’’پاکستان کی حمایت کیوں؟‘‘ | پہلی قسط

تحریکِ پاکستان کے دنوں میں دارالعلوم دیوبند کی دو بزرگ عالم شخصیات بہت نمایاں ہوئیں جن میں سے ایک مولانا حسین احمد مدنیؒاور دوسرے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒتھے۔ اتفاق سے دونوںحضرات دارالعلوم دیوبند کے ممتاز اساتذہ بھی تھے۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں اس دور کی معروف مذہبی تنظیم ’’جمعیت العلمائے ہند‘‘ کے دو ٹکڑے ہوئے جن میں سے اول الذکر کی قیادت حسب سابق مولانا حسین احمد مدنیؒ کے پاس رہی جب کہ دوسرے گروپ ’’جمعیت العلمائے اسلام‘‘ کی قیادت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے کی۔ تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے معاملے پر ’’جمعیت العلمائے ہند‘‘ نے قائداعظم کا ساتھ دینے کے بجائے کانگریس اور گاندھی کا ساتھ دیا جب کہ ’’جمعیت العلمائے اسلام‘‘ نے کانگریس کے بجائے قائداعظم اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ مرحوم قائداعظم کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار کیے گئے۔ پاکستان کے معاملے میں مولانا کا ساتھ دینے والے دیگر علما میں مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور مفتی محمد شفیعؒ جیسی جیّد ہستیاں بھی تھیں۔

تقسیم ہند سے قبل یکم محرم ۱۳۶۵ھ (دسمبر ۱۹۴۵ء) میں دارالعلوم دیوبند میں دونوں جیّد ہستیوں کے درمیان پاک وہند کے موضوع پر ایک تفصیلی مکالمہ ہوا جس میں مولانا حسین احمد مدنی ؒاور ان کے رفقا نے مولانا شبیر احمد عثمانیؒ سے ’’پاکستان کی حمایت کیوں‘‘ پر کئی سوالات کیے۔

تحریک پاکستان کا یہ ایک نادر و دِلچسپ اور اہم باب ہے جو شاید اس سے قبل اس طرح منظر عام پر نہیں آیا تھا۔

کتابچے کا نام ’’مکالمتہُ الصّدرین‘‘ ہے جسے آل انڈیا جمعیت العلمائے اسلام کے رکن مولانا طاہر احمد قاسمی نے دیوبند سے شائع کروایا تھا۔ ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ کے لیے اس کے مندرجات کو کراچی سے جناب رضی الدین سید نے روانہ کیا ہے۔ (اردو ڈائجسٹ)

گفت و شنید کی ابتدا کیسے ہوئی؟

یکم دسمبر ۱۹۳۴ء کو مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ناظم اعلیٰ جمعیت العلمائے ہند دہلی اپنی کسی ضرورت سے دیوبند تشریف لائے تھے۔ اس وقت وہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے دولت کدہ پر بھی بغرضِ عیادت و مزاج پرسی حاضر ہوئے۔ دوران مزاجی پرسی مولانا حفظ الرحمن نے علامہ عثمانی سے فرمایا کہ ہمیں آپ سے حالاتِ حاضرہ پر کچھ نیاز مندانہ گزارشات کرنی ہیں۔ مسئلہ پر شرعی حیثیت سے تو ہم آپ سے کیا گفتگو کرتے۔ یہ درجہ تو ہمارا نہیں، البتہ کچھ واقعات ایسے بیان کرنے ہیں جن کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ شاید وہ آپ کے علم میں نہ آئے ہوں۔ ممکن ہے کہ ان واقعات کو سن کر حضرت والا کی جو رائے قائم شدہ ہے، اس میں تغیر ہو جائے۔

علامہ شبیر احمد عثمانی نے فرمایا کہ میں گفتگو کے لیے ہر وقت حاضر ہوں۔ جب دل چاہے تشریف لائیں۔ مولانا حفظ الرحمن نے فرمایا کہ اس گفتگو میں میرے ساتھ مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی (ناظم ندوۃالمصنفین دہلی، برادر زادہ علامہ عثمانی) اور کوئی تیسرے صاحب جو مناسب ہوں، شریک ہوں گے۔ اس کے بعد ۵دسمبر ۱۹۴۵ء کو مولانا حفظ الرحمن کا دہلی سے ایک خط بذریعہ ڈاک بنام علامہ شبیر احمد عثمانی موصول ہوا، جو بجنسہٖ درج ذیل ہے:

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ازندوۃالمصنفین دہلی

۲۷ذی الحجہ ۱۳۶۴ھ (۱۹۴۱ء)

ذوالمجد و الکرم استاذ یددام اللہ فیوضکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، مزاج اقدس۔

کل دیوبند سے نو بجے صبح چل کر دہلی پہنچ گیا، حضرت مولانا حسین احمد سے شب میں گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جمعیت العلمائے ہند کی ایک خصوصی مشاورت جمعرات کے روز دیوبند بلانا چاہتے ہیں تاکہ جمعیت العلمائے اسلام سے متعلق بعض اہم معاملات پر گفتگو ہو سکے۔ اس مشاورت میں غالباً حضرت مفتی صاحب (مولانا کفایت اللہ صاحب، رسالے: تعلیم الاسلام چھ حصوں کے مصنف، سیّد) اور مولانا احمد سعید بھی شرکت کریں گے۔

میں نے اپنے اس معروضہ کے پیش نظر جو حضرت والا میں حاضر ہو کر پیش کیا تھا، اب یہ مناسب سمجھا کہ مولانا مفتی عتیق الرحمن اور میں جمعرات کو شب میں پہنچیں اور جمعہ کے دن گزارشات پیش کریں۔ اب میری یہ بھی سعی ہو گی کہ اکابر جمعیت العلماء بھی اس گفتگو میں حصہ لیں، تو اکابر علمائے دیوبند کے سیاسی افکار کی یکجہتی میں ان شاء اللہ بہت مدد ملے گی۔ اگر میری گزارشات منظور ہو گئیں، تو جمعہ کے دن آٹھ بجے یہ گفتگو آپ ہی کے دولت کدہ پر ہو جائے،تو بہت بہتر۔ باقی اپنی مشاورت تو شب میں اور باقی دوسرے وقت بھی ہو سکتی ہے۔

خادم محمد حفظ الرحمن کان اللہ لہ

اس پروگرام کے بموجب ۷دسمبر ۱۹۴۵ء یوم جمعہ کو ساڑھے آٹھ بجے حضرت مولانا حسین احمد (صدر جمعیت العلمائے ہند)، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ(سابق صدر جمعیت العلمائے ہند)، حضرت مولانا احمدسعید (سابق ناظم اعلیٰ جمعیت العلمائے ہند)، مولانا حفظ الرحمن (حال ناظم اعلیٰ جمعیت العلمائے ہند)، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا عبدالحنان، مولانا مفتی عتیق الرحمن، علامہ عثمانی کے دولت کدہ پر تشریف لائے۔ علامہ عثمانی نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ان حضرات سے ملے۔ کچھ دیر مزاج پرسی ہوتی رہی، عیادت کے بعد چند منٹ مجلس پر سکوت طاری رہا۔ یہ خاموشی غالباً اس لیے تھی کہ کون ابتداکرے اور کس نوعیت سے مسئلہ پر گفتگو کا آغاز ہو۔

چونکہ علامہ عثمانی کو ابتدا کرنا مقصود نہ تھا اور یہ حضرات خود تشریف لائے تھے۔ اس لیے علامہ عثمانی بھی خاموش رہے۔ آخر مولانا حفظ الرحمن نے مسائل حاضرہ پر گفتگو کا آغاز کیا اور ایک طویل تقریر فرمائی جو تقریباً پون گھنٹا جاری رہی۔ علامہ عثمانی برابر اس تقریر کو بغور سنتے رہے۔ جب وہ تقریر فرما چکے، تو علامہ عثمانی نے فرمایا کہ مجھے پورے الفاظ اور اجزا تو آپ کی لمبی چوڑی گفتگو سے محفوظ نہیں رہے جو تخلیص میرے ذہن میں آئی ہے، اس کے جوابات بلالحاظ ترتیب عرض کروں گا۔ اگر کوئی ضروری بات رہ جائے، تو آپ یاد دلا کر اس کا جواب مجھ سے لے سکتے ہیں۔

اس گفت و شنید کا سلسلہ سوا تین گھنٹے مسلسل جاری رہا۔ اس مکالمہ میںسب سے زیادہ حصہ مولانا حفظ الرحمن لیتے رہے اور دوسرے درجے میں مولانا احمدسعید ان کے شریک رہے۔ کبھی کبھی کوئی اور صاحب بھی کچھ بول پڑتے تھے لیکن حضرت مفتی کفایت اللہ نے جو مزاج پرسی کے بعد سکوت اختیار فرمایا وہ اختتامِ مجلس تک ختم نہیں ہوا۔ کسی موقع پر بھی ایک حرف نہیں بولے۔

علامہ شبیر احمد عثمانی کو اس طویل سکوت پر خود حیرت تھی۔ وہ بحث میں تو کیا حصہ لیتے، اشارۃً کنایتہ بھی کسی موضوع پر اثباتاً نفیاً کسی طرح کا اظہار نہیں فرمایا۔ آخر مجلس میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کچھ بولے جو تقریباً پندرہ منٹ سے زیادہ نہ تھا۔

مولانا حفظ الرحمن کی تقریر کا خلاصہ

مولانا حفظ الرحمن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ کلکتہ میں ’’جمعیت العلمائے اسلام‘‘ حکومت کی مالی امداد اور اس کے ایماسے قائم ہوئی ہے۔ مولانا آزاد سبحانی ’’جمعیت العلمائے اسلام‘‘ کے سلسلہ میںدہلی آئے اور حکیم دلبر حسن کے ہاں قیام کیا جن کی نسبت عام طور پر لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ وہ سرکاری آدمی ہیں۔ مولانا آزاد سبحانی(سیّد) نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ہم جمعیت العلمائے ہند کے اقتدار کو توڑنے کے لیے علما کی ایک جمعیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ گفتگو کے بعد طے ہوا کہ گورنمنٹ ان کو کافی امداد اس مقصد کے لیے دے گی۔ چنانچہ ایک بیش قرار رقم اس کے لیے منظور کر لی گئی اور اس کی ایک قسط مولانا آزاد سبحانی کے حوالہ بھی کر دی گئی۔ اس روپیہ سے کلکتہ میں کام شروع کیا گیا۔ مولوی حفظ الرحمن نے کہا کہ یہ اس قدر یقینی روایت ہے کہ اگر آپ اطمینان فرمانا چاہیں، تو ہم اطمینان کرا سکتے ہیں۔ چنانچہ مولانا آزاد سبحانی نے اس کے بعد کلکتہ میں جلسہ کیا۔ جلسہ میں انھوں نے جو کچھ گل افشانی کی، وہ آپ کے علم میں ہے۔ ان کی تلون مزاجی بھی سب کو معلوم ہے۔ ایک زمانہ میں وہ گاندھی کے ساتھ سایہ کی طرح رہتے تھے۔ پھر کچھ دنوں بعد ان کے خلاف ہو گئے۔ بہرحال اس مسلمان افسر کا تبادلہ ہو گیا اور ایک ہندو اس کی جگہ آگیا، جس نے گورنمنٹ کو ایک نوٹ لکھا۔ اس میں دکھلایا گیا کہ ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف ہونا بالکل بے سود ہے۔ اس پر آئندہ کے لیے امداد بند ہو گئی۔ اسی ضمن میں مولانا حفظ الرحمن نے کہا کہ مولانا الیاس ؒکی تبلیغی تحریک کو بھی ابتداً حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمدکچھ روپیہ ملتا تھا، پھر بند ہو گیا۔ اس کے بعد مولوی حفظ الرحمن نے پاکستان کی صورت میں جو نقصانات ان کے نزدیک تھے، وہ ذرا بسیط کے ساتھ بیان کیے اور دکھایا کہ مسلمانوں کے لیے نظریہ پاکستان سراسر مضر تھا۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ نے کلام اس قدر طویل کر دیا ہے کہ نمبر وار ہر ایک چیز کا جواب دینا مشکل ہے۔ میں جو کچھ یاد رکھ سکا ہوں، ان کے جوابات دوں گا۔ اگر کسی چیز کو بھول جائوں، تو آپ مجھے یاد دلا کر اس کا جواب لے لیں۔

علامہ عثمانی کا جواب

پہلے میں اس معاملے کی نسبت گفتگو کرتا ہوں جو روایت آپ نے بیان کی، میں نہ اس کی تصدیق کرتا ہوں نہ تکذیب۔ ممکن ہے کہ آپ صحیح کہتے ہوں۔ مجھے اس سے پہلے بذریعہ ایک گمنام خط کے، جو دہلی سے ڈالا گیا تھا، یہی بتلایا گیا تھا اور مجھے بھی اس خط میں دھمکی دی گئی تھی۔ یہ روایت صحیح ہو یا غلط، بہرحال میرے علم میں آچکی ہے۔ لیکن اس روایت سے مجھ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور میری رائے کیا متاثر ہو سکتی ہے۔ میں نے جو رائے پاکستان کے متعلق قائم کی ہے، وہ بالکل خلوص پر مبنی ہے۔

’’جمعیت العلمائے اسلام‘‘ میں آزاد سبحانی رہیں یا نہ رہیں، جمعیت العلمائے اسلام خود قائم رہے نہ رہے، میری رائے جب بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے پاکستان مفید ہے۔ اگر میںتھوڑی دیر کے لیے اس روایت کو تسلیم بھی کر لوں کہ جمعیت العلمائے اسلام گورنمنٹ کے ایما سے قائم ہوئی ہے، تو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کانگریس کی ابتدا کس نے کی تھی اور کس طرح ہوئی تھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ ابتداً اس کا قیام ایک وائسرائے کے اشارہ پر ہوا (اور برسوں وہ گورنمنٹ کی وفاداری کے راگ الاپتی رہی ہے، مرتب) بہت سی چیزوں کی ابتدا غلط ہوتی ہے مگر انجام میں بسااوقات وہی چیز سنبھل جایا کرتی ہے۔ ہم نے مولانا آزاد سبحانی یا جمعیت العلمائے اسلام کی وجہ سے مسلم لیگ کی تائید نہیں بلکہ دیانتاً یہ رائے قائم کی ہے کہ مسلمانوں کا ایک مرکز اور ایک پلیٹ فارم ہونا چاہیے اور علمائے ملت کو اس کی پشت پناہی اور اصلاح میں جدوجہد کرنی چاہیے۔ عام دستور ہے کہ جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت یا تحریک کا مخالف ہو، تو اسی قسم کی باتیں اس کے حق میں مشتہر کی جاتی ہیں۔دیکھیے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ہمارے آپ کے مسلم بزرگ اور پیشوا تھے، ان کے متعلق لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ان کو چھ سو روپے ماہوار حکومت کی طرف سے دیے جاتے تھے۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ گو مولانا تھانوی ؒکو اس کا علم نہیں تھا کہ روپیہ حکومت دیتی ہے۔ مگر حکومت ایسے عنوان سے دیتی تھی کہ ان کو اس کا شبہ بھی نہ گزرتا تھا۔ اب اسی طرح اگر حکومت مجھے یا کسی شخص کو استعمال کرے مگر اس کو یہ علم نہ ہو کہ اسے استعمال کیا جارہا ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ شرعاً اس میں ماخوذ نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے اشارہ کر کے فرمایا کہ ان مولوی عتیق الرحمن سے آپ پوچھیے کہ معاملات دارالعلوم کے سلسلہ دیو بند کے بعض پارٹی باز اشخاص نے ان کے سامنے نہایت قطعی الفاظ میں کیا یہ نہیں کہا تھا کہ وائسرائے کے دفتر میں ہم اپنی آنکھوں سے وہ چٹھی دیکھ کر آئے ہیں جس کے ذریعہ مولانا مدنی کو شبیر احمد عثمانی نے گرفتار کرایا ہے (فَلَعنَتْ اللّٰہِ عَلَی الکٰذِبِینَ) لیکن میں پوچھتا ہوں کیا اس میں ذرا بھی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ اس پر مولوی عتیق الرحمن نے آنکھیں نیچی کر لیں اور خاموش ہو رہے۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ حضرات کے متعلق بھی عام طور پر مشہور کیا جاتا ہے کہ آپ ہندوئوں سے روپیہ لے کر کھا رہے ہیں۔ کیا یہ صحیح چیزیں ہیں؟ اب ہمیں ان سب قصوں سے بالکل علیحدہ رہ کر غور کرنا چاہیے کہ کون سا راستہ اختیار کرنے میں مسلمانوں کا فائدہ ہے اور کس راستے میںان کا نقصان (قطع نظر اس سے کہ وہ بات انگریز کے ایجنٹ کی زبان سے نکلے یا کوئی ہندو کادلال کہے۔ مرتب)

