ایہود آئرین اسرائیل کی ریزرو فورس میں میجر ہیں۔ اٹارنی جنرل اور وزیر اعظم ایہود بارک کی خارجہ پالیسی ٹیم میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’دی ایسینس آف لانگنگ: جنرل ایریز گرنسٹین اینڈ دی وار ان لیبینن‘‘ اسرائیل میں ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت وہ ہارورڈ کے کینیڈی اسکول میں ریسرچ فیلو ہیں۔
میں اسرائیل سے محبت کرتا ہوں۔ مگر غزہ کے ساحل پر اسرائیلی کمانڈوز کے ہاتھوں امدادی جہازوں کے قافلے پر حملے اور انسانی حقوق کے ۹ کارکنوں کی ہلاکت نے ثابت کردیا ہے کہ میں اس ملک کے ان لوگوں میں سے بھی ہوں جو اس کی سمت کے درست نہ ہونے کے حوالے سے پریشان ہیں۔
فلسطینیوں سے تنازع ہمیں اخلاقی اقدار ہی سے دور نہیں کر رہا، بلکہ بے حس بھی کرتا جارہا ہے۔
حالات و واقعات کی ساخت بالکل واضح ہے۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگ مارے جارہے ہیں اور ہمیں اس کی کم سے کم پروا ہے۔ ۲۰۰۸ء کے اواخر اور ۲۰۰۹ء کے اوائل میں غزہ میں جو کچھ ہوا اس میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کو ۱۱۰۰ کے عدد تک پہنچنے میں صرف ۲۲ دن لگے۔ ۱۹۴۹ء کے بعد فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان سب سے خوں ریز تصادم انتفاضہ کی تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا تھا۔ ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۳ء کے دوران اس تحریک میں اتنے ہی فلسطینی مارے گئے تھے جتنے غزہ میں صرف ۲۲ دن میں مارے گئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل سخت تر ہوتے گئے ہیں۔ پہلی انتفاضہ تحریک کے بعد اسرائیل کی ملٹری پولیس نے اندرونی سطح پر تحقیقات کیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کتنی ہلاکتیں فورسز کے ہاتھوں ہوئیں۔ اب ایک عشرے کے دوران ایسی تحقیقات محض خانہ پری کے لیے کی گئی ہیں۔ اور امدادی قافلے پر حالیہ حملے سے متعلق کسی بھی قسم کی تحقیقات کا کوئی امکان نہیں۔
اس وقت اسرائیلیوں کے دلوں میں دوسروں کے لیے ہمدردی کے جذبے کا تقریباً مکمل فقدان ہمیشہ سے نہیں تھا۔ ۱۹۲۳ء میں اسرائیل کے سخت گیر احیاء پسند عناصر کے سرخیل زئیف جیبوٹنسکی نے صہیونیت کے خلاف عرب دنیا کی مزاحمت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا تھا ’’ہر مقامی آبادی کی طرح عرب بھی اس علاقے کو اپنا گھر قرار دیتے ہیں اور صہیونیت کے خلاف ان کی مزاحمت فطری امر ہے‘‘۔ ۶۳ سال بعد اسرائیل کے وزیر اعظم ایہود بارک نے اسی بات کو یوں بیان کیا ’’اگر میں بھی فلسطینیوں میں پیدا ہوا ہوتا تو کسی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوکر اسرائیل کے خلاف کھڑا ہوتا۔‘‘ مگر آج ایہود بارک سمیت کوئی بھی اسرائیلی لیڈر فلسطینیوں کی مشکلات کے بارے میں اس نوعیت کی تفہیم کا مظاہرہ یا اعتراف نہیں کرسکتا۔
دلوں میں پیدا ہو جانے والی یہ سختی کچھ ہمارے سیاسی رہنماؤں تک محدود نہیں۔ وہ بہرحال عوامی جذبات کے عکاس ہی ہوتے ہیں۔ ستمبر ۱۹۸۲ء میں جب لبنان کے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں میں عیسائی ملیشیا کے کارکنوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کا اندھا دھند قتل عام کیا تھا تب اسرائیل کی ۱۰ فیصد آبادی نے دارالحکومت تل ابیب کی سڑکوں پر آکر ان واقعات میں اسرائیل کی بالواسطہ ذمہ داری کے حوالے سے احتجاج کیا تھا۔ ۲۶ سال بعد غزہ میں جب اسرائیلی فوج کی کارروائی میں ۱۱۰۰ فلسطینی مارے گئے تو بہت ہی کم تعداد میں اسرائیلیوں نے احتجاج کیا۔
مجھے خوف ہے کہ یہ محض اخلاقی بے حسی نہیں۔ ڈین ایچیسن نے کہا تھا کہ غیر اخلاقی پالیسی سے بھی بری چیز ہوتی ہے اور وہ ہے خامیوں سے عبارت پالیسی۔ ہمارے قائدین کی وسائل اور اہداف میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی اہلیت سے محرومی نے ملک کے وجود ہی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ۱۳۰ سال قبل شروع ہونے والی صہیونیت کی تحریک کے تحت اپنے لیے محفوظ وطن کے قیام کی خاطر فلسطین ہجرت شروع کرنے کے بعد سے اب تک ہم اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے صرف طاقت پر منحصر رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ۱۹۴۵ء کے بعد سب سے زیادہ یہودی اسی محفوظ جنت میں مارے گئے ہیں۔ اگر اسرائیل کی حکومت ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے سلسلے میں عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی تو صہیونی ناکامی کا گراف مزید گر جائے گا۔
غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے بھیجے جانے کے لیے امدادی جہازوں پر فائرنگ جیسے واقعات سے صورت حال مزید خراب ہوگی اور مزاحمت کی نئی راہیں کھلیں گی۔ جس ناکہ بندی نے امدادی جہاز بھیجے جانے کی راہ ہموار کی وہ سراسر غیر انسانی اقدام ہے۔ سیکورٹی کی وجوہ کو بنیاد بناکر بھی اس کا جواب مشکل ہی سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ ناکہ بندی انہی لوگوں کے خلاف جن کے وجود ہی سے، ارد گرد کے کروڑوں عرب باشندوں کی نظر میں، ہمارا ریاستی وجود باجواز ثابت ہوتا ہے۔ ترک باشندوں کی ہلاکت نے اسرائیل سے ترکی کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ترکی واحد ملک ہے جس نے اسرائیل سے بامقصد تعلقات قائم کرنے کے لیے فلسطینیوں کی رضامندی حاصل کرنے کا انتظار بھی نہیں کیا تھا۔ اسرائیل نے جو کچھ غزہ کے ساحل پر کیا ہے اس نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سخت پابندیوں کے نفاذ کا عمل سست کردیا ہے۔ ہمارا دورِ جدید کا اسپارٹا کب تک تلوار کے بَل پر جی سکتا ہے، جبکہ تلوار نئی مشکلات پیدا کرتی جارہی ہو!
غزہ آپریشن اور اسی نوعیت کے دیگر تضادات سے جذبات پر پڑنے والا بوجھ بہتوں کے لیے مشترکہ معاملہ ہے۔ ’’مجھ سمیت بہت سے اسرائیلی اس ملک سے پیار کرتے ہیں، اس کی کامیابیوں پر انہیں فخر ہے اور وہ اس کی حدود میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے ہیں جو اس ملک کے دفاع کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔‘‘ یہ الفاظ اسرائیلی فضائیہ کے سابق کمانڈنگ آفیسر میجر جنرل (ر) ایموس لیپیڈوٹ کے ہیں۔ ۱۹ اپریل کو انہوں نے اسرائیلی اخبار ’’ہاریز‘‘ میں مزید لکھا۔ ’’چند برسوں کے دوران یہ احساس تیزی سے پروان چڑھا ہے کہ کیا ہم اسرائیل کا مزید دفاع کرسکتے ہیں، کیا اس ریاست کے مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے؟‘‘ بہت سے دوسرے لوگ قبائلی وفاداری اور انصاف کے عالمگیر تصور کے درمیان کھنچاؤ محسوس کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن یوڈی الونی نے یکم جون کو آن لائن جریدے YNET میں لکھا ’’میں امداد لے جانے والے ایک جہاز پر تقریباً سوار ہو ہی گیا تھا مگر آخری لمحات میں فیصلہ بدل کر میں الگ ہوگیا۔ میں اس فوج سے کیسے ٹکرا سکتا تھا جس میں ۳۰ سال قبل میں خود بھی بھرتی ہوا تھا اور خدمات انجام دی تھیں۔‘‘
میری بھی چند وفاداریاں ہیں۔ عہد شباب کے آغاز کے حوالے سے میری چند خوشگوار یادیں مسٹر ایچ سے وابستہ ہیں جو اَب اسپیشل فورسز یونٹ کے سربراہ ہیں۔ ہم نے چونکہ ساتھ وقت گزارا ہے اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کپڑے کے ایک ہی ٹکڑے سے کاٹا گیا تھا۔ ان کا یونٹ غزہ میں تعینات کیا گیا تھا تاہم مجھے یقین ہے کہ وہ ٹارگیٹ کلنگ میں ملوث نہیں تھا۔ ہاں، انسانی حقوق کے گروپوں نے اسی عشرے کے دوران ان پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام بھی عائد کیا۔ میرے لیے یہ سوہانِ روح ہے۔
ذہنی الجھن سے بچنے کے لیے اب میں نے بزدلی کا راستہ منتخب کیا ہے۔ دل اور دماغ کے درمیان کشمکش سے بچنے کے لیے میں اب تمام معاملات کو بیرونی پس منظر کے تحت پرکھتا ہوں۔ اب میں جو سوچ اختیار کرنے والا ہوں وہ خالص ذاتی نوعیت کی ہے۔ اب ہمیں فلسطینی مسئلے کے حوالے سے اسٹریٹجک حساب کتاب ختم کرکے خالص انسانی نقطہ نظر کو اپنانا چاہیے۔ اسرائیل میں میرے دوست یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ میں اب مشرق وسطیٰ کے مسئلے کو طاقت اور جبر کے ذریعے حل کرنے کی تسلیم شدہ سوچ کے بجائے سادہ لوحی کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ مگر میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سوچ سادہ لوحی پر مبنی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب یہی ایک طریقہ اس مسئلے کو حل کرنے کا رہ گیا ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۱۴ جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply