پاکستان کی حمایت کیوں؟ | گزشتہ سے پیوستہ

پاکستان ہندوئوں کے مفاد میں ہے، تو وہ اس کے مخالف کیوں ہیں؟

اس موقع پر کہا گیا کہ عیسائی ہمارے ساتھ ہوجائیں گے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ عجیب بات ہے کہ جب پاکستان کا فارمولا سامنے آتا ہے، تو عیسائی مسلمانوں سے علیحدہ، غیر مسلم بلاک میں شمار کیے جاتے ہیں اور جب جمعیت العلمائے ہند کا (مقدس) فارمولا پیش کیا جاتا ہے، تو وہی عیسائی گویا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کی طرف شمار کیے جاتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ غیر مسلم سب کے سب، بہرصورت ایک ہی شمار ہوں گے۔ (الکفر ملتہ واحدۃ) اور صرف مسلمانوں کو ان سب کے مقابل رکھ کر مسئلہ پر غور کرنا چاہیے۔ جمعیت العلمائے ہند کے وفد نے آخر کار اس کو تسلیم کر لیا۔

اس سوال پر کہ اگر پاکستان ہندو کے لیے مفید ہے، تو وہ اس کی مخالفت کے لیے اس قدر مضطرب کیوں ہے؟ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ کا یہ دعویٰ کہ ’’پاکستان قائم ہونے میں سراسر مسلمانوں کا نقصان اور ہندوئوں کا فائدہ ہے‘‘۔ اگر تسلیم کر لیا جائے، تو کیا آپ باور کر سکتے ہیں کہ ہندو پاکستان کی مخالفت محض اس لیے کر رہا ہے کہ اس میں مسلمانوں کا نقصان ہے اور وہ کسی طرح بھی مسلمانوں کا نقصان دیکھنے کو تیار نہیں۔ ان کا تو اعلان یہ ہے کہ جو جماعت یا جو شخص بھی پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف کھڑا ہو گا، کانگریس اس کی ہر طرح امداد کرے گی۔ (اس وعدہ کا تعلق کسی شخصِ خاص سے نہیں، کانگریس کے پورے ادارے سے ہے) اور ان کا قول ہے کہ پاکستان ہماری لاشوں پر ہی بن سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آخر یہ پرزور اور انتہائی مخالفت کیوں ہے؟ اس کے جواب میں مولانا حفظ الرحمن نے صرف یہ فرمایا کہ ان کی کوئی مصلحت ہو گی۔ لیکن اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا گیا اور بار بار اس پہلو سے گریز کیا جاتا رہا۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اُن کی جو کچھ بھی مصلحت ہو، آخر آپ حضرات نے بھی کچھ غور کیا کہ وہ مصلحت کیاہو سکتی ہے؟ میرے نزدیک تو اس کی مخالفت کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ انگریز کی حکومت تو سردست اوپر قائم ہے، جسے آپ خود شروع میں تسلیم کر چکے ہیں۔ ہندو یہ چاہتا ہے کہ انگریزی حکومت کے زیرسایہ دس کروڑ مسلمانوں میں سے ایک شخص کی گردن پر سے بھی ہندو اکثریت کا جوا کبھی اور کہیں اترنے نہ پائے۔ اس طرح مسلمان ہمیشہ انگریز اور ہندو کی دُہری غلامی میں بااختیار خود پستے رہیں۔ علامہ عثمانی نے کئی بار ان لوگوں سے پوچھا، مگر ادھر سے کوئی شافی جواب ہاتھ نہ آیا۔ اس کے بعد جمعیت العلمائے ہند کے وفد کی طرف سے کہا گیا کہ اچھا اگر پاکستان بن جائے، تو تین کروڑ کی جو مسلم اقلیت ہندو صوبوں میں رہے گی، اُس کی حفاظت کا کیا انتظام ہوگا؟ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ ان کے لیے معاہدات کے ماتحت، مسلم اقلیت اُن کے ہاں اور ہندو اقلیت ہمارے یہاں رہے گی اور ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کے تلے دبا رہے گا۔ آخر اکھنڈ ہندوستان میں دس کروڑ مسلمانوں کی حفاظت کس طرح ہو گی؟ اس کے بعد مولانا حفظ الرحمن اور مولانا احمد سعید نے موضوعِ گفتگو بدل کر کہا:

