اس کمپنی کی ایک ذیلی کمپنی لاطینی امریکا میں منی لانڈرنگ میں بھی ملوث رہی ہے۔ پونزی اسکیم کے تحت منی لانڈرنگ کی جاتی رہی ہے۔ سولیمیئر کیپٹل پارٹنرز نے ایک ناکام کمپنی کے ملازمین کی خدمات حاصل کی ہیں۔ یہ سلسلہ ایران کونٹرا اسکینڈل تک دراز ہو جاتا ہے۔
(Who Will Win the Elections? “The Republicrats”. “Global Research”. Oct. 24th, 2012)
Leave a Reply