متحدہ عرب امارات کی حکومت لیبیا کے ایک ایسے فوجی راہنما کو مالی امداد فراہم کر رہی ہے، جو لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات معاملات کو سلجھانے سے متعلق امریکا کی کال کے باوجود قطر کی اقتصادی ناکہ بندی کرنے والی اقوام کے اتحاد کی رہنمائی میں بھی معاونت کرتا رہا ہے۔ رواں سال رائٹرز کے تحت کی جانے والی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ایک ایسے پروگرام کے لیے جس میں امریکی بھی نگرانی کے اہداف میں شامل تھے، امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے سابق اسٹافرز کی خدمات ایلیٹ ہیکرز کی حیثیت سے حاصل کیں۔ سی آئی اے کے تین سابق افسران نے رائٹرز کو بتایا کہ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود امریکی خفیہ ادارہ متحدہ عرب امارات کی حکومت پر نظر نہیں رکھے ہوئے یعنی جاسوسی نہیں کر رہا۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ امریکی انٹیلی جنس میں ایک خطرناک بلائنڈ اسپاٹ ہے۔
سی آئی اے کا یہ انداز نیا نہیں۔ ذرائع اور خارجہ پالیسی کے ماہرین کی رائے کے مطابق جسے تبدیلی کہا جاسکتا ہے وہ ہے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ایک چھوٹے مگر اہم رکن کی مشرق وسطیٰ اور افریقا کے امور میں غیر معمولی مداخلت، جنگ کی آگ کو ہوا دینا، خفیہ آپریشنز میں کلیدی کردار ادا کرنا اور علاقائی سیاست کو ایسا روپ دینے کے لیے مالی امداد بھی فراہم کرنا جس کے نتیجے میں امریکی مفادات کے خلاف بھی جایا جاسکتا ہے۔ سی آئی اے کے ایک سابق افسر کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی تیزی سے پروان چڑھتی ہوئی عسکری اور سیاسی امنگوں کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنے میں سی آئی اے کی ناکامی فرائض کی بجا آوری میں شرمناک غفلت قرار دی جاسکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے متحدہ عرب امارات کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے۔ معاملات سے باخبر دو ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک اور برانچ دی نیشنل سیکورٹی ایجنسی متحدہ عرب امارات کے اندر الیکٹرانک سرویلنس کرتی ہے، جو معلومات حاصل کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جس میں خطرات بھی کم ہیں اور ثمرات بھی۔ اور یہ کہ سی آئی اے متحدہ عرب امارات انٹیلی جنس سے مل کر ایران اور القاعدہ جیسے مشترکہ دشمنوں کے خلاف کام کرتی ہے۔ سی آئی اے کے سابق افسران نے بتایا کہ سی آئی اے امارات میں اپنے مخبروں سے متحدہ عرب امارات کی سخت گیر اور مطلق العنان حکومت کے بارے میں ’’ہیومن انٹیلی جنس‘‘ حاصل نہیں کرتی، جو معلومات کی سب سے مشکل سے حاصل ہونے والی اور سب سے قابلِ قدر قسم ہے۔ سی آئی اے، دی نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور امریکی ایوان صدر نے متحدہ عرب امارات میں جاسوسی سے متعلق سرگرمیوں کے بارے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ اور امریکا میں اس کے سفارت خانے نے بھی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
سی آئی اے کے ایک سابق افسر کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کی یہ غیر معمولی روش، جس کا میڈیا میں پہلے ذکر نہیں ہوا، متحدہ عرب امارات کو ایسے ممالک کی ایک مختصر فہرست کا حصہ بناتی ہے جس میں آسٹریلیا، نیو زی لینڈ، برطانیہ اور کینیڈابھی شامل ہیں۔
سی آئی اے کے جاسوس ایسے تمام ممالک کے حوالے سے ہیومن انٹیلی جنس جمع کرتے ہیں، جہاں امریکا کے اہم مفادات ہوں۔ ان میں بعض اتحادی بھی شامل ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے مقابلے میں قریب ترین مخالف نمونہ تیل بیچنے اور امریکی ہتھیار خریدنے والا سعودی عرب ہے، جو مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اہم اور خاصا بااثر اتحادی ہے۔ ایک خلیجی ریاست کے لیے خدمات انجام دینے والے سی آئی اے کے دو سابق افسران نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے برعکس سی آئی اے سعودی عرب کو اکثر نشانے پر لیتی ہے۔ سعودی انٹیلی جنس ایجنٹس نے سعودی افسران کو مخبر کی حیثیت سے بھرتی کرنے کی کوشش کرنے والے سی آئی اے کے کئی ایجنٹس کو پکڑا ہے۔
