چینی زبان میں روڈ سائن، استنبول میں ہنگامہ

کچھ مدت قبل ترکی کے شہر استنبول میں شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے کو ملا جو اُن کی آنکھوں کے لیے بہت حد تک اجنبی تھا۔ شہر کے بعض حصوں میں (بالخصوص اُن علاقوں میں جو سیاحوں میں بہت مقبول ہیں) میٹرو اور ٹرام اسٹیشنوں کے نام چینی حروفِ تہجی میں دکھائی دیے۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور ترک مسلمانوں سے بدسلوکی اور حق تلفی پر مشتعل مظاہرین نے بعض سائن بورڈ توڑ بھی دیے۔ بعض سائن بورڈوں پر چین مردہ باد اور مشرقی ترکستان کی آزادی سے متعلق نعروں پر مبنی پوسٹر چسپاں کردیے گئے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے میئر اکرم اماموغلو نے بتایا کہ یہ سائن بورڈ استنبول اور چینی سفارت خانے کے درمیان سمجھوتے کے نتیجے میں لگائے گئے تھے، اور جتنی تیزی سے لگائے گئے تھے اُتنی ہی تیزی سے ہٹا بھی دیے گئے۔

ترکی میں چین کی موجودگی بڑھ رہی ہے۔ بہت سی چیزوں اور معاملات پر غور کرنے سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ چین اب ترکی میں بھی قدم جما رہا ہے۔ ایک عشرے قبل ترکی آنے والے چینی سیاحوں کی تعداد ساٹھ ہزار تھی۔ اور اب یہ تعداد چار لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ چین نے ترکی کو ہائی اسپیڈ ٹرین کے لیے ٹریک بنانے میں غیر معمولی حد تک مدد دی ہے۔ چینی کمپنی ہواوے ترکی میں فائیو جی موبائل نیٹ ورک پھیلانے پر کام کر رہی ہے۔ چینی سرمایہ کار ترک کانوں سے سنگِ مرمر نکلواکر وطن بھجوا رہے ہیں۔ گزشتہ برس چین کے مرکزی بینک نے ایک معاہدے کے تحت ترکی کو ایک ارب ڈالر فراہم کیے تاکہ ترک کرنسی کو مضبوط کیا جاسکے۔ سُننے میں آرہا ہے کہ ترکی میں بہت جلد چین سے بڑے پیمانے پر سرمایہ آئے گا۔ یہ سرمایہ دی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت ہوگا، جس کا بنیادی مقصد چین کو درجنوں ممالک سے جوڑ کر ایک بڑی تجارتی راہداری قائم کرنا ہے۔ چین اِن تمام ممالک میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے غیر معمولی حد تک کوشاں ہے۔ پاکستان میں چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ بھی اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔

چین نے ترکی کے بارے میں جو کچھ سوچ رکھا ہے، اُس پر اب تک عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کا تعلق سنکیانگ کی صورتِ حال سے بھی ہے۔ چین کے اِس صوبے میں ایغور (ترک) نسل کے مسلمانوں سے بدسلوکی نے ترکی میں بہت سوں کو ناراض کر رکھا ہے۔ گزشتہ برس بڑے مسلم ممالک میں ترکی شاید واحد ملک تھا، جس نے سنکیانگ میں کم و بیش دس لاکھ افراد کو داڑھی رکھنے اور راسخ العقیدہ مسلم کی طرز پر جینے کی پاداش میں جیل میں ڈالے جانے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس احتجاج کی بنیاد پر چین نے ترکی کے ایک بڑے ساحلی شہر ازمیر میں اپنا قونصلیٹ بند کردیا تھا۔ شنگھائی یونیورسٹی میں سینٹر فار ٹرکش اسٹڈیز کے گو چینگ گینگ کہتے ہیں، بات یہ ہے کہ ترکی نے چین کی طرف سے کھینچی جانے والی سرخ لکیر پار کی تھی۔ تب سے اب تک ترکی نے غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ گزشتہ جون میں ترک پارلیمان میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے سنکیانگ کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ حکمراں جماعت نے اکثریتی رائے سے اس مطالبے کو مسترد کردیا۔ چین کے اپنے دورے میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے سنکیانگ کے حراستی مراکز کے حوالے سے خاصے نرم انداز سے گفتگو کی۔

چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ترکی سے زیادہ دیر دور نہیں رہے گا۔ ترکی کم و بیش آٹھ کروڑ افراد پر مشتمل مارکیٹ ہی نہیں، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں داخلے کا راستہ بھی تو ہے۔ خانہ جنگی سے تباہ ہونے والے شام کی تعمیرنو کے حوالے سے بے تاب چینی کنٹریکٹر آسان اور سستی رسائی کے لیے ترکی سے بہتر تعلقات پر زور دے سکتے ہیں۔ استنبول کی کوک یونیورسٹی کے ایتلے اتلی کہتے ہیں کہ ترکی کے پاس وسائل بھی ہیں اور سپلائر بھی اس لیے چینیوں کو ترکی کا رخ کرنا ہی پڑے گا۔

چند برسوں کے دوران ترکی نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی توجہ پانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب تو یہ ہے کہ امریکا اور یورپ سے اس کے تعلقات خاصے کشیدہ رہے ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب روس سے دوستی بڑھانا اور روسی میزائل خریدنا بھی ہے اور پھر بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ بھی ہے۔ حکومت سے تعلق رکھنے والی بہت سی شخصیات نے صدر رجب طیب ایردوان پر زور دیا ہے کہ روس کی طرح چین سے بھی دوستی بڑھائی جائے اور اشتراکِ عمل کی بنیاد مزید مضبوط کی جائے۔ خیر، اس بات کا امکان تو کم ہی ہے کہ چینی قیادت ترکی کی معیشت کی بہتری کے لیے کوئی بیل آؤٹ پیکیج فراہم کرے گی۔ ۲۰۰۲ء اور ۲۰۱۸ء کے دوران ترکی میں کی جانے والی بیرونی سرمایہ کاری کا ۸۰ فیصد یورپ سے تھا اور چین کا حصہ محض ایک فیصد تھا۔

استنبول میں تفریح گاہوں اور شاپنگ سینٹر والے مرکزی علاقے سے جڑے ہوئے نئے تعمیر شدہ بیجنگ ہوٹل میں چینی سیاح بڑی تعداد میں قیام پذیر رہتے ہیں۔ جیکی چینگ کم و بیش بیس سال قبل ترکی آئے تھے۔ انہوں نے ٹیکسٹائل کی مصنوعات اور سووینرز کے شعبے میں قسمت آزمائی کی اور کامیاب رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی میں کاروبار کا معاملہ بہت اچھا ہے۔ وہ استنبول کے علاوہ ترکی کے دیگر شہروں میں بھی اپنا کاروبار پھیلانا چاہتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایسا کرنے سے ان کے آبائی ملک یعنی چین سے مزید سیاحوں کی آمد ہوگی اور سرمایہ کار بھی آئیں گے تو انہوں نے کہا کہ ترک حکومت طویل مدت قیام کا ویزا اور کاروبار کا اجازت نامہ دینے کے معاملے میں غیر معمولی حد تک معاون رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت جس چیز کی ہے، وہ ہے چینی زبان میں سائن بورڈ۔ ترکی کے طول و عرض میں چینی زبان میں سائن بورڈ دکھائی دیں گے تو چینی سیاح اور سرمایہ کار زیادہ اپنائیت محسوس کریں گے۔

(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

“Why Chinese road signs cause outrage in Istanbul”. (“The Economist”. January 30, 2020)

2 Comments

  1. ترکی حکومت نے معاشی وتجارتی اھداف مقرر کئے ہیں۔اور اپنی سلامتی و وقار کے مطابق ان سے روس و چین سے معاملات کئے ہیں ۔یہ تجدید اعیائے دین والے ہی کر سکتے ہیں۔۔

Leave a Reply to عبدالصبور یوسفی Cancel reply

Your email address will not be published.


*