لہٰذا اب میں مزید گفتگو سے پہلے تین چیزیں دریافت کرنا چاہتا ہوں؟

گفتگو کا محور

پہلی چیز دریافت طلب یہ ہے کہ جو فارمولا جمعیت العلمائے ہند نے پاکستان کا نعم البدل ظاہر کر کے ملک کے سامنے پیش کیا اور جس کا حوالہ مولانا حفظ الرحمن نے اپنی تقریر میں بھی دیا ہے، اس فارمولے کو آپ حضرات نے کم از کم کانگریس سے منوا لیا ہے یا نہیں؟

مولانا حفظ الرحمن نے اس کا جواب نفی میں دیتے ہوئے کچھ اعذار بیان کیے۔ علامہ عثمانی کو چونکہ ان اعذار سے کچھ بحث نہیں تھی، اس لیے فرمایا کہ اعذار کچھ بھی ہوں، میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کا فارمولا کانگریس نے تسلیم کر لیا ہے یا نہیں۔ مولانا حفظ الرحمن نے فرمایا کہ ہمارا یہ اصول نہیں ہے کہ ہم جنگ آزادی کی شرط کے طور پر ہندوئوں سے کوئی چیز منوا لیں۔

دوسری بات یہ کرنی ہے کہ آپ جو کچھ گفتگو اس وقت مجھ سے فرمانا چاہتے ہیں، وہ کس تقدیر پر ہے۔ آیا یہ فرض کرتے ہوئے کہ انگریز حکومت ہندوستان سے چلی گئی ہے یا جارہی ہے۔ یا یہ مان کر ابھی وہ موجود ہے اور سردست جا نہیں رہی۔ گویا جو کچھ لینا ہے، اسی سے لینا ہے۔

مولانا حفظ الرحمن نے فرمایا کہ یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ انگریز حکومت ابھی ہندوستان میں موجود ہے۔ اس کی موجودگی تسلیم کرتے ہوئے جو کچھ لینا ہے، اسی سے لینا ہو گا۔

تیسری بات دریافت طلب یہ ہے کہ آپ حضرات جو انقلاب اس وقت چاہتے ہیں، وہ فوجی انقلاب ہے یا آئینی؟ اس کا جواب دیا گیا کہ فوجی انقلاب کا تو اس وقت کوئی موقع ہی نہیں، نہ فی الحال اس کا امکان ہے، نہ اس کے وسائل مہیا ہیں۔ اس وقت تو آئینی انقلاب ہی زیر بحث ہے۔

علامہ عثمانی نے فرمایا کہ بس اب بحث کا رخ متعین ہو گیا۔ اب کلام اس پر رہے گا کہ سردست انگریزی حکومت کی موجودگی کے باوجود آئینی انقلاب میں کون سا راستہ مسلمانوں کے لیے مفید ہے۔ آیا وہ راستہ جو جمعیت العلمائے ہند نے تجویز کیا ہے یا پاکستان کا راستہ جو مسلم لیگ اختیار کر رہی ہے۔

پاکستان کے نقصانات کا اظہار

مولانا حفظ الرحمن نے اپنی طویل تقریر میں فرمایا کہ پاکستان قائم ہونے میں مسلمانوں کا سراسر نقصان اور ہندوئوں کا فائدہ ہے۔ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت ۵۳ فیصد ہے، فلاں صوبے میں اس قدر، فلاں میں اتنی اور آسام میں اکثریت دوسروں کی ہے۔ ہر جگہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں غیر مسلم اقلیت اتنی زبردست ہے کہ مسلمان اس سے کسی طرح بھی عہدہ برآنہ ہو سکیں گے اور بہت ہی تھوڑی اکثریت کچھ نہ کر سکے گی۔ بلکہ ہمیشہ معرض خطر میں رہے گی۔ ادھر مسٹر جناح یہ کہہ ہی چکے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری طرز کی حکومت ہو گی۔ ایسی مشکل میں ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان سے کوئی بھی فائدہ نہ ہو گا۔ بلکہ تنظیم، دولت اور تعلیم میں پست ہونے کی وجہ سے ۵۳فی صد مسلمانوں کی اکثریت ۴۷فی صد غیر اقلیت ہی کے عملاً تابع و محکوم رہے گی۔ سکھ نہایت جنگجو قوم ہے، وہ کسی طرح بھی پاکستان قائم نہ رہنے دے گی۔ ادھر جاٹوں کی قوم ہے، وہ بھی مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دے گی۔