’’اجی حضرت، یہ علی گڑھ کے نیچری، علما کے وقار کے دشمن ہیں۔ یہ لوگ اگر مسلمانوں کے راہنما بن گئے، تو دین کو برباد کر دیں گے، علما کو مٹا دیں گے‘‘۔ اسی سلسلہ میں اِن بدتمیزیوں کا بھی ذکر کیا گیا جو بعض مقامات پر مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ کی گئی تھیں۔ اس سلسلہ میں یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ راجائوں، نوابوں اور خطاب یافتہ لوگوں کی جماعت ہے۔ سرفیروز خان نون کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ حکومت کے اشارے سے مستعفی ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوئے ہیں، اور وہ کھلے طور پر سرکاری آدمی ہیں۔‘‘

علامہ عثمانی نے فرمایا کہ سر فیروز خان نون کے متعلق میں بحث نہیں کرتا، آپ جو چاہیں کہیں۔ لیکن مسٹر جناح کے متعلق کبھی میرا یہ گمان نہیں ہو سکتا کہ وہ سرکاری آدمی ہیں یا وہ کسی دبائو یا لالچ میں آسکتے یا کسی قیمت پر خریدے جا سکتے ہیں۔

مولانا سعید احمد کے یہ کہنے پر کہ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ اور بعض دوسرے فرقے علما کا اقتدار مٹانا اور دین کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، علامہ عثمانی نے ارشاد فرمایا کہ یہ جو مشکلات ہوئیں ان کا حل آپ کے ذہن میں کیا ہے؟ کچھ آپ بھی تو فرمائیے! اس پرسب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور کچھ دیر خاموشی سی طاری ہو گئی۔ پھر وفد کی طرف سے کہا گیا کہ حضرت آپ ہی فرمائیں کیا حل ہے؟ حضرت علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ خوب رہی، مشکلات تو بیان فرمائیں آپ، اور حل بتائوں میں؟ آخر آپ نے بھی تو کچھ اس کا حل سوچا ہوگا؟

علامہ شبیر احمد عثمانی نے فرمایا کہ اچھا لیجیے میں ہی اس کا حل عرض کرتا ہوں۔ میرے نزدیک اس کا حل صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آپ سب حضرات مل کر مسلم لیگ میں شامل ہو کر اس پر قبضہ کریں۔ ایک دو مہینے دورہ کر کے مسلم لیگ میں تین چار لاکھ نئے ممبر بھرتی کرائیں۔ جب ہمارے ہم خیال ممبران کی اتنی بھاری تعدادمسلم لیگ میں شامل ہو جائے گی، تو پھر ہم عوام کے ذریعے، جو مفید صورت مسلمانوں کے لیے ہو گی باآسانی بروئے کار لا سکیں گے۔ کیا ہمارا اثر عوام پر اتنا بھی نہیں کہ ہم دو چار لاکھ ممبران بھرتی کرا سکیں؟ میں اِس کے لیے تیار ہوں کہ آپ حضرات کے ساتھ مل کر اس کام میں حصہ لوں۔ میرے نزدیک تواصلاح کی یہی بہترین شکل ہے۔ اس پر مولانا احمد سعید نے فرما یا کہ یہ تو صحیح ہے، لیکن جب ہم لوگ ایسا کریں گے، تو یہ راجے، مہاراجے، نواب اور سر، مسلم لیگ سے علیحدہ ہوکر دوسری جماعت بنا لیں گے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اگر وہ نئی مسلم لیگ بنا لیں گے، تواس سے کیا ہو گا، عوام کی طاقت تو ہمارے ہی ساتھ رہے گی۔ سر شفیع مرحوم نے بھی تو ایک زمانے میں شفیع لیگ بنائی تھی، لیکن اس کا حشر کیا ہوا۔ جب شفیع صاحب رحلت کر گئے،توان کے ساتھ ہی ان کی لیگ بھی ختم ہو گئی اور رابطہ عوام وہ کبھی پیدا نہ کر سکے۔

رہا اُن بدتمیزیوں کا قصہ، جو آپ کے ساتھ ہوئیں، اُن کے متعلق آپ کو معلوم ہے کہ میں نے جو پیغام جمعیت العلمائے اسلام کے اجلاسِ کلکتہ کے موقع پر بھیجا تھا اس میں صاف طور پر لکھ دیا تھا کہ یہ پرلے درجے کی شقاوت و حماقت ہے کہ قائد اعظم کو کافر اعظم کہا جائے، یا مولانا حسین احمد وغیرہ کے ساتھ کوئی ناشائستہ سلوک کیا جائے۔

اس موقع پر مجھے ایک بات کہنی پڑتی ہے کہ جن انگریزی خواں طلبہ کے رویہ کی آپ شکایت فرما رہے ہیں، وہ نہ تو آپ کے مرید ہیں نہ شاگرد۔ نہ انھوں نے کسی دینی ماحول میں تربیت پائی ہے۔ (اور سمجھتے یہ ہیں کہ آپ مسلم قوم کو ہندوئوں کی دائمی غلامی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں)۔ اس کے بالمقابل جو عربی مدارس کے طلبہ آپ کے شاگرد، آپ کے مرید اور دینی ماحول بلکہ مرکزِ دین و اخلاق میں تربیت پانے والے ہیں، ذرا ادھر بھی تو دیکھیے کہ انھوں نے اس کا بھی کوئی تدارک کیا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت دارالعلوم کے تمام مدرسین، مہتمم اور مفتی سمیت (باستثنا ایک دو کے) بالواسطہ یا بلا واسطہ مجھ سے نسبتِ تلمذ رکھتے تھے۔ دارالعلوم کے طلبہ نے میرے قتل تک کے حلف اٹھائے اور وہ، وہ فحش اور گندے مضامین میرے دروازے میں پھینکے کہ اگر ہماری ماں بہنوں کی نظر پڑ جاتی، توہماری آنکھیں شرم سے جھک جاتیں۔ کیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ملامت کا کوئی جملہ کہا۔ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے لوگ ان غیرشائستہ حرکات پر خوش ہوتے تھے۔ ’’حریت‘‘ اخبار دہلی، آج کل میری ذاتیات پر نہایت رکیک مضامین لکھ رہا ہے۔ کیا آپ حضرات میں سے کسی نے اس پر بیزاری کا اظہار کیا؟ اس پر سب کی آنکھیں شرم سے جھکی ہوئی تھیں۔ مولانا سعید نے اتنا فرمایا کہ اجی حضرت، عزیز حسن بقائی تو ہمیشہ اسی قسم کی بے ہودہ بکواس کیا کرتا ہے، کیا آپ کو معلوم نہیں؟ علامہ عثمانی نے فرمایا اس وقت تو وہ آپ کی حمایت اور ہمنوائی میں سب کچھ کہہ رہا ہے۔ گو مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک زمانہ میں اس نے آپ صاحبان کو بھی بری طرح مجروح کیا تھا۔ لیکن دکھلانا صرف یہ ہے کہ آپ حضرات نے کبھی اس قسم کی چیزوں سے جو ہمارے متعلق کہی گئیں، اظہار بیزاری نہیں کیا، نہ کسی پر ملامت کی۔ جبکہ ہم نے یہ کیا کہ موقع ملنے پر ایسے امور سے پوری قوت کے ساتھ اظہار بیزاری کرتے رہے۔

محلہ کسرول مراد آباد کے ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا حسین احمد اور مفتی کفایت اللہ آپ کے نزدیک محض ذاتی مفاد کے لیے ہندوئوں کا ساتھ دے رہے ہیں یا ان کا اجتماع بے دینی اور کفر ہے، یا وہ اپنے استاد کے مسلک سے ہٹ گئے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میرے حاشیہ خیال ہی میں یہ نہیں آسکتا کہ یہ حضرات کسی ذاتی مفاد کے لیے ایسا کریں گے۔ وہ اپنے نزدیک جو حق سمجھتے ہیں، کر رہے ہیں اور اسی کو اپنے استاد کا مسلک سمجھتے ہیں۔ باقی یہ لازم نہیں کہ جو ان کا خیال ہے وہ واقعی صحیح ہو۔ نہ ان کی تقلید دوسروں پر واجب ہے۔ امورِ مذکورہ کاتذکرہ میں نے اس لیے نہیں کیا کہ مجھے کوئی انتقام لینا مقصود ہے۔ میں بہر طور ایسے امور کو بْرا سمجھتا ہوں۔ دکھلانا صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنی بساط کے موافق اس قسم کے امور کو روکنے کی ہمیشہ سعی کی۔

مولانا مدنی کا ایک استدلال اور اس کا مسکت جواب

آخرِ گفتگو میں مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی جیب سے دو تین کالم کا ایک مضمون نکال کر تقریباً دس منٹ تک پڑھ کر سنایا۔ یہ مضمون ایک انگریز کی تجویز اور رائے پر مشتمل تھا، جس میں اس نے ہندوستان کی سیاسیات پر بحث کرتے ہوئے حکومتِ برطانیہ کو اس کا ایک حل بتلایا تھا۔اس مضمون میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور بمبئی کے بجائے کراچی کو تجارت کا مرکز بنایا جائے۔ گویا اس مضمون کو سنانے کی غرض یہ تھی کہ مسلم لیگ نے جو نظریہ پاکستان پیش کیا ہے، وہ اس انگریز کی تجویز پر مبنی ہے اور مسلم لیگ انگریزوں کے اشاروں پر چلنے والی جماعت ہے۔

مولانا احمد سعید نے سوال کیا کہ انگریز کی پالیسی ٹکڑے کرنے کی ہے یا جمع کرنے کی، یعنی اس کا فائدہ کس جانب میں ہے؟ مطلب یہ تھا کہ ہم جو وفاقی حکومت چاہتے ہیں، انگریز کے لیے مہلک ہے اور آپ جو تقسیمِ ہند چاہتے ہیں، یہ صورت حکومت کے لیے مفید و معین ہے۔ علامہ عثمانی نے ارشاد فرمایا کہ میرے نزدیک آپ کے سوال کا جواب ہاں نہیں میں نہیں ہو سکتا۔ یعنی آپ کے سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انگریز کا فائدہ ہمیشہ ٹکڑے کرنے میں ہے یا نہیں۔ میرا جواب یہ ہے کہ کبھی انگریز کا فائدہ ٹکڑے کرنے میں اور کبھی جمع کرنے میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کی ایک حالیہ نظیر ملاحظہ فرمائیے۔

برطانیہ نے ترکی اور عرب کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ عراق، شام، لبنان، نجد، یمن سب کو علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک وقت میں پالیسی یہ تھی۔ اب جو عرب لیگ قائم ہو رہی ہے، جس میں تمام عربوں کو روس کے خطرہ سے انگریز متحد کرنا اور ان سب کا ایک بلاک بنانا چاہتا ہے۔ کیا یہ بھی آپ کے نزدیک انگریز کے اشارے سے نہیں ہو رہا، جس کا منشا یہ ہے کہ تمام عرب ممالک کی ایک آہنی دیوار بنا دی جائے۔ اس کو وفد نے تسلیم کیا کہ بیشک ایسا ہی ہے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ پھر یہ کہنا صحیح نہیں کہ انگریز کی پالیسی ہمیشہ ٹکڑے کرنا ہے۔ معلوم ہوا کہ کبھی اس کی پالیسی جمع کرنے کی بھی ہوتی ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارا فائدہ کس صورت میں ہے، خواہ اس میں حکومت کا فائدہ ہو یا نقصان۔ ظاہر ہے کہ ہندو یا مسلمان کسی کے مقابلے میں بھی حکومت اپنے مفاد کو بااِختیار خود نظرانداز نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے فرمایا کہ مولانا حسین احمد نے جو ایک انگریز کا مضمون پڑھ کر سنایا، یہ ایک انگریز کی شخصی رائے اور تجویز ہے۔ جوآج سے چودہ برس پہلے اسے پیش کی گئی تھی۔ لیکن حکومت برطانیہ کا سب سے بڑا نمایندہ وائسرائے ہند، لارڈ ویول جو ہندوستان پر اس وقت حکمران ہے، اس نے اپنی تقریروں میں برملا یہ کہا ہے کہ اس ملک کا مرکز اور اس کی حکومت ایک ہی رہنی چاہیے۔ اس ملک پر کوئی بڑا عملِ جراحی نہیں ہو سکتا۔ پہلی مرتبہ یہ تقریر کلکتہ کے کامرس چیمبر میں کی۔ دوسری مرتبہ لیمپس لیچر میں یہی مضمون ادا کیا، اور ابھی دو تین ماہ ہوئے کہ راولپنڈی کے دربار میں لارڈویول نے یہی کہا کہ اس ملک کی تقسیم نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے سابق وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے بھی ۱۹۴۲ء میں اسی قسم کی تقریر کی تھی۔ اب آپ حضرات غور فرمائیں کہ آج وائسرائے ہند کے نظریے کی حمایت کانگریس کر رہی ہے یا مسلم لیگ۔

مولانا احمد سعید نے فرمایا کہ اجی حضرت، یہ تو انگریزوں کی چالیں ہیں۔ کہتے تو کچھ ہیں، کرتے کچھ اور ہیں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اس انگریز کی تجویز میں بھی تو یہی احتمال ہو سکتا ہے۔ لیکن حجت کے درجہ میں تو سب سے بڑے ذمہ دار ہی کا قول ہم پیش کر سکتے ہیں۔

اس سلسلہ میں مولانا حسین احمد مدنی نے فرمایا کہ اچھا، اگر پاکستان قائم ہو گیا، تو ہندوستان کا دفاع کیسے ہو سکے گا؟ روس نے اگر حملہ کر دیا، تو سرحد کے مسلمان بے چارے پس جائیں گے۔ سارا بوجھ ان پر پڑ جائے گا۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ تو آپ مان چکے ہیں کہ انگریز ابھی یہاں موجود ہے۔ سرِدست اگر پاکستان بنائے گا، تو وہی بنائے گا۔ سرحدوں کی حفاظت کی بھی کوئی صورت ضرور نکالے گا اور اس کے چلے جانے کی صورت میں بیرونی قوت ہندوستان پر چڑھائی کرے گی، تو دونوں طبقے مل کر اس کی حفاظت کریں گے اور ہر ایک دوسرے کی آدمی، سامان، اسلحہ اور روپے سے مدد کرے گا، کیوں کہ یہ سب کا مشترکہ مفاد ہو گا۔ ایسا نہیں کریں گے، تو سب کا نقصان ہو گا۔ اس قسم کے دفاع کے کام، باہمی معاہدوں سے انجام پائیں گے۔ مولانا احمد سعید نے فرمایا کہ حضرت معاہدوں کو آج کل کون پوچھتا ہے؟ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ جب بلا معاہدہ، آپ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، تومعاہدہ کی صورت، تو بہرحال اس سے قوی تر ہونی چاہیے۔

پھر آپ کی تقریر کا حاصل تو یہ ہوا کہ ہم کسی حالت میں اور کسی وقت بھی ہندوئوں کی احتیاج سے باہر نہیں ہو سکتے اور نہ ان کے بدون کبھی کوئی کام کر سکتے ہیں۔ (یہ بات کم از کم شیردل بہادروں کو زیب نہیں دیتی، جو کہتے ہیں ذرا انگریز سے آزادی مل جائے پھر ہم نہرو وغیرہ کسی سے نہیں ڈرتے۔)

نیز آپ دیکھتے ہیں کہ معاہدات ہی کی طاقت تھی کہ روس، امریکا اور برطانیہ نے مل کر جرمنی اور جاپان کو کس طرح پیس ڈالا۔ کیونکہ تینوں کی غرض مشترک تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کا مفاد جب مشترکہ ہو گا، تو دونوں بذریعہ معاہدات، عملی اتحاد کیوں نہیں کر سکتے۔ (گو قومی اتحاد نہ ہو نہ سہی)۔

اس موقع پر مفتی عتیق الرحمن نے علامہ عثمانی سے کہا کہ آپ تو ہمیشہ سیاسیات سے یکسو رہا کرتے تھے۔ اس الیکشن میں کیا داعیہ ایسا پیش آیا، جس کی وجہ سے آپ نے شرکت فرمائی؟

حضرت علامہ نے ارشاد فرمایا کہ اس انتخاب کی نوعیت، پچھلے انتخابات سے بالکل مختلف ہے۔ حکومت نے صاف لفظوں میں اس کا اعلان کر دیا ہے کہ اس مرتبہ منتخب ہونے والی اسمبلیاں ہی آیندہ ہندوستان کا مستقل دستور بنائیں گی۔ چونکہ اس الیکشن سے قوموں کی قسمتوں کا فیصلہ وابستہ تھا، اس بنا پر میں نے ضروری سمجھا کہ اس بنیادی موقع پر ان مسلمانوں کی مدد کی جائے جو استقلالِ ملت اور مسلم حقِ خودارادیت کے حامی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ آپ نے یہ کہا کہ میں سیاسیات سے ہمیشہ علیحدہ رہا ہوں۔ گزشتہ چند سالوں کو چھوڑ دیجیے، اس سے بیشتر جمعیت العلما ہند میں ہماری بھی تو کچھ ناچیز خدمات رہی ہیں۔ ہم نے بھی تو کچھ معرکے سر کیے ہیں اور آپ حضرات (مطالعۂ پاکستان کی مخالفت میں) طوفانی دورہ کر رہے تھے، جس سے میرے نزدیک مسلمانوں کا نقصان تھا۔ تو ظاہر تھا کہ ایسے موقع پر میں سکوت کیسے باقی رکھ سکتا تھا۔

اگر بینم کہ نابینا و چاہ ہست

اگر خاموش بہ نشینم گناہ است

(جب میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک نابینا کنویں کی طرف بڑھ رہا ہے، تو اس موقع پر خاموش بیٹھنا میرے لیے گناہ کا کام ہے۔)

ان وجوہ سے میں نے مسلم لیگ کی تائید و حمایت کی۔ (پھر یہ کہ علامہ عثمانی نے یکایک کوئی اعلان نہیں فرمایا۔ بلکہ مہینوں پاکستان کے نظریہ پر شرعی و سیاسی حیثیت سے انتہائی غور و تعمق کیا۔ جب کلکتہ کے اجلاس کل ہند جمعیت العلمائے اسلام میں اپنا پیغام بھیجا، تو استخارہ بھی فرمایا۔ مکمل شرحِ صدر کے بعد یہ اقدام فرمایا گیا۔ مرتبِ کتابچہ)۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے فرمایا کہ پھر میرا اثر ہی کیا ہے۔ ہندوستان میں اگر میری اپیل پر بیچارے نوابزادہ لیاقت علی خان کو دس بیس ووٹ مل ہی گئے،تو کیا اثر ہوا۔ آپ تو ماشاء اللہ بااثر ہیں۔ (موجودہ پروپیگنڈے کی طاقتیں آپ کے ساتھ ہیں)۔ میں تو اب آپ میں ایک اچھوت کی حیثیت رکھتا ہوں۔ کسی نے کہا، نہیں یہ بات نہیں آپ کے اعلانات نے ملک میں ہلچل مچا دی ہے۔

علامہ عثمانی سے سکوت کی درخواست

مولانا احمد سعید نے فرمایا کہ بہرحال یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ اس میں احتمالِ خطا دونوں طرف ہے۔ مگر آپ تو اس قوت سے بیان دے رہے ہیں کہ اپنے مخالفوں کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے۔ ذرا کچھ تو نرمی اختیار کریں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ سب حضرات ماشاء اللہ اہلِ علم ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب احناف و شوافع وغیرہ کے باہمی اختلافی مسائل کی تقریریں آپ اور ہم کرتے ہیں تو باوجودیہ کہ سب ائمہ ہدیٰ ہیں۔ لیکن ہم میں سے کون اپنے مذہب کی تصویب و تائید میں کسر اٹھا رکھتا ہے؟ وہ حنفی مذہب کو ترجیح دیتے ہوئے شافعی یا مالک یا احمد کے لیے اپنے زعم میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ہے۔ اس پر سب ہنسنے لگے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اس سلسلہ میں میرا تو وہی خیال ہے جو فقہا کرام نے مسئلہ کے عقیدے کی نسبت لکھا ہے کہ اپنا امام جو مسئلہ بیان کرے اس کی نسبت یہ رائے رکھے کہ صواب، واحتمل الخطا ہے۔ یعنی جو ہمارے امام نے مسئلہ بیان کیا وہ صحیح اور درست ہے۔ ہاں اس میں خطا کا بھی احتمال ہے۔ اور دوسرے امام نے جو کہا (خطا، و احتمل الصواب) ہے۔ یعنی وہ خطا ہے، گو اس میں احتمال صواب کا بھی قائم ہے۔

آخر میں مولوی حفظ الرحمن سیوہاروی نے فرمایا کہ جمعیت العلمائے اسلام محض ہماری جماعت کے مقابلے میں اس کو توڑنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ مناسب ہو گا کہ آپ کم از کم اس کی صدارت قبول نہ فرمائیں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ میں نے ابھی صدارت کے قبول و عدم قبول کی نسبت کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں کیا ہے، لیکن کل کے لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا کروں گا۔

(نوٹ: اس ملاقات کے بعد علامہ شبیر احمد عثمانی نے کُل ہند جمعیت العلمائے اسلام کے ناظم کے تار کے جواب میں صدارت پر باضابطہ رضامندی کا تار روانہ فرما دیا ہے۔ فلہ الحمد۔ مرتبِ کتابچہ)

جب یہ حضرات علامہ شبیر احمد عثمانی سے رخصت ہونے لگے تو مولانا احمد سعید نے دریافت فرمایا کہ حضور نظام نے حیدر آباد بھی تو بلایا تھا۔ آپ کب تشریف لے جائیں گے؟ علامہ عثمانی نے فرمایا، میں نے حضور نظام کو لکھا ہے کہ ابھی تو تین ماہ تک مجھے یہاں بغرضِ علاج قیام کرنا ہے۔ سردی کم ہونے پر اگر اجازت ہو تو حیدر آباد آئوں۔ اب حضور نظام پر موقوف ہے کہ اگر اس کے باوجود انھوں نے مجھے طلب فرمایا، تو مجھ کو بہرحال جانا پڑے گا اور اگر اجازت دے دی تو ٹھہر جائوں گا۔

(الحمدللہ اس تحریر کے مرتب کرتے وقت ہی حضور نظام کے چیف سیکرٹری کا تار بنام علامہ عثمانی پہنچ گیا کہ آپ کو قیام کی اجازت ہے۔ مرتب)

چلتے چلتے وفد کا منشا یہ معلوم ہوتا تھا کہ جو تحریرات آپ کی شائع ہو چکی ہیں، وہ بیان مسئلہ کے لیے کافی ہیں۔ اب اگر خاموشی اختیار کی جائے، تو کیا بہتر نہ ہو گا؟ لیکن علامہ عثمانی نے فرمایا کہ جس چیز کو میں حق سمجھتا ہوں، ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں میرے لیے سکوت کیسے مناسب ہے؟