سعودی خفیہ ادارے جاسوسی سے متعلق سی آئی اے کی سرگرمیوں کی سرعام تو شکایت نہیں کرتے تاہم ریاض میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف سے ملتے ہیں تاکہ جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث سی آئی اے افسران کو خاموشی سے ملک چھوڑنے کا کہہ سکیں۔
سی آئی اے کے سابق ایجنٹ اور مصنف رابرٹ بیئر (Robert Baer) نے متحدہ عرب امارات پر ہیومن انٹیلی جنس کے فقدان کو ناکامی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی منصوبہ سازوں کو مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کے بارے میں اندرونی سیاست اور خاندانی جھگڑوں سے متعلق بہترین دستیاب معلومات درکار ہوتی ہیں۔ اگر امریکی خفیہ ادارہ خود کو عالمی سطح کی انٹیلی جنس سروس قرار دینے میں فخر محسوس کرتا ہے تو یہ اس کی بڑی ناکامی ہے۔ شاہی خاندان بہت اہم ہیں، انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
’’بدمعاش ریاست‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق افسر نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے حوالے سے انٹیلی جنس کا نہ ہونا خطرناک ہے کیونکہ یہ صحرائی بادشاہت اب لیبیا اور قطر جیسی اہم اسٹریٹجک ریاستوں کے حوالے سے ’’بدمعاش ریاست‘‘ کی حیثیت سے کام کرنے کے علاوہ افریقا میں بھی سرگرم ہے۔
متحدہ عرب امارات نے سوڈان میں ایک زمانے تک ’’طویل المیعاد‘‘ صدر عمر حسن البشیر کو پروان چڑھانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے، پھر انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا اور اپریل میں حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی راہنما کی حمایت و مدد کی۔ سوڈان کی نئی حکومت کے ماتحت کام کرنے والی سیکورٹی فورسز نے جون میں سویلین حکمرانی اور انتخابات کا مطالبہ کرنے والے درجنوں مظاہرین کو موت کے گھاٹ اتارا۔ متحدہ عرب امارات نے اری ٹیریا اور نام نہاد ری پبلک آف صومالی لینڈ میں فوجی اڈے بھی قائم کر رکھے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے سابق افسر کا کہنا ہے کہ ہارن آف افریقا میں کوئی پتھر اٹھایے تو آپ متحدہ عرب امارات کو پائیں گے۔
ہیومن رائٹس واچ میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا ڈویژن کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن کہتی ہیں کہ متحدہ عرب امارات نے خود کو پڑوسیوں سے پرے، دور افتادہ خطوں میں مالیاتی اور عسکری قوت کی حیثیت سے پیش کیا اور منوایا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ صومالیہ ہو یا اریٹیریا، جبوتی ہو یا یمن، متحدہ عرب امارات کو بظاہر کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
یمن میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے ایک ایسے اتحاد کی قیادت کی ہے، جو ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ ویسے متحدہ عرب امارات نے فضائی حملوں میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکت اور لاکھوں افراد کو قحط کی دہلیز تک پہنچانے والی صورتحال پر شدید بین الاقوامی تنقید کے بعد یمن سے فوج نکالنا شروع کردی ہے۔ امریکی کانگریس نے حال ہی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحے کی فروخت روکنے کے لیے قراردادیں منظور کیں تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان اقدامات کو ویٹو کردیا۔ سینٹر فار ریسپانسیو پالیٹکس نے بتایا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ۲۰۱۷ء سے اب تک امریکی لابسٹس پر ۴کروڑ ۶۸ لاکھ ڈالر خرچ کیے ہیں۔
سی آئی اے کے سابق افسران کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کے بارے میں انٹیلی جنس ایسی وجوہ کے حوالے سے درکار ہیں، جو علاقائی مداخلت سے بہت آگے کی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت روس اور چین سے بھی تعلقات استوار کر رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے گزشتہ برس سیکورٹی، تجارت اور آئل مارکیٹس کے حوالے سے اشتراک عمل بڑھانے کی غرض سے روس کے ساتھ وسیع البنیاد اسٹریٹجک شراکت داری قائم کی ہے۔ ابو ظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کے ڈی فیکٹو حکمران شیخ محمد بن زاید نے گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات چائنا اکنامک فورم میں شرکت کے لیے چین کا تین روزہ دورہ کیا۔ قومی سلامتی سے متعلق امور کے چند ماہرین جاسوسی کے فقدان کو امریکا اور متحدہ عرب امارات کے درمیان خوشگوار تعلقات کے مظہر کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ سی آئی اے کے سابق افسر نارمن رولے ایران اور القاعدہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کے دشمن ہمارے بھی دشمن ہیں اور ابوظہبی کے اقدامات نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر معمولی معاونت کی ہے، بالخصوص یمن میں القاعدہ کا قلع قمع کرنے کے حوالے سے۔
جمہوریت اور ’’سیاسی اسلام‘‘ کا خوف
متحدہ عرب امارات کی خارجہ پالیسی کو ابوظہبی کے ولی عہد چند مشیروں کی مدد سے کنٹرول کرتے ہیں۔ انہوں نے امریکا سے تعلیم پانے والے اپنے بھائی شیخ طحنون بن زاید کو (جو مارشل آرٹس کے ماہر اور اعلیٰ نسل کے عربی گھوڑوں کے ایک اصطبل کے مالک ہیں) حال ہی میں اپنا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا ہے۔ ان کے صاحبزادے شیخ خالد بن محمد اندرون ملک نگرانی کا نیٹ ورک چلاتے ہیں۔
امریکا کے سابق ایئر فورس انٹیلی جنس آفیسر اور اب کارنیگی فاؤنڈیشن فار انٹرنیشنل پیس سے وابستہ جوڈی وٹوری کہتے ہیں کہ متعدد ممالک اور خطوں میں متحدہ عرب امارات کی بڑھتی ہوئی مداخلت ۲۰۱۱ء میں شروع ہوئی۔ جب عرب دنیا میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی اور جمہوریت کے مطالبے پر مبنی مظاہرے عرب دنیا میں شروع ہوئے تب متحدہ عرب امارات کے حکمراں خاندان کو اپنا اقتدار محفوظ رکھنے کی فکر لاحق ہوئی۔ خلیج کے بہت سے شاہی خاندانوں کی طرح متحدہ عرب امارات کے قائدین نے بھی عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کو اپنی بادشاہت کے لیے سنگین خطرے کے روپ میں دیکھا۔ تب سے اب تک انہوں نے ’’سیاسی اسلام‘‘ کو ابھرنے سے روکنے اور اخوان المسلمون کے آگے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اخوان المسلمون مصر میں حسنی مبارک کے اقتدار کا تختہ الٹ دینے والے مظاہروں کے بعد مختصر مدت کے لیے اقتدار میں آئی۔ ۲۰۱۲ء میں جب اخوان المسلمون کے امیدوار محمد مرسی (مرحوم) صدر منتخب ہوئے تو متحدہ عرب امارات نے مصر کی اقتصادی امداد روک دی۔ ایک سال بعد جب مصری فوج نے محمد مرسی کو برطرف کرکے اقتدار پر پھر قبضہ کرلیا تو متحدہ عرب امارات نے امداد کی مد میں اربوں ڈالر دیے۔
نارمن وٹوری تسلیم کرتے ہیں کہ امریکا اور متحدہ عرب امارات کے بعض اہداف و مقاصد مشترکہ ہیں تاہم مجموعی طور پر مفادات میں بہت فرق ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات کی بادشاہت کی ساری توجہ اپنے آپ کو بچانے پر مرکوز ہے۔ ہیومن رائٹس واچ میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا ڈویژن کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن کہتی ہیں کہ جب کسی حکومت کا حتمی مقصد کسی بھی قیمت پر صرف اقتدار بچانا ہو تو امریکا اس کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Why the CIA doesn’t spy on the UAE”. (“Reuters”. August 26, 2019)
Leave a Reply