اس موقع پر علامہ عثمانی نے پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک پاکستان کا مطالبہ کرنے والے صوبہ وار چھے پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یا تمام مسلم اکثریت والے صوبوں کا ایک پاکستان مطلوب ہے؟ جواب دیا گیا کہ نہیں پاکستان تو ایک ہی بنانا چاہتے ہیں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا تب صوبہ جاتی اعداد کی گفتگو اس موقع پر بے کار ہے۔ مولانا عثمانی نے فرمایا کہ اس وقت ہم کو پاکستان کی مرکزی حکومت میں یہ دیکھنا چاہیے کہ مسلم اور غیر مسلم آبادی میں کیا تناسب ہے۔ مولانا حفظ الرحمن کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان میں مجموعی تعداد مسلمانوں کی چھ کروڑ ہو گی اور غیر مسلم تین کروڑ ہوں گے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ تعداد غلط ہے۔ مجموعہ میں مسلمان تقریباً سوا سات کروڑ ہیں۔ لیکن ہم سات کروڑ تسلیم کیے لیتے ہیں اور غیر مسلم جو تین کروڑ سے کم ہیں، ان کو پورے تین کروڑ کر لیا جائے۔ اس تعداد سے سات اور تین کی نسبت مسلم و غیر مسلم کے درمیان ہو گی اور مجموعی آبادی میں آپ کے فرمانے کے مطابق ساٹھ اور چالیس کی نسبت ہو گی یعنی مسلمان ساٹھ فی صد اور غیر مسلم چالیس فی صد ہوں گے۔ (حالانکہ اس صورت میں مجموعہ مسلمان ستر فی صد اور غیر مسلم تیس فیصد ہوتے ہیں)

حضرت علامہ کا مسکت اور حقیقت افروزجواب

مگر علامہ عثمانی نے اس وقت بھی اغماض کر کے اور ان کے ہی بیان کردہ تناسب کو صحیح بیان کردہ تناسب کو صحیح مان کر اس پر کلام فرمایا، آپ نے کہا کہ اب آپ اپنے فارمولا پر نظر ڈالیے کہ اس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کا مرکزی حکومت میں کیا تناسب رہتا ہے؟ تو آپ کے فارمولے کی رو سے مرکز میں چالیس مسلمان ہوں گے اور چالیس ہندو اور بیس فی صد میں دیگر اقلیتیں ہوں گی۔ اس طرح سے آپ کے فارمولا کے لحاظ سے غیر مسلموں کی تعداد ساٹھ فیصد اور مسلمانوں کی تعداد چالیس فی صد ہوئی اور مسلم لیگ کے پاکستانی فارمولا میں (بقول آپ کے یہی نسبت علی العکس ہوگی) یعنی ساٹھ فی صدمسلمان اور چالیس فیصد غیر مسلم ہوں گے۔ حالانکہ حقیقی تناسب پاکستانی فارمولا میں ستر فیصد کا ہوتا ہے۔ اب آپ ہی انصاف فرمائیے کہ آپ کے اس فارمولا سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ (ہم اگر ساٹھ فیصد رہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے، تو چالیس فی صد میں کیا کر سکیں گے۔)

نوٹ: جمعیت العلماء کے فارمولا میں بھی مندرج ہے کہ خالص اسلامی مسائل میں دو تہائی مسلمان اگر کسی چیز کے مخالف ہوں گے، تو وہ چیز مسلمانوں کے لیے قبول نہیں کی جائے گی۔ اس شرط سے کسی درجہ میں مضر امور کا تدارک ہو سکتا ہے۔ لیکن باقی مسلمانوں کے حق میں جو ضروری یا مفید امور ہوں ان کے خاطر خواہ حاصل ہونے کی کوئی تدبیر نہیں کیوں کہ مرکز میں مسلم تعداد چالیس اور غیر مسلم تعداد ساٹھ فیصد ہو گی۔ ایسی تمام تجاویز غیر مسلم اکثریت کے رحم و کرم پر رہیں گی اور یہ معاملہ بھی کہ خالص اسلامی مسئلہ کون سا ہے۔ (اکثریت ہی فیصلہ کرے گی)

(۔۔۔ جاری ہے!)

]’’اردوڈائجسٹ‘‘ اور جناب رضی الدین سید کے شکریہ کے ساتھ[

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*