اس کے بعد وفد رخصت ہو گیا۔یہ تمام گفتگو خوشگوار فضا میں ہوئی۔ کسی موقع پر بھی الحمد للہ ادنیٰ سی تلخی پیدا نہ ہوئی۔ جب یہ تاریخی مجلس برخاست ہونے لگی، تو علامہ عثمانی نے اپنے یہاں آنے والے علما کے احترام میں اِتنا فرمایا کہ یہ سلسلہ گفتگو آخری نہیں ہے۔ آپ جب چاہیں دوبارہ بھی گفتگو کرسکتے ہیں۔ جانبین کو موقع غور و فکر کا حاصل ہے۔ ا ب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ قائم ہیں اور میں اپنی جگہ پر رہا۔ اِس کے بعد مجلس برخاست ہوگئی۔ شرعی حیثیت سے مسائلِ حاضرہ پر جمعیت العلمائے ہند کے وفد کی طرف سے کوئی کلام نہیں ہوا۔

(غالباً یہ حضرات یہ سمجھ کر آئے تھے کہ علامہ عثمانی کی سیاسی معلومات کم ہوں گی، تو ہم اپنے بیان کردہ واقعات سے علامہ موصوف کی رائے کو متاثر کر دیں گے۔ شرعی حیثیت سے گفتگو تو مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی سے پہلے کر چکے تھے کہ اس پر ہم آپ سے کیا بحث کرتے۔ لیکن اس مکالمہ سے غالباً ان پر یہ حقیقت بھی روشن ہوگئی کہ علامہ عثمانیؒ کی معلوماتِ شرعیہ جہاں بے پناہ ہیں، وہاں سیاسی مذاق بھی کچھ اِس سے کم نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ علامہ عثمانی نے مسئلہ پاکستان کو اپنی گفتگو میں اس طرح سے مْنقح کیا کہ جو لوگ سیاسی ہیں جب اس مکالمہ کو سنتے ہیں۔ تو وہ خود بھی تنقیحِ مسئلہ کے انداز پر عش عش کرتے ہیں)

ضروری گزارش

جو مکالمہ اوپر درج ہوا اس پر گفتگو کے سب اجزا آگئے۔ کوئی ایک آدھا جز چھوٹ گیا ہو، تو جدا بات ہے۔ ترتیبِ کلام میں تقدیم و تاخیر بھی ممکن ہے۔ کیونکہ جس وقت مکالمہ ہو رہا تھا، بروقت منضبط نہیں ہوا۔ لیکن گفتگو کا ملخص اور ضروری لب لباب جہاں تک ممکن تھا، لے لیا گیا۔ علامہ عثمانی نے جس طرح گفتگو نقل فرمائی اسی طرح قلمبند کر لی گئی اور مزید احتیاط یہ کی گئی کہ مسودہ صاف کر کے حضرت علامہ کو دکھلا لیا گیا۔ حضرت علامہ نے کہیں کہیں اس میں ترمیم و اصلاح بھی فرمائی۔ لہٰذا یہ مکالمہ اب حضرت علامہ کا مصدقہ مکالمہ ہے۔ جو بغرض افادۂ عوام شائع کیا جا رہا ہے۔ اس مکالمہ سے اہلِ بصیرت اور مہذب دنیا کو یہ واضح ہو گا کہ اختلافات میں حزم و احتیاط اور عدل و توازن سے کیا لطافت پیدا ہوتی ہے اور کس طرح مسئلہ کے تمام پہلو سامنے آسکتے ہیں۔ اور بے اعتدالیوں یا بدتہذیبیوں سے اختلاف کس طرح خلاف اور شقاق کی نوعیت اختیار کر لیتے ہیں اور یہ کہ ہر دو جماعتوں کا رخ کیا ہے۔ کون اصول کو مقدم کرنا چاہتی ہے اور کون ذاتیات پر اتری ہوئی ہے؟

بحوالہ: ’’مکالمۃ الصدرین‘‘۔ شائع کردہ: مولانا طاہر احمد قاسمی، رکن کُل ہند جمعیت العلمائے اسلام، دیوبند، بھارت۔ ۱۹۴۵ء۔۔۔۔۔

(بشکریہ: ’’ایک تاریخی مکالمہ‘‘۔ ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘۔ نومبر ۲۰۱۳ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*