نتائج سے قطع نظر، یورپی یونین کی رکنیت ترکی کے لیے ایسی کیفیت ہے جس میں کسی بھی اعتبار سے کوئی خسارہ نہیں۔ اگر ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دی جاتی ہے تو کیا کہنے۔ اس صورت میں ملک غیر معمولی وقعت سے ہمکنار ہوگا اور اگر نہیں دی جاتی تب بھی آگے چل کر وہی کیفیت پیدا ہوگی جو ناروے کے لیے پیدا ہوئی۔ اس نے حال ہی میں یورپی یونین کو امن کا نوبل انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
رکنیت دینے سے انکار کیے جانے کی صورت میں یہ بات سامنے آئے گی کہ ترکی میں جمہوری عمل یورپی یونین کے طے شدہ معیارات سے کمتر ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ترکی کو جمہوری اقدار اپنانے کی تحریک ملے گی۔ یہ بھی کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے کچھ مدت سے یورپی یونین کی رکنیت کو ایجنڈے سے نکال دیا ہے یا سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین پر رکنیت دینے کے حوالے سے دہرے معیار کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ مگر خیر ۲۰۰۵ء اور ۱۹۹۹ء میں یہ معاملہ زیادہ جاندار تھا، جب ترکی کو رکنیت دینے کے معاملے میں واضح طور پر تعصب (Prejudice) کا مظاہرہ کیا گیا۔ اِس کے بعد ترکی نے جمہوریت کو اپنانے کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کیے۔
ترکی ایک ہی نسل کے لوگوں پر مشتمل ملک نہیں۔ یورپی یونین کے بیشتر ارکان اور یورپی پارلیمنٹ کا بھی یہی حال ہے۔ یورپی بلاک میں ترکی کو یونین کی رکنیت دیے جانے کے معاملے میں حمایت اور مخالفت دونوں ہی کا وجود ثابت ہے۔ ترکی کے بارے میں کسی بھی ملک کی خواہ کوئی رائے ہو اُس سے یورپی یونین کے حوالے سے اُس کی درخواست پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور اِس حوالے سے اُس کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ اِس وقت حکومتی ایجنڈے پر سر فہرست نہ ہو تب بھی ترکی کے لیے یورپی یونین کی رکنیت کے حصول سے متعلق کوششیں بہت اہم ہیں۔
یورپی یونین نے حال ہی میں ترکی کے بارے میں جو پروگریس رپورٹ شائع کی ہے اس پر اندرون ملک ابھرنے والا ردعمل کسی بھی اعتبار سے قومی مفادات کے حق میں نہیں۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یورپی یونین اپنے ارکان پر بھی تنقید کرتی رہتی ہے۔ ہنگری کی حکومت کو روما نسل کے لوگوں اور غیر ملکیوں سے متعلق پالیسی پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اِس نوعیت کی تنقید کا عادی ہونا پڑے گا۔ یورپی یونین کی کسی بھی رپورٹ پر غیر معمولی ردعمل کا مظاہرہ ہمارے قومی مفاد کے برعکس ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یورپی یونین کی رپورٹ پر ترکی میں اس قدر ردعمل کا سبب کیا ہے؟ یورپی یونین کی رکنیت سے متعلق امور کے وزیر کو کیوں یہ کہنا پڑا کہ ترکی کو اب یورپی یونین کی رکنیت کی ضرورت نہیں؟ پارلیمنٹ کے آئینی مصالحتی کمیشن نے یورپی یونین کی ترکی سے متعلق پروگریس رپورٹ کو کیوں مسترد کردیا؟ ترک وزیر معیشت نے کیوں کہا کہ یورپی یونین تاریخ کا سب سے منافق ادارہ ہے اور اِسے منافقت کا نوبل انعام ملنا چاہیے؟
جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے اپنے ابتدائی دور میں فوج کے خلاف اقتدار کی جنگ جیتنے کے لیے یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے مشن کو اپنے ایجنڈے کا اہم ترین نکتہ بنایا۔ فوجی اقتدار کی جڑیں کمزور کرنے کے لیے جمہوریت کو اپنانے اور اصلاحات نافذ کرنے کے سِوا کوئی چارہ نہ تھا۔ عوام کی بھی خواہش تھی کہ یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے قابل ہونے کے لیے چند اصلاحات نافذ کی جائیں۔ دو طرفہ دباؤ کے نتیجے میں حکومت کو اصلاحات نافذ کرنا پڑیں۔ ۲۰۰۷ء میں اختیارات کی تحلیل اور ۱۲؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو اصلاحات سے متعلق ریفرنڈم جیت کر حکومت نے جنگ جیت لی۔
اِسی دوران یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے معاملے کو زیادہ مقبولیت حاصل نہ رہی۔ ایسی کامیابیاں حاصل ہوئیں جو دکھائی دیتی تھیں اور دشمن کو شکست ہوئی۔ حکومت نے محسوس کرلیا کہ اب یورپی یونین کی رکنیت کے حصول میں کچھ خاص کشش نہیں رہی۔
مگر ایک سنجیدہ مسئلہ برقرار ہے۔ کیا واقعی ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت کی ضرورت ہے؟ یا اب ضرورت نہیں رہی؟ کیا ترکی میں اصلاحات کے نفاذ کا عمل مکمل ہوچکا ہے؟ کیا یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ ترکی میں اصلاحات نے صورتِ حال کو یکسر پلٹ کر رکھ دیا ہے اور اب اقتدار کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی قوتوں کو شکست دی جاچکی ہے؟ کیا واقعی ترکی اِس قدر جمہوری اور ترقی یافتہ ہوچکا ہے کہ اُسے اب یورپی یونین کی رکنیت کی ضرورت ہی نہیں؟
میں نہیں سمجھتا کہ جمہوری عمل مکمل ہوچکا ہے۔ ترکی نے جو اصلاحات نافذ کی ہیں وہ اب تک ادھوری ہیں۔ جمہوری عمل کی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت ہے۔ کرد مسئلہ اور پی کے کے کا ایشو اب تک موجود ہے۔ یورپی یونین نے جو پروگریس رپورٹ جاری کی ہے اس میں ہماری متعدد کوتاہیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور ان کوتاہیوں کو دور کرنے کا راستہ بھی یورپی یونین کے اصولوں اور قواعد میں موجود ہے۔ اگر ترکی حکومت اصلاحات کا دائرہ وسیع کرنا چاہے تو فوج راہ میں حائل نہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام بھی راضی ہیں۔
یہ بات اب مکمل طور پر عیاں ہے کہ یورپی یونین کی پروگریس رپورٹ پر حکومت کا ردِ عمل کسی بھی اعتبار سے معقول نہ تھا۔
(“Why is EU Membership Important?”… “Todays Zaman” Turkey. Oct. 17th, 2012)
Leave a Reply